طالبان حقیقت پسندی کا مظاہرہ کر رہے ہیں

0
0

انہیں ان کے اعمال سے پرکھنا چاہئے: قطر
یواین آئی

دوحہ؍؍قطر نے افغانستان میں نئی عبوری حکومت کی تشکیل کے اعلان کے بعد طالبان حقیقت پسندی کا مظاہرہ کر رہے ہیں انہیں ان کے اعمال سے پرکھنا چاہئے۔قطر نے کہا کہ طالبان نے ‘حقیقت پسندی’ کا مظاہرہ کیا ہے اور انہیں افغانستان کے غیر متنازع حکمرانوں کے طور پر ان کے اعمال سے لگانا چاہیے۔تاہم قطر نے اسلام پسندوں کو باضابطہ تسلیم کرنے کا اعلان نہیں کیا۔غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق قطری نائب وزیر خارجہ لولوۃ الخاطر نے اے ایف پی کو ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ یہ افغانوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا تعین کریں، عالمی برادری پر نہیں۔لولو الخاطر نے افغانستان کے نئے حکمرانوں کو باضابطہ تسلیم کرنے کا اعلان کیے بغیر کہا کہ ‘انہوں نے حقیقت پسندی کا بہت زیادہ مظاہرہ کیا ہے، ان کے عوامی اقدامات کو دیکھیں ‘۔طالبان کی جانب سے عبوری حکومت کی رونمائی سے قبل پیر کی رات کو ہونے والے انٹرویو میں انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ‘وہ ڈی فیکٹو حکمران ہیں، اس میں کوئی شک نہیں ‘۔طالبان نے منگل کو ملا محمد حسن اخوند کی سربراہی میں قائم مقام حکومت کی رونمائی کی تھی تاہم ابھی تک قطر سمیت اقوام متحدہ کے کسی رکن ملک نے اسے باقاعدہ تسلیم نہیں کیا ہے۔لولو الخاطر نے اے ایف پی کو بتایا کہ ‘حقیقت یہ ہے کہ بہت سے بے گھر افراد کابل چھوڑنے میں کامیاب ہوئے، بشمول بہت سی طالبات، یہ ایک اس بات کا ثبوت ہے، کیونکہ ان کے تعاون کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا’۔انہوں نے کہا کہ قطر کی جانب سے طالبان کو فوری طور پر تسلیم نہیں کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ‘ہم تسلیم کرنے میں جلدی بازی نہیں کریں گے تاہم ہم طالبان سے کنارہ کشی اختیار نہیں کر رہے، ہم بیچ کا راستہ اپنا رہے ہیں ‘۔ڈان کی رپورٹ کے مطابق امریکہ نے منگل کے روز کہا تھا کہ وہ طالبان کی جانب سے ایک دن پہلے منظر عام پر لائی گئی حکومت کے بارے میں ‘فکر مند’ ہے۔اس نے یہ نشاندہی کی تھی کہ یہ صرف طالبان کے ارکان پر مشتمل ہے اور اس میں کوئی خاتون شامل نہیں ہے۔لولو الخاطر نے کہا کہ اقتدار میں واپس آنے کے بعد سے طالبان نے اپنے صحت کے حکام بشمول خواتین ڈاکٹرز کو اپنے کورونا وائرس کے ردعمل کو جاری رکھنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا ہے۔خیال رہے کہ مغربی ممالک اور این جی اوز کی جانب سے تنظیم سے خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کا احترام کرنے کے مطالبات 15 اگست کو کابل پر قبضے کے بعد سے دیکھے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ‘افغانستان ایک خودمختار ملک ہے، افغانستان کے لوگوں کو اپنی رائے دینی چاہیے’۔انہوں نے کہا کہ ‘جب ہم بات کرتے ہیں کہ افغانستان بین الاقوامی برادری کے سامنے جوابدہ ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بین الاقوامی برادری افغانستان کے لوگوں کی قسمت کو کنٹرول کر سکتی ہے یا اسے کرنا چاہیے’۔واضح رہے کہ قطر ایک امریکی اتحادی ہے اور خطے کے سب سے بڑے امریکی ایئر بیس کا میزبان ہے جو افغانستان سے انخلا اور سفارت کاری دونوں میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر دیکھا گیا ہے۔افغانستان سے ایئر لفٹ کیے گئے ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد افراد میں سے تقریباً نصف قطر کے راستے منتقل ہوئے ہیں۔قطر کے اقدامات نے طالبان کے دوبارہ منظر عام پر آنے میں کردار ادا کیا ہے، اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ‘پیغام دینے والے کا قتل مت کریں ‘۔انہوں نے کہا کہ ‘قطر پیغام رساں ہے، ہم سہولت فراہم کرتے رہے ہیں ‘۔یاد رہے کہ قبضے کے جواب میں تاریخ کے سب سے بڑے ایئرلفٹ میں سے ایک کو چلانے کے بعد قطر بین الاقوامی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔لولو الخاطر نے بڑی حد تک دوحہ کے انخلا کی کارروائیوں کی نگرانی کی اور یہاں تک کہ کچھ مہاجرین کو ذاتی طور پر وصول کیا۔عربی صحرائی ملک کے دو روزہ دورے پر امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے قطر کے حکمران امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی کی کوششوں کو سراہا۔انہوں نے کہا کہ ‘بہت سے لوگ ہماری ثالثی اور نقطہ نظر پر سوال اٹھا رہے تھے لیکن اب میں سمجھتا ہوں کہ ہم اسے ایک حقیقی امتحان میں ڈال رہے ہیں اور پوری دنیا اس ثالثی میں ہماری مدد اور سہولت کے لیے ہماری طرف دیکھ رہی ہے’۔انہوں نے کہاکہ ‘اگر (طالبان) انسانی حقوق، خواتین کے حقوق بالخصوص خواتین کی تعلیم کا احترام کرتے ہیں تو اس کے فوائد ہوں گے، اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو اس کے نتائج برآمد ہوں گے’۔انہوں نے کہا کہ لاجسٹک چیلنجز کے باوجود وہ پرامید ہیں کہ امدادی کوششیں دوبارہ شروع ہو سکتی ہیں لیکن انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کو سیاست کی نظر نہیں ہونا چاہیے، انہیں انسانی حقوق اور ترقیاتی امداد پر توجہ دینی چاہیے۔واضح رہے کہ دوحہ طالبان کے درمیان مرکزی ثالث تھا جس نے 2013 میں قطر میں ایک سیاسی دفتر کھولا تھا۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا