(افسانچے)

0
0

رمّانہ تبسم ،پٹنا سٹی(انڈیا)
(دروازہ)
موسلادھار بارش میں وہ تیز رفتار میں کار ڈرائیو کئے تیزی سے چلی جا رہی تھی کہ گاڑی حرررررر ۔۔۔۔۔ کی آواز کے ساتھ رک گئی۔مہاتما گاندھی سیتو(پل) کے نیچے رین بسیرا کرنے والی ایک عورت پر اس کی نظریں ٹھہر گئیں جو ترپال کو دونوں ہاتھوں سے تھامے کھڑی تھی۔ تیز ہوا کے زور اور بارش سے ترپال اڑا جا رہا تھا۔وہ سوئے ہوئے اپنے پتی اور بچوں کو بچانے کی فکر میں خود بھینگ کر ہوا اور تیز بارش کا مقابلہ کر رہی تھی ۔اس کے چہرے پر ایک عجیب سی خوشی اور طمانت کا نور تھا۔اپنے پتی اور بچے کے لیے اس کی آنکھوں میں بلا کا پیار امنڈ تا جا رہا تھا۔
اس نے سوچا میرے پاس دنیا بھر کی تمام آسائش ہیں روپیوں کی ریل پیل ہے ۔۔۔۔۔ہر طرح کی ناز برداری اٹھانے والا شوہر ہے ۔۔۔۔۔اور ۔۔۔۔ایک میں ان کے لیے ایک معمولی بات پر ان کے خلاف کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے جا رہی ہے۔اسی دم کار کو یوں ٹرن مارا اپنے گھر لوٹ آئی ۔
ؤؤؤ
(آنسو)
برسرروزگار بیوی کے گزرتے ہی اس کی دنیا اجاڑ ہو گئی۔ایک گہری مایوسی درودیوار سے اتر کر اس کے دل کے آنگن میں بھی جمنے لگی تھی۔
گھر کے دئے بھی اب جواب دینے لگے تھے۔آگے کے دن اب کیسے بسر ہوں گے ۔۔۔۔۔وہ سوچ کے گھنے جنگلوں میں بھٹک رہا تھا کہ پوسٹ مین کی آواز پر چونک پڑا ۔ایل۔آئی۔سی کا لفافہ پاتے ہی اس نے محسوس کیا کہ شام زندگی کے گہرے ہوتے سائے ایک بار پھر سے روشن ہو گئے۔ ؤؤؤ

(سیپ)
چاہے کڑی دھوپ ہو،تیز بارش ہویا سخت جاڑا، اس نے اپنی محبت کے دیدار کی خاطر ہاتھ میں کشکول لے کر گداگر کا روپ دھار لیا تھا ۔وہ اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے اس کے دروازے پر صدائیں لگاتا رہتا ۔اس کی صداسن کر ثریا آٹا یا چاول اس کے کانسے میں ڈال دیتی۔۔۔۔۔وہ کیف بھری نظروں سے اسے دیکھتا رہتا مگر اپنی محبت کا اظہار کرنے سے ڈرتا تھا ،کیوں کہ ان دونوں کے بیچ دولت کی سیپ پلائی ہوئی دیوار جو تھی۔اس کی اس حرکت پر وہ گداگر کو فرط حیرت سے دیکھتی رہتی ۔اس گداگر کی آنکھوں میں اسے اپنا عکس نظر آتا لیکن فوراََ اپنا سر جھٹک دیتی یہ سوچ کر کے اس کی نگاہوں میں اس کا عکس ناممکن۔۔۔۔۔
وقت پر لگا کر اڑتا رہا ۔۔۔۔۔وہ گداگر بھی اگلی حالت کو پہنچ گیا تھا یعنی مجنوں بن گیا تھا ،کیوں کہ ثریا سے اسے محبت نہیں بلکہ عقیدت ہو گئی تھی۔البتہ اس جنون کا یہ اثر ضرور ہوا کہ اب اس فقیر کی شہرت پورے شہر میں پھیل گئی اور پورا شہر اسے ولی ء کامل سمجھنے لگا مگر زمانے کو تو درکار ۔۔۔۔۔خود ثریا کو بھی اس فقیر کا درد معلوم نہ تھا ۔شہر کے لوگ کی اس سے مرادیں پوری بھی ہوتیں مگر فقیر کا اپنا دامن گوہر مقصود سے خالی رہا۔۔۔۔۔اس کی مثال اس سیپی کی سی تھی کہ جو قطرے کو تو گوہر کر دیتی ہے مگر خود دو ٹکے کو خول بنی رہتی ہے۔
ؤؤؤ
(بھوک)
درندے بلا ضرورت کسی کا شکار نہیں کرتے اور نہ ہی کسی چھوٹے پر حملہ کرتے ہیں مگرنہ جانے کس سمت سے کوئی انسان آجائے کیوں کہ وہ نہ چھوٹا دیکھتا ہے نہ بڑا ، اسے تو اپنی قاب بھرنے سے مطلب ہے۔
ؤؤؤ
(فرسٹ سیٹ)
وہ روز اپنی کار سے اسے کالج پیک اپ کرتا اور اس کے ساتھ عہد پیماں کے و عدے کرتا۔۔۔۔۔حسب معمور آج بھی وہ اس کے انتظار میں کھڑی تھی ۔تبھی ایک سررررر ۔۔۔۔۔کرتی ہوئی کار اس کے سامنے سے گزر گئی ۔وہ مضطر نگاہوں سے دیکھتی رہ گئی ۔
اس کار کی فرسٹ سیٹ پر اس کے شانے پر سر رکھے دوسری لڑکی بیٹھی تھی۔

ؤؤؤ

 

 

 

 

 

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا