سابق مرکزی وزیر ڈاکٹر کے رحمن خان سے محمد اعظم شاہد کا خصوصی انٹرویو
ڈاکٹر کے رحمن خان کسی تعارف کے محتاج نہیں، اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ خان صاحب نے مدلل طور پر ثابت کیا ہے کے ہندوستان میں مسلم قیادت کا فقدان ہے۔ انکا مانناہے کہ مسلمانوں پر لیڈرشپ تھوپی جاتی ہے جب کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ لیڈرشپ کو ابھارا جائے۔ ہندوستان میں مسلم قیادت سے متعلقہ نکات پر گفتگو کے اقتباسات قارئین کی نذر ہیں ۔یہ انٹرویو نیچے دئے گئے یو ٹیوب لنک پربھی دستیاب ہے۔
س۔مسلم قوم پر اکثر قیادت کو مسلط کیا جاتا ہے اس کی وجوہات پر روشنی ڈالیں۔
رحمن خان ۔ قیادت ہر معاشرہ کا بنیادی عنصر ہے چاہے وہ کتنا ہی بڑا ہو کہ چھوٹا۔ قیادت ہی سمت عطا کرتی ہے۔مثبت سوچ میں مددگار ہوتی ہے۔قیادت کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں، صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں۔قائد کے لئے وژن یا نظریہ انتہائی ضروری ہے۔ملک کی تقسیم کے بعد بہت سے مسلم قائدین ہجرت کر گئے۔اور مسلم کمیونٹی کشمکش میں آگئی کیو نکہ موثر نمائندگی نہیں رہی جو مولانا آزاد کے طرز عمل پرسر براہی فراہم کرتی۔بد قسمتی یہ کہ مسلم اکثریت ان کو سمجھ نہیں پائی اورالمیہ یہ کہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے ۔نتیجتاًمسلم شناخت ہی سوالیہ بن گئی اور اس وقت کانگریس کی قیادت ہی واحد راستہ تھی۔اگر اس وقت مسلم قیادت مضبوط نظریہ کے ساتھ ابھرتی تو شاید ہندوستانی مسلمانوں کا مستقبل ہی الگ ہوتا۔مولانا آزاد کے بعد ان جیسا قائد نصیب نہیں ہوا ،اور جوبھی اقتدار میں آیا اس کے پاس وہ قائدانہ صلاحیتیں نہیںتھیں۔
پارٹی کی شناخت اور اصول ہی اہمیت کے حامل تھے اور ان کو مقدم رکھنے والا بغیر وژن اور صلاحیت کے بھی لیڈر بنتا گیا۔کانگریس نے یہ کیا کہ مسلم جماعت میں سے چنندہ لوگوں کو قائد بنادیا جس سے کوئی لیڈر اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر نہیں ابھرا ،چاہے وہ سیاست سے جڑا ہوا ہو کہ نہ ہو۔دیگر اقوام کا طریقہ یہ ہے کہ سر براہی اپنے آپ کو منواتی ہے۔ہندوستان چونکہ ایک اجتماعی معاشرہ ہے ہر سیاسی پارٹی میں مسلم نمائندگی ضروری تھی مگر پارٹیوں نے یہ کیا کہ مسلم قیادت کو ابھرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔آزاد کے بعد کوئی تاریخ ساز رہنما نہیں آیا جس کو عہدے کے سوا بھی یاد کیا جائے۔ میں نے اپنی کتاب Indian Muslims-The Way Forward میں اس کا تذکرہ کیا ہے کہ موجودہ حالات میں مسلمانوںکا لائحہ عمل کیا ہو۔
س۔ہندوستان میں مسلم نمائندگی آبادی کے تناسب سے ہر شعبہ میںوقت کے ساتھ کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
رحمن خان۔آبادی کے تناسب سے قوم کی نمائندگی کا حق آئین میں ترمیم کے ذریعہ ختم کر دیا گیا ہے ۔ جمہوریت کاقاعدہ یہ ہے کہ اکثریت کا اقتدار ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں ہندو اکثریت ہے تو ہندو ہی قائد ہونگے۔ یہی وجہ ہے کہ قیادت کو نظریاتی ہونا چاہئے۔ امبیڈکر نے 1930 میں گول میز کانفرنس میںیہ سوال اٹھایا تھا کہ آزادی کے بعد اکثریت کا راج ہوگاجو یقیناً اپنے مفادات کو مقدم رکھے گی، لہذا ریزرویشن دیا جائے مگر مسلم قیادت نے تقسیم کی مانگ کی۔ فرق واضح ہے کہ انہوں نے تحفظ مانگا اور ہم نے تقسیم چاہی، اور ہوا یوں کہ تقسیم چاہنے والے اپناحصہ لے کر چل دئے اور یہ سوال ہندوستان کی اقلیت کے لئے بدستور قائم رہ گیا۔ پارلیمنٹ میں اگر ہمارے چالیس ممبر بھی ہونگے تب بھی اقتدار میں نہیں آئیں گے ، اس حقیقت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
س۔اگر مسلم سیاسی نمائندگی بہتر ہو توکیا قوم کے مفادات محفوظ ہوسکتے ہیں؟
رحمن خان۔قوم کی قیادت کے لئے سیاسی رہنمائی کے علاوہ سماجی، معاشی اور تعلیمی ترقی پر توجہ کرنی ضروری ہے۔ مثال کے طور پر دیگر اقلیتوں میں سکھ جماعت کی کوئی آزادی کے تناسب سے نمائندگی نہیں ہے مگر ان کے ساتھ تفریقی سلوک نہیں کیا جاتا ۔ عیسائی جماعت کا بھی یہی معاملہ ہے۔اس کے باوجود سماج کی بھلائی میں ان کا نمایاں رول ہے۔ لہذا یہ رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ قوم کی اس لحاظ سے سربراہی فراہم کریںاور قوم کو آگے لائیں۔
س۔کیا ہمارے سینئیر قائدین کو رہنماؤں کی اگلی نسل تیار کرنے پر توجہ نہیں دینی چاہئے؟
رحمن خان۔مسلم سیاسی قیادت اور مذہبی قیادتیں خلط ملط ہو رہی ہیں۔سیاست میںمذہب کی بنیاد پر لوگوں کی جذباتیت پر اثر کیا جاتا ہے اور مذہبی رہنما سیاست کے ذریعہ، جو کسی دوسری قوم میں نہیں دیکھا گیا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ جہاں معاملہ مذہب کی بنیاد پر ہونا تھا وہاں سیاست کی دخل اندازی ہے اور سیاسی معاملات میں مذہب سے کام لیا گیا۔ اور ہر معاملہ قوم سے جڑا ہوا ہے لہذا قوم کو ذمہ دار نہیں ٹہرایا نہیں جا سکتا۔بابری مسجد کا معاملہ ہو کہ تین طلاق کا ہو یا شاہ بانو کیس ہو،ان میں قوم کا سرمایہ اور وسائل لگ گئے مگر حاصل کچھ نہ ہوا۔ لہذایہ طئے ہواکہ قیادت فائدہ مند ہوتی ہے تو نقصان دہ بھی ہو سکتی ہے۔
س۔لیڈرشپ کو ابھارنے کے معاملے میںہمارے دانشور، علماء،سیاسی رہنما اور ملی اداروں کا کیا رول ہے؟
رحمن خان ۔ادارے اس ضمن میں نہیں آتے کیو نکہ ان کا اپنا مقصد ہوتا ہے جبکہ قیادت انفرادی ہوتی ہے اوراس کی باقاعدہ تعلیم نہیں دی جاتی بلکہ قدرتی نظام کے تحت ہوتا ہے ۔ ہماری بد قسمتی یہ کہ صرف سیاسی عہدیداروں کو رہنما تصور کیا جاتا ہے اور دینی قیادت کا مطلب یہ کہ وہ کسی نہ کسی مسلک سے منسلک ہوتے ہی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنا تجزیہ کریں اور صلاحیت پیدا کریں کہ قوم کو با اصول رہنمائی عطا کریں۔قوم کوصحیح سمت عطا کرکے ترقی کی راہیں ہموار کرنے والا ہی بہترین رہنما ہوتا ہے۔
یہ جو تصور ہے کہ رہنمائی کے لئے سیاسی اقتدار ضروری ہے اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ بر سر اقتدار ہو کر قائد بھی کہلائے جائیں تب بھی یہ پارٹی کا کارنامہ ہوگا نہ کہ ذاتی صلاحیت ۔قوم اگرصلاحیتوں کی بنیاد پر کسی کو رہنما چنتی ہے تویہ لیڈرشپ کو ابھارنا کہلائے گا۔جو لیڈر سیاسی جماعت کے ذریعہ آگے آتا ہے اسکا اپنا نظریہ بھلا کیا ہو سکتا ہے؟ اور افسوس کے یہی سلسلہ چل رہا ہے۔
س۔دیگر اقوام کے مقابلہ میں مسلم قوم کو مواقع اور وسائل کا دستیاب نہ ہونا بھی ایک وجہ مانی گئی ہے۔
رحمن خان۔ مذہبی اور سیاسی قیادت دونوں کو ہی قبول کرنا ہے مگریہ سوال محض تصور ہے ۔یہاں کوئی کسی سے الگ نہیں مگر مسلم قوم اپنے آپ میں مسلکوں اور فرقوں میں بٹ گئی ہے۔ کسی مٹھ کا سوامی یا کسی مندر کا پجاری اپنے مسائل کو لے کر سیدھے سیاسی رہنما کا رخ نہیں کرتا جب کہ مسلم مذہبی قیادت اپنے مسائل سیاسی رہنماؤں سے حل کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔اور سیاسی لیڈر اس کشمکش میں کہ اگر میں اپنے مذہب کا ساتھ نہ دوں تو میری پوزیشن خطرے میں ہوگی۔
دستور ہند میں کہیں بھی اقلیت کا لفظ مستعمل نہیں ہے، جو بھی تحفظات ہیں وہ بطور شہری ہیں،لہذا مسلم قوم کے لئے خصوصی مطالبات بے جا ہیں۔ رہنماؤں کو دستو ر کے مطابق حقیقت بیانی سے کام لینا ہوگا نہ کہ غیر ضروری توقعات اور وعدوں سے۔ اپنے بنیادی مسائل کو اگر ہم ذاتی صلاحیتوں کی بنیاد پر حل نہیں کریں گے تو ہم بہت پیچھے رہ جائیں گے۔
س۔کیاملت کے مسائل کو مذہبی رہنما ؤں کے ذریعہ حل کروانا افضل ہے،تاکہ ملت کے وقار کو مستحکم کیا جاسکے؟
رحمن خان۔مذہب اور شہری حقوق کا الگ کیا جاناضروری ہے۔ لوگوں کو خوش کرنے کے لئے جذباتی معاملات جیسے ماضی میں تین طلاق کے مسئلہ کو انا کا سوال بنا کرہم تحفظ کا مطالبہ کریں گے جہاں صرف شہری حقوق کو مقدم رکھا جاتا ہے تو مذاق بن جائیں گے۔اکثریت ہمیشہ ہی راج کرتی ہے اور مساوی مطالبات ممکن ہی نہیں ہیں، مسلم قوم میں منفیت حاوی ہے جس سے مقام بنانا نا ممکن ہے ۔ خود احتسابی سے کام لینا ہوگا۔قوم کو تعلیم،اقتصادیات اورفرقہ وارانہ ہم آہنگی کی سخت ضرورت ہے۔صرف حکومتوں سے توقعات رکھ کر ہندوستانی مسلمان ترقی نہیں کر سکتا۔اپنی قوم کی طاقت اور صلاحیتوں کوپہچان کر صحیح سمت عطا کرنا اور ان کو ترقی کا ذریعہ بنانے والاہی ایک بہترین رہنما ہوسکتا ہے۔
س۔خدمت کا جذبہ رکھنے والے نوجوانوں کے لئے آپ کیاپیغام دیں گے؟
رحمن حان۔کامیابی کے لئے کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے ۔ہمارے نوجوان نظریاتی طریق کار اپنائیں۔عہدہ اورنام کی جستجوسے محض نا امیدی کا شکار ہونگے۔قوم کی ترقی پر دھیان دیں اور کسی پر انحصار نہ کریں۔