محمد رفیع
9931011524
rafimfp@gmail.com
میں نے پہلے بھی کہا ہے اور ایک بار پھر سے واضح کر دینا چاہتا ہوں کی تمام تنظیموں کو اردو کی تحفظ و بقاء کے لئے پرائمری سطح کے نظام تعلیم کو مستحکم کرنے کی سمت میں دھیان مرکوز کرنا ہوگا۔ اور پرائمری سطح پر اردو کی تعلیم درست ہو اس کے لئے مہم چلانی ہوگی، کچھ پہل حکومت کی طرف سے ہونی چاہئے جس کی ذمہ داری ہمارے رہنما، قائد اٹھائیں اور کچھ پہل غیر سرکاری ہونی چاہئے جس کے لئے ہم سبھی کو مل کر ذمہ داری اٹھانی ہوگی
علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اللہ کے رسول پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی اقرا باسم ربک الذی نازل ہوئی، اس میں اللہ کے پیارے نبی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ ربّ العزت پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ تعلیم کا زبان سے بڑا گہرا تعلق ہے، یہی وہ ذریعہ ہے جس سے ہم تعلیم حاصل کرتے ہیں، ذیروح غیر ذیروح، تکنیکی، غیر تکنیکی، ظاہر پوشیدہ اشیاء کا علم حاصل کرتے ہیں۔ ہندوستان میں زبان و بولیوں کی تعداد بہت زیادہ ہیں مگر سرکاری زبانوں کی تعداد صرف 23 ہیں۔ انہیں میں ایک ہے دنیا کی دوسری سب زیادہ بولی جانے والی زبان، اردو، اردو ہندوستان میں پیدا ہوئی اور ہندوستان میں ہی پلی بڑھی۔ اردو کی میٹھاس و تاثیر کا ایسا اثر ہے کہ یہ ہندوستان کی مشترکہ زبان تسلیم کی جاتی ہے۔
زبان کی ترویج و اشاعت اس کی درس و تدریس پر منحصر کرتی ہے۔ جس کی بنیاد پرائمری سطح پر رکھی جاتی ہے۔ یہ نازک اسٹیج ہوتا ہے۔ کیونکہ بچے کورا کاغذ ہوتے ہیں اس پر ہم جو لکھینگے وہی اس کے علم کی بنیاد ہوگی اور علمی عمارت اسی پر تیار ہوگی۔ پرائمری سطح پر اردو کی تعلیم سے زیادہ اس کے مسائل ہیں۔ اسکول کا نظام صرف اساتذہ سے نہیں چلتا ہے اور نہ ہی طلبہ و طالبات سے بلکہ اس کا نظام اساتذہ، بچے، گارجین، سماج اور پھر تعلیمی ادارہ اوراس کے افسران کی مشترکہ کوششوں سے چلتا ہے۔ اب جب اتنے پہلو ہیں تو سب کا ساتھ مل کر کام کرنا ضروری ہے، ایک بھی پہلو ٹھیک کام نہیں کرے گا تو کام مکمل نہیں ہوگا، رزلٹ امید کے موافق نہیں ہو پائے گی۔ اساتذہ ریگولر نہیں ہیں، روٹین کے مطابق ان کا کام نہیں ہوتا۔ گارجین، والدین بچوں کو اسکول بھیج کر سکون کی نیند لیتے ہیں۔ سماج کو یہ فکر نہیں ہے کہ غریب کے بچے بھی پڑھیں۔ افسران کی حالت ہے کہ اسکول میں چھاپا مارتے ہیں اور غیر حاضر اساتذہ کی حاضری کاٹ کر انہیں بلاک ہیڈ کوارٹر بلایا جاتا ہے اور پھر وہاں معاملہ رفہ دفہ ہو جاتا ہے۔ یعنی اسکول میں چھاپہ تعلیم کی نشوونما کے لئے نہیں اور نہ ہی مثبت سوچ سے ہوتی ہے۔ چھاپہ ماری منفی سوچ کے تحت ہوتی ہے۔
اردو تعلیم سے متعلق داخلی و بیرونی مسائل ہیں۔ اس کے باوجود اسکولوں میں اردو تعلیم کی خستہ حالت کا ایک بڑا وجہ ہے اسکول میں منظور شدہ تعداد کے مطابق تقرری کا فقدان۔ دوسرا طلبہ و طالبات کے تناسب میں اساتذہ کی کمی۔ حالانکہ بڑی تعداد میں ہندی اسکولوں کے اردو بچوں کی تعداد کا تعلیمی ادارہ کو پتا بھی نہیں چلتا۔ دراصل ہندی اسکولوں میں اردو پڑھنے والے مسلم بچے بڑی تعداد میں ہیں مگر اردو اساتذہ نہیں ہونے کی وجہ سے وہ اردو پڑھنے سے محروم رہتے ہیں، ادارہ اردو بچوں کی رپورٹ طلب کرتے ہیں تو وہ اردو کی درس و تدریس نہیں ہونے کا حوالہ دیکر اردو بچوں کی تعداد صفر دکھاتے ہیں۔ آبجرویشن کرنے والے افسران بھی اس پر توجہ نہیں دیتے اور جو بچہ گھر یا مکتب میں اردو پڑھتے ہیں اسکول میں وہ سنسکرت پڑھنے کو مجبور ہیں۔ کیونکہ رپورٹ صفر جانے سے وہاں اردو ٹیچر کی تقرری کا راستہ ہی بند ہو جاتا ہے۔ جہاں اردو بچے اور اساتذہ ہیں وہاں کے اساتذہ کی حالت ہے کہ و پرکشش تنخواہ تو حاصل کرتے ہیں لیکن ان کا کام بااثر نہیں ہوتا ہے۔ اردو اساتذہ میں تربیت کی کمی ہے۔ سبھی زبانوں کے اساتذہ کو ٹرینگ دی جاتی ہے مگر اردو کے اساتذہ کے لئے ادارہ ٹریننگ کا اہتمام نہیں کرتی۔ اردو اساتذہ اردو تدریس کی جدید تکنیک سے عام طور پر ناواقف ہیں۔ محققین ہر روز تدریس کا نیا نیا اسلوب، نئ نئ تخلیق تیار کر رہے ہیں، جبکہ اردو اساتذہ آج بھی روایتی طریقہ سے ہی اردو پڑھاتے ہیں۔ اردو اساتذہ کو جدید اشیاء مثلاً لینگویج لیب، پروجیکٹر، آڈیو ویڈیو نظام کا علم نہیں ہے، اور جسے علم ہے وہ اس کے استعمال سے ناواقف ہیں کیونکہ اردو کے لئے اس کا استعمال نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی اردو اساتذہ کو ٹرینگ ہی دی جاتی ہے۔ تدریس کی معاون اشیاء سے طلبہ و طالبات میں درس میں دلچسپی پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے اساتذہ کو جدید و روایتی ٹریننگ دی جائے۔ اساتذہ میں بھی مطالع کا فقدان ہے جو دور ہونی چاہئے۔
اردو ایک زبان ہے مگر افسوس کہ ہم اسے ذریعہ تعلیم نہیں بنا پائے۔ اسکولوں میں جو تدریسی مواد سپلائی ہوتے ہیں اس کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ ‘ اردو اسکول ‘ کے بچے اور اساتذہ صرف ایک پرچہ زبان کی شکل میں اردو کا پرچہ لیتے ہیں باقی ہندی میں شائع کتاب ہی لیتے ہیں۔ اس لئے اردو کتاب کو چھوڑ کر باقی درسی مضامین اردو میں ناپید ہیں۔ پرائمری اور سیکنڈری سطح پر ماحولیات، سائنس، علم سماجیات، علم الحساب، معاشیات، علم طبیعیات اور علم کیمیا وغیرہ کی کتابیں اردو میں دستیاب نہیں ہیں۔ ہماری تعصب کے نتیجہ میں سرکاری سطح پر اب یہ کتابیں شائع بھی نہیں ہوتیں اور اردو والوں کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی رجحان حاصل نہیں ہوتا ہے۔ لیکن اردو میں بے انتہا ادبی و علمی لعل و گوہر پوشیدہ ہیں، وہیں حیدرآباد کا معروف ادارہ ‘ دارالترجمہ ‘ تقریباً ہر مضمون کی کتب تیار کی تھیں۔ سائنسی اصطلاحات کا ترجمہ کرنے کا تاریخی کارنامہ انجام دیا تھا۔
غیروں سے زیادہ اپنوں کے ظلم کا شکار ہے اردو۔ باشعور، سماج میں بڑی شان اور رتبہ رکھنے والوں کو اردو سے کوئی سروکار نہیں، اپنے بچوں کو وہ اردو کی تعلیم دلانا ہیچ سمجھتے ہیں۔ اوسط اور کم آمدنی والے طبقات کے لوگ ہی اپنے بچوں کو اردو کے ذریعہ تعلیم دلاتے ہیں۔ اس لئے ایسے لوگوں کو ترغیب دیکر اردو کی تعلیم کی طرف راغب کرنے کی ضرورت ہے اس کے لئے ہم انہیں اردو کی افادیت سے آشنا بنائیں گے، اور یہ بتائیں گے کہ اردو ایک زبان و ادب ہی نہیں ہے بلکہ یہ ہماری تہذیب و ذریعہ معاش بھی ہے تبھی یہ ممکن ہوگا کہ ہر طبقہ کے لوگوں میں اردو تعلیم حاصل کرنے کا جزبہ پیدا ہوگا۔
میں نے پہلے بھی کہا ہے اور ایک بار پھر سے واضح کر دینا چاہتا ہوں کی تمام تنظیموں کو اردو کی تحفظ و بقاء کے لئے پرائمری سطح کے نظام تعلیم کو مستحکم کرنے کی سمت میں دھیان مرکوز کرنا ہوگا۔ اور پرائمری سطح پر اردو کی تعلیم درست ہو اس کے لئے مہم چلانی ہوگی، کچھ پہل حکومت کی طرف سے ہونی چاہئے جس کی ذمہ داری ہمارے رہنما، قائد اٹھائیں اور کچھ پہل غیر سرکاری ہونی چاہئے جس کے لئے ہم سبھی کو مل کر ذمہ داری اٹھانی ہوگی۔ پرائمری تعلیمی نظام میں درستگی کے لئے ہمیں کچھ اور قدم جو اٹھانے چاہئے اس میں یہ بھی ہے کہ افسران کے رویہ میں تبدیلی ہو، بچہ ریگولر اسکول آئے، اساتذہ ریگولر رہیں، آنگن باری کو پلے اسکول کی حقیقی شکل دی جائے کیونکہ ماں کی گود کے بعد بچے کا یہ پہلا خارجی تجربہ ہے جہاں اس کا پورا خیال رکھا جانا چاہئے، تعلیمی شعبہ میں بے جا تجربات بند کئے جائیں، اساتذہ صحیح سمت میں کام کریں، اساتذہ کے وقار کو مجروح نہ کیا جائے، عوام میں اساتذہ کی عزت ہو تاکہ والدین پورے اعتماد کے ساتھ اپنے بچے ان کے حوالے کریں، اساتذہ کے درمیان بحالی وغیرہ کے نام کی تفریق کو ختم کیا جانا چاہئے ایسے تمام چھوٹے بڑے معاملے کو دفن کر دیا جائے جو درس و تدریس میں رکاوٹ پیدا کرتا ہو، تب ہمیں اصل مقصد کی حصول یابی ہوگی۔ ایک بات اور واضح کر دوں کہ کالج و یونیورسٹیوں میں اردو کے ڈپارٹمنٹ بند ہونے کے قریب ہیں، اس کا اصل وجہ ہے کہ طلبہ و طالبات پرائمری و سیکینڈری سطح پر ہی اردو سے دور ہیں تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آنے والا وقت کتنا تاریک ہوگا، کتنا خوفناک ہوگا۔ آپ یقین جانیں کہ سرکاری ملازمت میں ہماری تعداد اردو کی وجہ سے ہی ہے۔ بہار میں دو سنٹرل یونیورسٹیاں ہیں سنٹرل یونیورسٹی آف ساؤتھ بہار، گیا اور مہاتما گاندھی سنٹرل یونیورسٹی، موتیہاری۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ دونوں یونیورسٹیوں میں اردو کا شعبہ نہیں ہے، اردو کے پروفیسرس نہیں ہیں۔ یہ انکشاف جامعہ ملیہ اسلامیہ کالج دلی کے اسسٹنٹ پروفیسر اور غلام محمد یحییٰ فاؤنڈیشن کے صدر ڈاکٹر خالد مبشر نے کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ابھی یہاں 52 کورسیز کی تعلیم جاری ہے مگر اردو کا شعبہ نہیں ہے جبکہ ہندی کا شعبہ باضابطہ کام کر رہا ہے۔ ہماری محرومی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ‘ گیا ‘ میں سال 2009 اور ‘ موتیہاری ‘ میں 2016 میں یونیورسٹی قائم ہوئی اور اب یہ انکشاف ہو رہا ہے کہ وہاں اردہ کے شعبے نہیں ہیں، اس کا ذمہ دار کون؟ اس کا ایک ہی جواب ہے
اردو سے ہم دور ہو رہے ہیں
زمین چھوڑ آسمان گھوم رہے ہیں
پرائمری نظام تعلیم ہی اصل ہے، اس کے بغیر ہم بس ہوا ہی میں باتیں کر سکتے ہیں، زمینی حقیقت سے دور ہونے کا نتیجہ ہم جانتے ہیں کہ اردو صرف یونیورسٹیوں سے ہی نہیں ہمارے گھروں سے بھی نکل رہی ہے اور ہم تماشائی بنے ہیں۔
اردو کیا ہے؟ تحریک یا پھر تہذیب
ہماری آبرو، خادم اردو یا پھر ادیب
ایک زبان، اردو جو ہوا ظلم کا شکار
یہ ہماری فطرت ہے یا پھر نصیب