812ویں عرس شریف کے موقع پر مختصر تذکرہ قُطب المشایخ بر و بحر، ہِند الولی،عطاے رسُول، تاج المُقربِین و المحققِین، سیّدُ العارفِین، امامِ شریعت و الطرِیقت، مُحِبّ اولیائ، رہنُماے کاملیِن حضرت سیّدناخواجہ مُعِین الدّین حسن سنجری چِشتی غرِیب نواز رحمتہ اللہ علیہ

0
0

۰۰۰
مرزا چشتی صابری نظامی۔ بیدر شریف
۰۰۰
والدِ ماجِد حضرت سیدنا خواجہ معین الدین چشتی غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ کے والدِ ماجد کا نام حضرت سیدنا غیاث الدین ؒ ہے جو کہ حضرت سیدنا امام حسین ؑ کی اولاد سے ہین۔ آپ کے والدِ ماجد علمِ ظاہر و باطن میں نہایت بُلند مرتبت تھے اور ان کا شُمار مشایخِ کُبار میں ہوتا ہے۔
والدہ ماجدہ والدہ ماجدہ کا نام حضرتہ بی بی امُ الورعؒ ہے لیکن بعض مورخین کا خیال ہے کہ آپ کے والدہ ماجدہ کا نام ماہ نورؒ ہے۔ والدہ ماجدہ حضرت سیدنا امام حُسین ؑ کی اولاد سے ہین۔ اس طرح حضرت خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ نجیبُ الطّرفین سیّد ہین۔
حضرت غوث پاکؒ سے رشتہ داری
حضرت غوث اعظم دستگیرؒ اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی غریب نوازؒ آپس میں قریبی رشتہ دار ہین۔ حضرت غوث پاکؒ، حضرت خواجہ غریب نوازؒ کے مامُوں ہوتے ہین۔ ایک اور رشتہ سے حضرت خواجہ معین الدّین چشتیؒ حضرت غوث پاکؒ کے خالہ زاد بھاء اور مامُوں بھی ہوتے ہین۔
وِلادت باسعادت
جاے ولادت کے تعلق سے اختلاف ہے بعض کا خیال ہے کہ آپ کی جاے ولادت سجستان ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ کی جاے ولادت اصفہان ہے اور پرورش آپ کی سنجار میں ہُوی جو کہ بعد میں سنجر کے نام سے مشہُور ہُوا۔ اُس زمانے میں سنجار کے ایک محلے کا نام سنجر تھا جہاں حضرت خواجہ کے والد ماجد کی بُود و باش تھی۔
تاریخ ولادت تاریخ ولادت کے تعلق سے بھی کافی اختلاف ہے۔ آپ کی سنہ پیدایش ۳۲۵ ہجری سے ۷۳۵ کے درمیان بیان کی گء ہے۔ لیکن تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ولادت باسعادت سنہ 530 ہجری ہے۔
نام نامی آپ کا نام سیّد معین الدین رکھا گیا، بعض تذکرہ نویس فرماتے ہین کہ آپ کا نام سید معین الدین حسن ہے۔ آپ مقبُولِ بارگاہِ ایزدی اور دربارِ رسالتمآب ہین۔ سرکار دو عالم ﷺ سے آپ کو قُطبُ المشایخ بر و بحر کا خطاب عطا ہُوا۔
تعلیم و تربیت ابتداء تعلیم گھر پر ہی ہوی۔ آپ کے والد ماجد خود ایک پاے کے عالم تھے۔ نوء 9 برس کی عمر میں آپ نے قرآنِ مجید فرقانِ حمید حفظ فرمالیا۔ بعد ازاں سنجر کے ایک مکتب میں آپ نے تفسیر، حدیث، فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ ابھی آپ محض پندرا (15) سال کے تھے کہ والدِ ماجد کا وِصال ہوگیا۔ والد ماجد کے ترکہ میں آپ کو ایک باغ اور پن چکی مِلی اور آپ اپنا گزارا اُسی میں فرماتے تھے۔ آپ کی غریب نوازی آپ کے بچپن ہی سے مشہور ہے کہ صرف تین، چار سال کی عمر میں آپ اپنے ہم عمر بچوں کو اپنے یہاں بُلا کے کھانا کھلاتے اور خُوش ہوتے۔ اسی طرح عیدین کے موقع پر غریبوں کو کپڑے بھی عطا فرماتے۔آپ اپنے بچپن میں اور بچوں کء طرح کھیل کود میں شریک نہیں ہوتے تھے۔
راہِ صوفیہ حضرت خواجہ غریب نواز کو ابتداء ہی سے فقرائ، صوفیوں اور درویشوں کی محبت کا بے حد شوق تھا۔ آپ ان سے ملتے اور بے حد عزت و تعظیم فرماتے۔
حضرت ابراھیم قندوزیؒ سے ملاقات آپ ابھی پندرہ سال کے تھے اور ایک دن اپنے باغ کو پانی دے رہے تھے کہ ایک مجذوب جن کا نام ابراھیم قندوزیؒ ہے وہاں وارد ہوے۔ حضرت خواجہؒ نے ان کا استقبال فرمایا، نہایت عجز و انکساری سے پیش آے اور ان کی خاطر تواضع فرمایا۔ چنانچہ حضرت ابراھیم قندوزی آپ سے بے حد مُتاثر ہوے اور ایک کھلّی کا تکڑا نکالا، اُسکو چباکر خواجہ حضرت کو عطا فرمادیا۔ خواجہ حضرت نے وہ تکڑا جیسے ہی کھایا آپ پر سے تمام ظاہری حجابات اُٹھ گیء اور آپ کا دِل دُنیا کی محبّت سے یکسر خالی ہوگیا۔ چنانچہ آپ اپنا باغ اور پن چکی فروخت کردے کر اُسکا سارا پیسہ فقراء اور غرباء میں تقسیم فرمادیا اور راہ صوفیہ یعنی راہ حق پر روانہ ہوگیئ۔چنانچہ آپ نے اس ضمن میں سمرقند، بخارا، بغداد، عراق، عرب حرمین شریفین، کرمان، ہمدان، تبریز، استرآباد، خرقان، میمنہ، چشت، ہرات، سبزہ وار، ملتان، لاہور غزنی وغیرہ کا سفر کیا اور ظاہری و باطنی علم حاصل فرمایا۔
بیعت آپ نے پیر و مرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونی کے دستِ حق پر ہارون میں سنہ 552 ہجری میں بیعت فرمایا اسکے بعد انہوں نے مکرّر شہر بغداد میں اُنہی کے دست حق پر بیعت تقرُّب یا بیعت ثانی سنہ 562 ہجری میں فرمایا۔ اسکے بعد آپ نے اپنے پیر مرشد کی بے مثال خدمت کی۔ بِیس ۰۲ سال تک اپنے پیر ومرشد حضرت خواجہ عُثمانِ ہارونیؒ کی خدمت میں سفر و سیاحت میں رہے۔ آپ کے پیر و مرشد نے آپ سے متاثر ہوکر وہ نعمت عطا فرماء کہ جسکی حد و نظیر نہیں۔ حضرت خواجہ کو اپنا جانشین خلیفہ مقرّر فرمایا اور نصیحت فرماء کہ خلق سے طمع نہ رکھنا اور آبادی سے دُور رہنا، کِسی سے کچھ طلب نہ کرنا۔ اس کے بعد آپ بضمنِ تبلیغ و ہدایت مختلف مقامات پر تشریف لے گیئ۔
ورُودِ اجمیر آپ بحکمِ رساتمآب حضورِ اکرم ﷺ براے تبلیغ و ہدایت مختلف مقامات سے ہوتے ہُوے سنہ 586 ہجری میں اجمیر شریف تشریف لاے اور اپنے مخالفین و دُشمنان کی پرواہ نہ کرتے ہوے بے شُمار لوگوں کو صراطِ مستقیم سے رُوشناس فرمایا۔
نہ صرف اجمیر شریف بلکہ پورے ہندوستان و عالم میں صراطِ مسقیم کا ڈنکا بجادیا۔الحمدللہ آپ کا سلسلہ مرشدینِ کامل کے ہاتھوں آج بھی جاری ہے اور تا قیامت رہے گا۔ کرامات آپ کے کرامات اس قدر ہین کہ اس مختصر سے مضمون میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ آپ نے مُردوں کو زندہ فرمایا، جادوگروں کے جادو کو باطل کردیا، اناساگر تالاب کا پانی خشک کردیا پھر پرتھوی راج کی التجا پر پانی واپس لوٹا دیا، باطل پر حق کو غالب فرمادیا وغیرہ۔
ازواج و اولاد
آپ نے حسب الحکم رسول اکرم ﷺ پہلی شادی حضرتہ امتہ اللہ ؒ سے سنہ 590 ہجری میں فرماء اور دوسری شادی حضرتہ عصمت اللہؒ سے سنی 620 ہجری میں فرمائ۔ حضرتہ بی بی امت اللہ کے بطن سے حضرت خواجہ فخرالدین چشتیؒ، حضرت خواجہ حُسام الدین چشتیؒ اور حضرتہ بی بی حافظہ جمالؒ تولد ہوے اور حضرتہ بی بی عصمت اللہؒ سے حضرت شیخ ابو سعید ؒ تولد ہوے۔
وصال 6/ رجب سنہ 627 ہجری بروز دوشنبہ عشاء کی نماز کے بعد آپ نے اپنے حجرے کا دروازہ بند کرلیا اور کسی کو بھی اندر آنے کی اجازت نہ تھی۔ خُدّام نے رات بھر صداے وجد سنا اور جب رات کے آخری حصے میں آواز آنی بند ہوگء اور فجر کے وقت بھی دروازہ نہیں کُھلا تو خدام نے دروازے کو توڑ دیا اور اندر داخل ہوے تو دیکھا کہ حضرت خواجہ غریب نوازؒ رحمت حق میں پیوست ہوچکے ہین اور آپ کی جبین مبارک پر نُورانی تحریر تھی کہ
ھذا حبیب اللہ مات فی حب اللہ
(اللہ کے حبیب اللہ کی محبت میں وصال فرماگیئ)
جس حجرے میں آپ نے وصال فرمایا اسی حجرے میں آپکو رکھا گیا۔ آپ کا عرس مبارک یکم رجب سے چھ 6/ رجب تک جاری رہتا ہے۔ بے شمار پرستاران خواجہ درگاہ مقدس پر آکر شب و روز فیوض و برکات حاصل کرتے ہین۔
سیرت پاک و اخلاق آپ اعلی روحانی درجے پر فایز تھے اور اپنے پیر و مرشد کے نہایت چہیتے تھے۔ آپکے پیر و مرشد اکثر فرماتے ھمارا معین خدا کا محبوب ہے مجھے اس پر فخر ہے۔ سنت رسول اللہ ﷺ کے بیحد پابند تھے اور فنا فی الرسول کے درجے پر پہنچ گیء تھے۔ سارا وقت عبادت، ریاضت، اور مجاہدے میں گزارتے۔دن رات میں دو قرآن مجید ختم فرماتے۔ آپ کو سماع بے حد پسند تھ۔ اپنے مریدوں کا بہت خیال رکھتے اور فرماتے معین الدّین اُس وقت تک جنت میں قدم نہیں رکھے گا جب تک اپنے مریدوں جو کہ تا قیامت اس سلسلے میں داخل ہونگے انہیں جنت میں نہ لے جاے گا۔کبھی آپ جلال میں ہوتے اور کبھی حالتِ جمال میں۔ مختصر یہ کہ آپ 6احدیت میں فنا ہوکر اپنے دوست کے ساتھ ہمرنگ ہوگیء تھے۔آپ اعلی اخلاق محمدی کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔کبھی آپ نے کسی سایل کو اپنے در سے محروم نہیں فرمایا۔
ارشادات آپ کے بے شمار ارشادات ہیں لیکن یہاں صِرف چند پیش کئے گئے ہیں۔
1. عارف ملک و مال سے بیزار ہوجاتا ہے۔
2.عارف دنیا کا دشمن اور خدا کا دوست ہوتا ہے۔
3.اہلِ عرفان یاد الہی کے سوا اور کوء بات زبان سے نہیں نکالتے۔
4.عارف وہ ہے جو راہ عشق میں سواے خدا کے کسی کو نہ دیکھے۔
5.جس نے خدا کو پہچان لیا اگر وہ خلق سے دُور نہ بھاگے تو سمجھ لو اُس میں کوء نعمت نہیں۔
6. اگر کافر سوء ۱۰۰ برس تک لآ الہ الا اللہ کہے تو مسلمان نہیں لیکن ایک مرتبہ محمّدﷺ رسول اللہ کہے تو صد سالہ کفر دُور ہوجاتا ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا