نسائی شاعری کی منفرد اور معتبر آواز: فرزانہ فرح

0
218
ڈاکٹر انیس صدیقی
‘رکا سا موسم’ کی خالق ڈاکٹر فرزانہ فرح، گلستان شعر و ادب میں گل سر سبد کی حیثیت کی حامل ہیں۔شاعری، طنز ومزاح، انشائیہ نگاری اور خاکہ نگاری ان کے تخلیقی اظہاریے ہیں۔شعبہ تعلیم و تعلم سے وابستہ ڈاکٹر فرزانہ فرح، بھٹکل کے باوقار اور قدیم انجمن پری یونیورسٹی کالج برائے اناث میں بہ حیثیت پرنسپال کارگزار ہیں۔
قلم و قرطاس سے فرزانہ فرح کی شیفتگی کا دورانیہ کم و بیش تین دہائیوں پر مشتمل ہے۔ان کی شعر گوئی کا آغاز اگرچہ طالب علمی کے زمانے ہی میں ہوا، تاہم ان کی ذات کے درون میں پنہاں ظرافت نگاری کے غلبے نے شاعرہ فرزانہ فرح کو قدرے پس پشت کردیا۔چنانچہ ان کے اشہب قلم نے میدان طنز و ظرافت میں ایسی دوڑ لگائی کہ درجنوں مضامین ان کی نوک قلم نکلے اور نہ صرف ملک و بیرون ملک کے موقر اخبارات و رسائل میں شائع ہوئے بلکہ ان مضامین پر مشتمل دو مجموعے ‘شوخی تحریر’ اور ‘تحریر کی لذت’ پئے در پئے شائع ہو کر طنز ومزاح کے گرویدہ اردو حلقوں میں شرف قبولیت بھی حاصل کر چکے ہیں اور ان کے نام کے ساتھ ایک معتبر طنز و مزاح نگار کی مہر ثبت ہو چکی ہے۔
طنز و ظرافت کے ہم دوش شعر و سخن سے بھی ڈاکٹر فرزانہ فرح کو والہانہ عشق ہے۔بہ ظاہر ظرافت اور شاعری متضاد اور متوازی صفات کی حامل لگتی ہیں، لیکن فرزانہ فرح کی شخصیت کا کمال یہ ہے کہ وہ مزاحیہ اور طنزیہ نگارشات میں جتنی شوخ و شنگ اور شگفتہ طبع نظر آتی ہیں، اتنی ہی ان کی شاعری، ان کی سرشت کے اس پہلو کو درشاتی ہے. جس پر سنجیدگی و متانت اور بردباری کا پرتو واضح دکھائی دیتا ہے۔
‘رکا سا موسم’ فرزانہ فرح کے شعری فن پاروں پر مشتمل اولین کتاب ہے۔کتاب کی ظاہری دیدہ زیبی، جہاں شاعرہ کی خوش سلیقگی اور عمدہ جمالیاتی ذوق کی آئینہ دار ہے، وہیں اندرون صفحات محصور کائنات شعری میں کئی راہداریاں اور پگڈنڈیاں ایسی ملتی ہیں، جن سے گزرتے ہوئے قاری مسرت و انبساط اور خوش کن حیرت و استعجاب سے دوچار ہوتا ہے۔
212 صفحات کو محیط کتاب ‘رکا سا موسم’ میں ایک حمد، دو نعتیں، 53 غزلیں اور 68 نظمیں نیز متفرق اشعار شامل ہیں۔ابتدا میں ‘اقرار’ کے زیر عنوان فرزانہ فرح کی مختصر سی مبسوط تحریر کا بین السطور، ان کی سوچ د فکر کے علاوہ ان کی زندگی پر گزرے سرد و گرم موسموں کا سمت نما ہے۔اور یہ تحریر ان کے شعری سروکار کا ماحصل بھی ہے۔اس کتاب میں ‘اقرار’ کے سوا کوئی اور پیش نامے یا تقریظ کی عدم شمولیت فرزانہ فرح کی خود اعتمادی کی مظہر ہے کہ وہ اپنے کلام کو راست قاری کے ذوق مطالعہ کے روبرو کرنا چاہتی ہیں۔
زندگی رنج و راحت کے حسین امتزاج کا نام ہے اور شاعری، زندگی کے ان ہی تلخ و شیریں لمحات سے ہی کشید کی جاتی ہے۔چنانچہ اچھی شاعری وہی ہے، جس کے باطن میں زندگی دھڑکتی اور سانس لیتی محسوس ہو۔
فرزانہ فرح کی شاعری میں بھی نشیب و فراز سے دوچار زندگی کے بہت سارے رنگ نمایاں ہیں۔اور یہ سارے رنگ اکتسابی و خارجی کم اور تجربات و مشاہدات سے ماخوذ داخلی زیادہ ہیں۔
ان کے کلام سے منتخب ان اشعار سے لگتا ہے کہ ان کے ہاں کسک، محرومی، تنہائی، تشنہ لبی، عدم آسودگی، ہجر و فراق، ادھورے پن کا احساس جیسے موضوعات کی کثرت ہے؛ 
وصل سے ہو نہ سکی بھرپائی
ہجر نے وہ ملال رکھا ہے
جو بھی آتا ہے چھوڑ جاتا ہے
جیسے آسیب کا مکاں ہوں میں
سب نے مقدور بھر رکھا تشنہ
بادلو! اب تمھاری باری ہے
ساحل لب پہ اپنی پیاس رکھ دی
سمندر سے کبھی بولا نہیں کچھ
کبھی آؤ سیاحت کو تو دیکھتے جانا
حنوط کر کے کئی خواہشات رکھی ہیں
ایسے اور اشعار پیش کیے جا سکتے ہیں، لیکن بہ قول فرزانہ فرح ”زندگی کے دریدہ دامن میں جہاں جہاں جگنو جھلملائے، عود مہکا، قوس قزح اتری، اس کے پیکر، شعری کینوس پر پوری ایمانداری سے اتارے۔اس کی خوش باش فطرت کا تقاضا کہتا تھا؛
سفر کالے سمندر کا ہو، یا رہین بینائی
یقین کاایک سورج ساری تاریکی پہ بھاری ہے
چنانچہ فرزانہ فرح کے کلام میں زندگی کے سوز و گداز کے بیان میں شکست خوردگی، یاسیت پسندی یا ناامیدی کی بجائے حوصلگی اور امید و بیم کی کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔چند اشعار ملاحظہ کریں؛
دام جتنے بھی لے بدبختی
حوصلوں کی اڑان باقی ہے
منزلوں کی دوری کا خوف فرح کس کو ہے
ہمتوں کو مژدہ دو، سختیاں پرانی ہیں
پل کے اس پار تو خوشی ہوگی
درد اس پار چھوڑ دیتے ہیں
کچھ سفینے بھنور نصیب سہی
اے ہوا، بادبان باقی ہے
روح تعمیر جواں، بستیاں ہوں گی آباد
آندھیو! کس کو یہاں خوف کہ گھر جاتا ہے
ہیں دل میں چاند آنکھوں میں ستارے
اماوس کو چلو شرمندہ کرلیں
یہی وجہ ہے کہ فرزانہ فرح کی شاعری میں اندھیری شب کی تیرگی کی قبا کو روپہلی چاندنی چاک کرتی نظر آتی ہے، خزاں سے بہار جلوہ گر ہوتی محسوس ہوتی ہے اور زندگی کے حرماں نصیب روئیے، گل نورستہ میں ڈھلتے دکھائی دیتے ہیں۔
شاعری جہاں درون ذات کے احساسات و جذبات کے اظہار کا نام ہے، وہیں خارجی عوامل بھی شاعر کی سوچ و فکر پر اثر انداز ہوتے ہیں۔چنانچہ اطراف بکھری زندگی کے سیاسی و سماجی اعمال و افعال سے متعلق موضوعات پر اشعار فرزانہ فرح کی سماجی و سیاسی بصیرت کی غمازی کرتے ہیں؛
انتخابات و سیاست کے کرم ہیں شاید
اب تو دہشت سے بھی دہشت نہیں ہوتی مجھ کو
اندھی صحافتوں کو دھماکے سے غرض تھی
زخمی کو کوئی ہاتھ لگانے نہیں گیا
اب جنگ لازم ہے مگر رہبر یہ کہتے ہیں
دعا کو وقت ہے اپنی ابھی تلوار رکھ آئیں
پائے کیا نسل نو خزانہ جب
اپنی مٹی میں کچھ رہا ہی نہیں
‘رکا سا موسم’ کے نظمیہ حصے میں بیش تر نظمیں آزاد نظم کی ہئیت میں نسائی شعور اور لب و لہجے کی عکاس ہیں، جن میں ڈاکٹر فرزانہ فرح نے نسائی جذبات اور احساسات کو نہایت سادگی مگر فنکارانہ چابکدستی کے ساتھ پیش کیا ہے۔جذبات کی صداقت اور لفظیات کی لطافت ان نظموں میں دل پذیری اور اثر آفرینی کی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ایسی نظموں میں رکا سا موسم، نقش دیرینہ، چپ، قرب، اعتبار، نامکمل اور فریب احساس وغیرہ قابل ذکر ہیں۔علاوہ ازیں فرزانہ فرح کی جو پابند نظمیں ہیں وہ عموماً موضوعاتی ہیں، جن میں سے کچھ نظموں میں حب الوطنی اور قومی یکجہتی کو موضوع بنایا گیا ہے تو کچھ نظمیں ایسی بھی ہیں، جن میں مختلف شعبہ حیات کی شخصیتوں کو موضوع بنا کر خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔
مجموعی اعتبار سے فرزانہ فرح کی شاعری میں احساس و جذبہ کی رسانیت اور فنی در و بست کا ہنرمندانہ اظہار ملتا ہے۔
لہجے اور اسلوب میں تازہ کاری، سبک اور مترنم لفظیات کا برمحل استعمال، خیال کی ترسیل میں سہل پسندی، ڈاکٹر فرزانہ فرح کو ان کی معاصر شاعرات میں مقام انفراد عطا کرتی ہے۔
میں ڈاکٹر فرزانہ فرح کو ان کی اس صوری و معنوی دونوں اعتبار سے خوبصورت کتاب کی اشاعت پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا