جموں وکشمیرمیں 2016-17کے دوران منریگاعمل آوری میں بے تحاشہ بدانظمی نے اہلیانِ جموں وکشمیرکوکروڑوں روپے کے قرض تلے دبایاہواہے،دیہی عوام کو روزگارکے مواقع دینے کیلئے بنی منریگااسکیم کی عمل آوری میں وقت کے حاکموں نے اثاثے تعمیرکرنے کی آڑمیںلوگوں کومزدوری پہ لگائے جانے کے برعکس مشینری سے کام کروایا،تب کے وزیربرائے دیہی ترقی نے اپنے’بھاشنوں‘ میں اثاثے تعمیرکرنے کے خوب گن گائے اور بے تحاشہ تعمیرات ہوئیں، اس بیچ محکمہ دیہی ترقی میں کروڑوں کی دھاندلیوں سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا، لیکن اس حکومتی غفلت شعاری اور منریگاکے رہنماخطوط کی دھجیاں اُڑانے کے سیاہ عمل نے نہ صرف تعمیراتی سامان مہیاکروانے والوں کوتباہی کے دہانے پرپہنچایابلکہ سیکاپ کوبھی ایسی کھائی میں جھونک دیاجہاں اُس کے بھی لاکھوں روپے منریگاکے کاموں کوسیمنٹ فراہم کرنے کی وجہ سے پھنس گئے ہیں،جموں وکشمیرخاص طورپرصوبہ جموں میں400سے500کروڑ روپے منریگامیٹریریل واجبات ہیں جبکہ وادی میں یہ ڈیڑھ سوکروڑبتائے جارہے ہیں،پچھلے پانچ برسوں سے سیمنٹ، بجری، ریت، شٹرنگ مہیاکرانے والے لوگ اپنے بقایاجات کے منتظرہیں۔اس لوگ اپنے گھرفروخت کرنے پرمجبورہیں،ایک ایک شخص کے سرپہ لاکھوں کاقرضہ ہے، لیکن افسوس کامقام یہ ہے کہ تین سطحی پنچایتی راج نظام کے قائم ہونے کے باوجود کسی بھی سطح پردیہی عوام کودرپیش اس مسئلے کے حل کیلئے کوئی آواز اُٹھانانہیں چاہتا، ہرکوئی غفلت کی نیندمیں سورہاہے،پنچایتی سطح پرسرپنچ ۔پنچ خاموش ہیں ،حالانکہ بحیثیت وینڈران لوگوں نے بھی منریگاکے تعمیراتی کام کروائے ہیں اوریہ بھی لاکھوں روپے کے قرض تلے ہیں، بلاک ڈیولپمنٹ کونسلزکاقیام عمل میں آیا، بی ڈی سے چیئرپرسنز بھی اس معاملے کوحکومت کے کانوں تک پہنچانے میں ناکام رہے،حال ہی میں پنچایتی راج نظام سہ سطحی عمل کی جانب حتمی مرحلہ طے ہوااورڈی ڈی سی منتخب ہوئے،ان کے چیئرپرسن بھی بنائے گئے،ان کی تنخواہیں واختیارات بھی وضح کئے گئے،اپنے اختیارات کیلئے انہیں جموں میں دھرنابھی دیناپڑا،لیکن کافی وقت گزرنے کے بعدابھی پنچایتی نظام میں نئی جان دیکھنے کونہ ملی،منریگاواجبات کی واگزاری کیلئے تین سطحی پنچایتی راج نظام کی کسی ایک بھی سطح پرکوئی حرکت وسنجیدگی دیکھنے کونہیں مل رہی ہے،جبکہ پانچ برسوں سے انتظارکرنے والے اب انتظار کرتے کرتے تھک چکے ہیں،محکمہ دیہی ترقی نے ازسرنوکمیٹیاں تشکیل دیکران کاموں کی جسمانی جانچ کاسلسلہ شروع کیاہے تاکہ ان واجبات کی ادائیگی کی راہیں تلاش کی جاسکیں،پی ڈی پی۔بھاجپاسرکارکے دورمیں ہوئی اس بھیانک غفلت اور رہنماقواعدکی دھجیاں اُڑائے جانے کے سلسلے کاآخر گنہگارکون ہے، حل کیاہے، اس ضمن میں سنجیدگی سے سوچنے اور کچھ کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ قرضے میں ڈوباایک بڑاطبقہ کشمکش سے باہر آسکے کیونکہ قریب قریب600کروڑ روپے واجبات ایک بڑی خطیررقم ہے اورجب یہ قرض کی صورت میں لوگوں کے سروں پہ منڈلارہی ہے تویہ طبقہ کس قدر ذہنی کشمکش وپریشانی میں ہوگا،اس کااندازہ لگانامشکل نہیں!