پروفیسر قدوس جاوید کا مضمون قابل داد و تحسین

0
0

Image result for Dr Mushtaq Ahmed wani

ڈاکٹر مشتاق احمد وانی
7889952532
پروفیسر قدوس جاوید اردو تحقیق وتنقید اور فکریات ونظریات کے لحاظ سے ایک معتبر ومنفرد شخصیت کے مالک ہیں۔ مابعد جدید ادبی تھیوری کا شعری ونثری اصناف پہ اطلاق ، اسکے مزاج ومنہاج کی افہام وتفہیم میں انھوں نے نہایت عرق ریزی سے کام کیا ہے۔ کشمیر یونیورسٹی کے شعبئہ اردو میں پروفیسر اور صدرِشعبہ کے فرائض بحسن وخوبی انجام دینے کے بعد انھیں سبکدوش ہوئے کافی عرصہ ہوچکا ہے۔ گذ شتہ چار برس پہلے انھیں سینٹرل یونیورسٹی کشمیر کے شعبئہ اردو کا صدر ہونے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ اس طرح انھیں ایک بار پھر ایک بڑے علمی وادبی ادارے میں تقریباًڈیڑھ برس اردو کی خدمت کا موقع ملا۔ پروفیسر قدوس جاوید کی ادبی نگارشات کا مطالعہ کرنے کے دوران اس بات کا پتا چلتا ہے کہ موصوف کا مطالعہ وسیع اور مشاہدہ گہرا ہے۔اُن کی عقابی نگاہیں ادب سمندر پر محوئے گردش رہتی ہیں۔ خوشی اس بات کی ہے کہ وہ اُردو کے ساتھ ساتھ انگریزی، ہندی، فارسی اور کسی حدتک عربی اصطلاحات سے بھی کماحقہ واقف ہیں۔ اُن کے بصیرت افروز مضامین اخبارات ورسائل کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ تحقیق وتنقید میں دلائل وشواہد اور حوالے و حواشی کی بڑی اہمیت ہوتی ہے بلکہ ان کے بغیر تو تحقیق وتنقید غیر معتبر اور ُمشتبہ ٹھہرتی ہے۔ پروفیسر قدوس جاوید کے تحقیقی وتنقیدی مضامین میں دلائل وشواہد اور حوالے وحواشی کاپاس ولحاظ تو نظرآتا ہی ہے اسکے علاوہ اُن کا منطقی اسلوب بیان دلگرفتہ کہا جاسکتا ہے۔حق بات تو یہ ہے کہ لکھتے لکھتے اور پڑھتے پڑھتے اُن کا ذہن کافی مشاق اور دل حساس ہوگیا ہے۔موضوعاتی تنوّ ع اور نئی اصطلاحات وتراکیب کے استعمال نے اُن کی تحریروں کو اور زیادہ معلوماتی اور قابل مطالعہ بنایا ہے۔ اُردو کی نابغئہ روزگار ہستیوں کی طرح پرفیسر قدوس جاوید کو بھی اس بات کا شدید احساس ہے کہ اُردو کی بقا اسکے فروغ اور عمدہ خدمات کے لیے ذہین، محنتی،قابل ترین ، ایماندار، شریف النفس اور اُردو زبان وادب سے جنون کی حدتک لگاو رکھنے والے اسکالروں کو ہندوستان کی یونیورسٹیوں کے اردوشعبوں میں بحیثیت اسسٹینٹ پروفیسر، ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پروفیسر سلیکٹ کیا جانا نہایت ضروری ہے لیکن پروفیسر موصوف کو اس سلسلے میں عملی صورتحال بہت مایوس کُن اور روح فرسا نظرآرہی ہے۔ اس تلخ حقیقت کا اظہار اُنھوں نے بڑی بیباکی ، نیک نیتی اور اصلاحی جذبے کے ساتھ اپنے ایک مضمون بعنوان’’ اُردو دنیاکا المیہ۔جر ِ ثقیل کے قتیل‘‘ میں کیا ہے جو ریاست جموں وکشمیر کے مشہور اور معیاری روز نامہ ’’کشمیر عظمیٰ ‘‘ مورخہ12 مئی2016 ء بروز جمعرات، ص نمبر6 پہ شائع ہوا ہے۔ فاضل مصنف نے اس مضمون میں ذاتی تجربے اور مشاہدے کی شفاف عینک سے بالخصوص یونیورسیٹیوں کے اُردو شعبوں میں ذہین، باصلاحیت ، محنتی اور دیانتدار اُمیدواروں کے بدلے نااہل اور ناآشنائے علم وادب اُمیدواروں کی سلیکشن کا جوڈراما دیکھا ہے اُس کا موثر اظہار تحریری صورت میں اپنے مضمون میں کیا ہے۔ جو ذہن ودل کو جھنجھوڑتا ہے اور ہرخاص وعام کے لیے ایک المیہ اورلمحئہ فکریہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ زندہ ضمیر زندہ وتابندہ تحریریں لکھواتا ہے جبکہ مردہ ضمیر آدمی کو موہ مایہ کے مکڑ جال میں پھنسائے رکھتا ہے۔ پروفیسر قدوس جاوید کے مذ کورہ مضمون کوپڑھنے کے بعد اس ُپُر مسرت بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ وہ ایک روشن ضمیر ، حق گو وحق پرست ادبی شخصیت ہیں کہ جنھوں نے یونیورسٹیوں کے اُردو شعبوں میں اساتذ ہ کی تقرری کے معاملے میں باصلاحیت امیدواروں کے ساتھ قابل مذمت برتاو کو تعلیمی دہشت گردی Educatonal terrorisim))کے نام سے موسوم کیا ہے۔اس اعتبار سے دیکھیں تو اُن کا مضمون با لکل ایک نئے موضوع سے تعلق رکھتا ہے۔ جوسوفیصدی صداقت پر مبنی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ گذ شتہ
پانچ سات برسوں میں بعض ایسے اساتذہ جو خوشامد ، چاپلوسی اور تگڑم بازی میں ماہر ہیں پروفیسر بننے میں کامیاب ہوئے جن کی وجہ سے کئی باصلاحیت اور حقدار امیدواروں کا حق بڑی بے رحمی سے چھینا گیا ہے۔بقول پروفیسر قدوس جاوید :
’’گذ شتہ پانچ سات برسوں میں بعض ایسے اساتذ اردو شعبوں میں’’پروفیسر‘‘بننے میں کامیاب ہوگئے ہیں
جن کی زبان دانی، ادبی ذوق وشوق، مبلغ علم، حتیٰ کہ عام اخلاقیات تک مشتبہ ہے۔یہ حضرات اپنی علمیت، ادبی
خدمات یا دیگر اکیڈمک سرگرمیوں کے بجائے جوڑ جگاڑ کی بے پناہ خوبیوں کی بنا پر پروفیسر اور پھر صدرِ شعبہ کے
عہدے پر فائز ہوئے ہیں مبینہ طور پر ایسے چند پروفیسران اور صدور کا ایک ’’محاذ‘‘ہے۔کسی بھی یونیورسٹی یا کالج
میں کوئی بھی انٹرویو ہو اس متحدہ محاذ کے پروفیسر حضرات ہی ایکسپرٹ ہوتے ہیں اور انٹرویو میں متفقہ طور پر
انھیں اُمیدواروں کا انتخاب ہوتا ہے جن کا انتخاب وہ کرنا چاہتے ہیں۔معاملہ اُردو کا ہوتا ہے، اس لیے سلیکشن
کمیٹی کے غیر اُردو داں ممبران عموماً خاموش ہی رہتے ہیں اور سلیکشن کا پورا اختیار صدر ِشعبہ اور ایکسپرٹ کو سونپ
دیتے ہیں جو پہلے سے ہی آپس میں طے کئے ہوتے ہیں کہ کس امیدوار کو سلیکٹ کرنا ہے اور کسے ریجیکٹ
آسامیاں ایک سے زیادہ ہوں تو ایسے پروفیسر اور صدور سلیکشن میں اکثرایک تیرا ایک میرا کی بنیاد پر آپس میں
بندر بانٹ بھی کرلیتے ہیں۔انٹرویو کی حیثیت محض ایک رسمی خانہ پُر ی کی ہو کر رہ گئی ہے‘‘
مندرجہ بالا اقتباس کے تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ پروفیسر قدوس جاوید نے ہندوستان کی یونیورسٹیوں کے اردو شعبوں میں اساتذ ہ کی تقرری کے سلسلے میں پس پردہ ہورہی جس دھاندلی،بے ایمانی اور بندر بانٹ کا ذکر کیا ہے وہ تشویشناک بھی ہے اور حیران کُن بھی۔ ویسے سبھی یونیورسٹیوں میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔ہندوستان کی کئی یونیورسٹیوں کے اُردو شعبوں میں اب بھی قابل، ایماندار اور حق پرست پروفیسر موجود ہیں لیکن ان کی تعداد قلیل ہے۔ دراصل یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ یونیورسٹیوں کے اُردو شعبوں میں اسسٹینٹ پروفیسر، ایسو سی ایٹ پروفیسر اور پروفیسر کی پوسٹ کی تشہیر (Advertisement) سے پہلے صدر ِشعبہ یہ طے کرتا ہے کہ اس پوسٹ پہ کس کی سلیکشن کروانی ہے اور کیسے کروانی ہے۔ اسکے بعد پوسٹ کی تشہیر کی جاتی ہے۔ایکسپرٹس کی لسٹ چونکہ صدرِ شعبہ کے ہاتھوں وائس چانسلر صاحب کے آفس میں جاتی ہے اور اس طرح صدر ِشعبہ پہلے ہی ایکسپرٹس سے رابطہ قائم کرلیتا ہے اور انٹرویو کی رسمی خانہ پری کے تحت وہ بآسانی اپنے من چاہے امیدوار کی سلیکشن کروانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔پروفیسر قدوس جاوید نے اپنے مضمون میں ایک جگہ قابل نوجوانوں کو اُردو شعبوں سے دُور رکھے جانے کی دوسری وجہ ان الفاظ میں بیان کی ہے۔وہ لکھتے ہیں۔
’’باصلاحیت نوجوانوں کو ارادتاً اُردو شعبوں سے دُور رکھاجارہا ہے کیونکہ ایسے قابل نوجوان اگر شعبے میںآگئے تو تدریس
و تحقیق کا معیار تو یقینا بلند ہوگا لیکن نامنہاد، خود غرض اور مفاد پرست اُردو کے سینئر پروفیسران اور اردو شعبوں کے صدور
کے لسانی اور ادبی سوجھ بوجھ کے معیار کا بھانڈا پھوٹ جائے گا‘‘
پروفیسر قدوس جاوید کی تحقیق کے مطابق یہ تو واضح ہوگیا کہ ہندوستان کی یونیورسٹیوں کے اُردو شعبوں میں انٹرویو سے پہلے ہی صدرِ شعبہ اور ایکسپرٹس آپس میں یہ طے کرلیتے ہیں کہ کس امیدوار کو سلیکٹ اور کس کو ریجیکٹ کرنا ہے لیکن اب مسلہ یہ ہے کہ اس ناانصافی اور حق تلفی پہ قابو کیسے پایا جائے؟ اسکے لیے میں یہاں چند سجھاو دینا چاہتا ہوں۔میں وثوق سے یہ کہتا ہوں کہ ان سجھاو یا مشوروں کو اگر یونیورسٹی گرا نٹ کمیشن ( UGC) اور تمام
ریاستوں کے حکام باضابطہ طور پر منظوری دیں تو راتوں کو اپنا لہو جلانے والے ذہین، شریف النفس ،دیانت دار اور محنتی امید واروں کو ضروراُن کا حق مل کے رہے گا۔
پہلا سجھاو یہ کہ ہندوستان کی یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی تقرری کا پورا اختیار ہر ریاست کے گورنر صاحب کو دیا جائے۔ایکسپرٹس کی لسٹ وہ خود تیار کروائیں۔ایکسپرٹس کہاں سے بلائے گئے ہیں اور اُنھیں کہاں ٹھہرایا گیا ہے اس کاعلم صرف گورنرصاحب کو ہو۔انٹرویو کی کاروائی مقررہ تاریخ پر وائس چانسلر صاحب کے خوش نما اور روح پرور ہال میں ہو۔ اُن کے دلکش علم وادب کے ٹیبل پہ سامنے ترتیب وار قرآن مجید،انجیل مقدس، شریمد بھگوت گیتا اور گروگرنتھ صاحب یہ تمام مقدس کتابیں رکھی جائیں۔ انٹرویو کی کاروائی شروع کروانے سے پہلے وائس چانسلر صاحب انٹرویو لینے والے تمام ممبران سے اپنے اپنے دین دھرم کے مطابق حلف برداری کی مقدس رسم ادا کروائیں اور خصوصی طور پر ا ُ نھیں یہ ہدائت دیں کہ وہ ایشور اللہ کو حاضر وناظر رکھ کر عدل وانصاف برتیں۔
دُوسرا سجھاو یہ کہ یونیورسٹی کے کسی بھی شعبے میں اسسٹینٹ پروفیسر یا پروفیسر کی پوسٹ کے لیے آئی۔اے۔ایس کے ضابطے کو نافظ کیا جائے یعنی ایک ایسا مسابقتی امتحان ( Secreening Test )رکھا جائے جو آئی۔ اے۔ایس کے معیار کا ہو۔
تیسرا اور آخری سجھاو یہ کہ یونیورسیٹیوں کے تمام طلبہ چاہے وہ ایم۔اے، ایم۔ایس۔سی، ایم۔کام یا ایم۔فل ،پی۔ایچ۔ڈی کررہے ہوں یا کرچکے ہوں مندرجہ بالا مطالبات کی منظوری کے لیے صدائے احتجاج بلند کریں کیونکہ مشہور ضرب المثل ہے کہ ’’بن روئے ماں بچّے کو دودھ نہیں دیتی‘‘
پڑھے لکھے بے عمل سماج کا تقاضہ یہ ہے کہ مصلحتاً جھوٹ بولا جائے۔ اس پہ مستزاد یہ کہ عصری خباثت آمیز معاشرے کی منافقت ایماندار ،شریف النفس، محنتی اور ذہین لوگوں کو چہرے بدل بدل کر نوچ رہی ہے۔ایک بہت بڑے دُکھ کی بات یہ ہے کہ ظلم کو مقدّر سمجھا جاتا ہے۔
میرے خیال میں کالجوں کے اسسٹینٹ پروفیسروں اور پروفیسروں کو یونیورسٹی کا اسسٹینٹ پروفیسر یا پروفیسر بننے کا شوق دل میں نہیں پالنا چاہیے کیونکہ یونیورسٹی کے پروفیسر اور کالج کے پروفیسر میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا ہے۔
کاش پروفیسر قدوس جاوید کے مبارک ہاتھوں مذ کورہ مضمون بہت پہلے لکھا گیا ہوتا تو کچھ اور بات ہوتی لیکن اسکے باوجود آفریں اور صدہاآفریں اُنھیں کہ انھوں نے ’’ اُردو دنیا کا المیہ۔جرثقیل کے قتیل‘‘ جیسا معرکتہ الآرا مضمون لکھ کر درجنوں قابل ترین، محنتی، ایماندار اور علم وادب کے متوالوں کی حق تلفی اور ظلم وزیادتی کے خلاف ایک طرح کا بگُل بجادیا ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ پروفیسر قدوس جاوید کی طرح میرا رشتہ بھی کاغذ ، قلم اور کتاب کے ساتھ زندگی کے آخری لمے تک برقرا رہے ۔اگرچہ کہ رفعت شروشؔ کے یہ اشعار میرے علمی وادبی ذوق وشوق اور حق تلفی پہ صادق آتے ہیں:
ہزار بار حادثات میرے ہم سفر بنے
مگر میں راہ ِ شوق میں یونہی رواں دواں رہا

ہزار بار دامن حیات خار زار میں الجھ گیا
مگر میں گامزن رہا بہار کی تلا ش میں
…………
Address
Dr Mushtaq Ahmed wani
Lane No 3 House No 7 Firdousabad
Sunjwan Jammu(J&K)180011
Mobile No.7889952532

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا