غزل

0
0

حروف ابھرے ہوئے ہیں اداس چہروں پر
ہے کس کتاب کا یہ اقتباس چہروں پر

ہوس پرستوں کو محفل سے دور رکھنے کو
نگاہ رکھتی ہوں میں آس پاس چہروں پر

عجیب قسم کا موسم ادھر سے گزرا ہے
ہر ایک سمت برستی ہے یاس چہروں پر

انھیں غموں کو چھپانے کا ہے سلیقہ جو
ہنسی سجائے ہوئے ہیں اداس چہروں پر

نہ جانے کیسی وبا آئی ہے زمانے میں
پہننا پڑتا ہے اب تو لباس چہروں پر

ولا ثمر ہے مرے دل کی کاوشوں کا یہی
سکون لاتی ہوں میں بدحواس چہروں پر

ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی
اردو کی ایسو سی ایٹ پروفیسر
عین شمس یونیورسٹی
قاہرہ۔ مصر

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا