ڈاکٹر احسان عالم
پرنسپل الحراء پبلک اسکول، دربھنگہ
موبائل: 9431414808
امان ذخیروی کا نام اردو شعر وادب میں جانا پہچانا ہے۔ انہوں نے پیش نظر مجموعہ ’’گلہائے آرزو ‘‘ کے نام سے سجایا ہے۔ اس میں مختلف شاعروں کے ذریعہ تخلیق کئے گئے رخصتی نامے اور تہنیتی نظمیں شامل ہیں۔ کتاب کا انتساب بھی انہوں نے اچھے انداز میں پیش کیا ہے۔ انتساب اس طرح ہے:
’’ان دختران مشرق کے نام جو دور حاضر میں اسلامی تہذیب کی امین اور پاسدار دکھائی دیتی ہیں۔ ‘‘
’’عرض مرتب‘‘ کے عنوان سے امان ذخیروی لکھتے ہیں :
’’شادی بیاہ کے موقع پر خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ رشتہ دار اور دوست و احباب اس مسرت کی گھڑی میں شامل ہوکر اس کے حسن کو دوبالا کر دیتے ہیں۔ اپنی خوشیوں کے اظہار کے لئے عورتیں گیت گاتی ہیں۔ ان گیتوں میں دولہا دلہن کو دعائیں دی جاتی ہیں اور ان کے روشن مستقبل کی بشارت دی جاتی ہے۔ دلہن کو رخصت کرتے وقت بھی گیت گائے جاتے ہیں جس میں درد کا اظہار اور بچھڑنے کا غم شامل ہوتا ہے۔ جب کہ دلہن جب سسرال پہنچتی ہے تو وہاں اس کے سسرالی رشتہ دار خواتین بھی گیت گاکر اس کا استقبال کرتی ہیں۔ ان گیتوں میں مسرت کا اظہار ہوتا ہے۔ گویا کہ جلے منظوم تاثرات کو تحریری شکل نہیں دی جاتی ہے۔ ‘‘
بہار اردو اکادمی کے سابق سکریٹری مشتاق احمد نوری نے ’’اظہار مسرت‘‘ کے عنوان سے اس کتاب میں شامل رخصتی ناموں اور تہنیتی نظموں پر اپنے تاثرات کا اظہار ان جملوں میں کیا ہے:
’’وہ والدین بہت خو ش نصیب ہوتے ہیں جو اپنے بچوں کی شادیاں وقت پر کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور جناب امان ذخیروی ان خوش قسمت لوگوں میں ہیں جسے اللہ نے زاہدہ جیسی بیٹی عطا کی جس کے چہرے پر حیا مسکان کی صورت بکھری ہوئی ہیں جسے والدین نے نہ صرف ناز و نعم سے پالا بلکہ اچھی تربیت کے ساتھ زیور تعلیم سے بھی آراستہ کیا اور اس قابل بنایا کہ وہ خوش اسلوبی سے اپنا گھر با رسنبھال سکے۔ ‘‘
زاہدہ مسکان معروف شاعر امان ذخیروی کی صاحبزادی ہیں۔ ان کی شادی کے موقع پر اپنے تمام شاعر دوستوں کے ذریعہ تحریر کی جانے والی رخصتی اور تہینتی نظموں کو یکجا کر امان ذخیروی نے ایک اچھا کارنامہ انجام دیا ہے۔ کتاب کے شروع میں ایک دعا ہے جسے حاجی ماسٹر محمد سعد اللہ خان نے اپنے قلم کے ذریعہ عملی جامہ پہنایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
خوش رہو تم زاہدہ! ہے دادا دادی کی دعاء
تم پہ ہو رب کی عطا ہے دادا دادی کی دعاء
ہو بہت آسان تجھ پر تیری منزل کا سفر
دے خبر خود راستہ ہے دادا دادی کی دعاء
ابونصر فاروق صارمؔ عظٰیم آبادی نے ’’بہاروں کا سماں‘‘ کے عنوان سے ایک عمدہ سہرا لکھا ہے جس کے چند اس اشعار ملاحظہ کریں:
اہل خانہ کو مبارک ہو مبارک شادی
آسماں والے نے رحمت کی گھٹا برسا دی
تھا امانؔ آپ کو مطلوب جو دن آیا ہے
رونق و حسن کی سوغات بھی یہ لایا ہے
معروف عالمی شہرت یافتہ شاعر اور صدر جمہوریہ ہند سے ایوارڈ یافتہ پروفیسر عبدالمنان طرزیؔ نےؔ نے بے شمار رخصتی نامے اور تہنیتی نظمیں لکھی ہیں۔ اگر اسے یکجا کیا جائے تو کتابی صورت دی جاسکتی ہے۔ ا س موقع پر ان کے ذریعہ تحریر کی گئی رخصتی نامہ کے چند اشعار پڑھیں اور لطف اندوز ہوں:
اے مری زاہدہ بیٹی مرے گلشن کی بہار
باپ کے دل کا سکوں ماں کی نگاہوں کا قرار
ذرے ذرے کو ہے اس گھر کے محبت تجھ سے
غم کدہ میرا تھا بیٹی مری جنت تجھ سے
مہرباں تجھ پہ رہے جانِ پیدار تیرا خدا
ساتھ ہے بیٹی ترے خویش و اقارب کی دعا
بے نام گیلانی (نائب صدر بزم اتحاد نالندہ ، بہار شریف) کے اشعار بھی اکثر رسائل و جرائد کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ انہوں نے امان ذخیروی کی بیٹی زاہدہ کی وداعی کے موقع پر ایک اچھی نظم لکھی ہے۔ پیش ہیں چند اشعار:
ہر طرف غم کے سائے یہاں چھا گئے
زاہدہ اب وداعی کے دن آگئے
تو ہی تھی باپ کی آنکھ کی روشنی
ماں کی نور نظر روح کی دل بسی
تجھ سے ہی ان کی دنیا میں تھی ہر خوشی
ظفر صدیقی (پھلواری شریف ،پٹنہ) نے ’’امیدوں کے گلستاں ‘‘ کے عنوان سے ایک پُرترنم نظم لکھی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کریں:
ماں رو رہی ہے لاڈلی بیٹی کے واسطے
مرضی حق میں کوئی کہے بھی تو کیا کہے
بیٹی تو دوسروں کی امانت ہے دوستو
کتنا عجیب راز مشیت ہے دوستو
ڈاکٹر منصور خوشترؔ ایک نوجوان لیکن اردو شعر وادب کا نمایاں نام ہے۔ وہ شہر دربھنگہ سے شائع ہونے والے ایک مشہور رسالہ ’’دربھنگہ ٹائمز‘‘ کے مدیر ہیں ساتھ ہی قومی تنظیم روزنامہ کے لئے اخبارات کے علاوہ ایک ادبی صفحہ ترتیب دیتے ہیں جس کی پذیرائی اردو شائقین کے ایک بڑے حلقے میں ہوتی ہے۔ ’’فضل و کرم اللہ کا ‘‘ کے عنوان سے وہ لکھتے ہیں:
زندگی خوشبو بھری دونوں کی گزرے گی ضرور
راہ منزل خود وفا ان کو دکھائے گی ضرور
اردو کے اک اچھے شاعر جو اماں صاحب ہوئے
زہادہ مسکان کو دختر انہیں کی جانئے
عمر بھر حاصل رہے فضل و کرم اللہ کا
آپ کے ہو ساتھ احساں دم بہ دم اللہ کا
بدر محمدی (حاجی پور) لکھتے ہیں :
فرمانِ خدا اور چلن ساتھ لئے جا
فرض اپنے پدر کا اے دلہن ساتھ لئے جا
احساس نہ اپنوں کی جدائی کا کبھی ہو
اک اجنبی کا ایسا ملن ساتھ لئے جا
ڈاکٹر منور عالم راہیؔ ایک نوجوان شاعر ہیں ۔ ان کی شاعری قارئین کو متاثر کرتی ہے۔ ان کے نثر ی جملے بھی بڑے دلچسپ اور پُرکشش ہوا کرتے ہیں۔ ان کی زبانی چند اشعار ملاحظہ کریں:
درد فرقت کو دل میں چھپائے ہوئے
غم سے بھائی، بہن سر جھکائے ہوئے
میرے نازوں کی پالی مری جان و تن
یاد رکھنا سدا باپ کا یہ سخن
مرغوب اثر فاطمی اردو شاعری کا ایک نمایاں نام ہے۔ انہوں نے ’’احساساتِ والدین‘‘ کے عنوان سے چند قطعات پیش کئے ہیں۔ ایک قطعہ ملاحظہ کریں:
مالک کی جب خاص عنایت ہوتی ہے
بیٹی بن کر پیدا فطرت ہوتی ہے
رحمت کی بارش ہوتی ہے کنبے پر
جب وہ بیٹی خیر سے رخصت ہوتی ہے
عطا عابدی ایسا نام ہے جو کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ نثری اور شعری دونوں میدان میں وہ اپنا سکہ جمائے ہوئے ہیں۔ شاعری کے مختلف اصناف میں انہوں نے طبع آزمائی کی ہے۔ بیٹی کی رخصتی کے موقع پر انہوں نے نصیحت کے طور پر خوبصورت اشعار کہے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہو:
اے مری جان مری لخت جگر جا بیٹی
دیکھ آگے ہے نئی شام و سحر جا بیٹی
منتظر پھولوں کی ہے راہ گزر جا بیٹی
زندگی کس تری خوشبو کو سفر جا بیٹی
کولکاتا کے معروف شاعر اشرف یعقوبی صاحب (کولکاتا) کے اشعار ہندوستان کے مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ انہوں نے بیٹی کی عظمت پر ایک نظم لکھی ہے۔ جس کے چند اشعار اس طرح ہیںـ
سنت فاطمہؓ زہرا کو نبھانا بیٹی
اپنی سسرال میں جس دن سے تو جانا بیٹی
مائکے سوچ سمجھ کر کبھی آنا بیٹی
اپنے شوہر کا کبھی دل نہ دکھانا بیٹی
کولکاتا سے فراغ روہوی نے ’’جشن مسکان ‘‘ کے نام سے ایک نظم لکھی ہے۔ اس نظم میں ایک بیٹی کے لئے ان کے دل سے اللہ کی بارگاہ میںدعائیں نکل رہی ہیں۔ ان کے چند اشعار:
یہ مہندی یہ ابٹن مبارک ہو تجھ کو
یہ چوڑی یہ کنگن مبارک ہو تجھ کو
یہ دل شیر دوگانہ جس پر پڑھیں گے
وہ پاکیزہ دامن مبارک ہو تجھ کو
سرزمین سیتامڑھی کے ایک معروف شاعر اشرفؔ مولانگری کے اشعار رسائل و جرائد کے ساتھ ساتھ فیس بک کی زینت میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ ان کے اشعار میں ایک خاص معنویت ہوتی ہے۔ انہوں نے اس کتاب کے لئے ایک منظوم دعائیہ کلمات تحریر کیا ہے جس کے چند اشعار اس طرح ہیں:
تجھے اے زاہدہ مسکان یہ رشتہ مبارک ہو
ہزاروں عظمتوں کا ساتھ میں چرچہ مبارک ہو
ترا بچپن نگاہوں کو مسلسل شاد رکھتا ہے
مگر اب چاند سا دولہا مری گڑیا مبارک ہو
شاعر خوش فکر جنید عالم آروی کی شاعری منفرد نوعیت کی شاعری ہے۔ ان کے اشعار ہر خاص و عام کی سمجھ میں آسانی سے آجاتے ہیں۔ ان کا ایک شعری مجموعہ ’’آئو عشق کریں‘‘ کے عنوان سے بہت جلد منظر عام پر آنے والا ہے۔ ’’آنچل پیار کا‘‘ کے عنوان سے وہ ایک نظم لکھتے ہیں جس کے چند اشعار پیش خدمت ہیں:
زاہدہ سسرال کی ہے آج دولت ہوگئی
ہوتا آیا ہے یہی ہوتا رہے گا بھی یہی
پیار کی میکے سے جو دولت ملی ہے زاہدہ
ہے وہ تیری زندگی کا ایک سرمایہ بڑا
۲۶۰؍ کتابوں کے مصنف کثیر الجہات شخصیت کے مالک پروفیسر ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے نثری اور شاعری کی کسی صنف کو اَن چھوا نہیں رکھا ہے۔ ’’رخصت کا لمحہ‘‘کے عنوان سے اپنی نظم تحریر کی ہے جس کے چند اشعار اس طرح ہیں:
امان کہئے کہ ان کو ذخیروی کہئے
بہت ہی خوب وہ شاعر ہیں ایک اردو کے
خدائے پاک کا احساں ہوا ہے یہ ان پر
بیاہی جائے گی دلشیر سے ان کی دختر
سرزمین دربھنگہ کے مشہور ناقد، محقق اور شاعر ڈاکٹر امام اعظم (ریجنل ڈائرکٹر، مولانا ابوالکلام آزاد نیشنل اردو یونیورسیٹی ، کولکاتا ریجنل سنٹر ) نے ’’بہ ہنگامِ رخصتی ‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی ہے جس کے چند خوبصورت اشعار اس طرح ہیں:
یہ منظر خوبصورت ہے
منور ہے معطر ہے
کہ کیف آگیں ہوائیں ہیں
نشاط افزا فضائیں ہیں
کہ گونج اٹھی ہے چاروں سمت
مسرت خیز شہنائی
مشتاق دربھنگوی جن کا تعلق ’’اخبار مشرق‘‘ کولکاتا سے ہے، ایک فعال اور متحرک شخصیت کا نام ہے۔ انہوں نے کئی کتابیں لکھیں ہیں۔ ان کے ذریعہ ترتیب دی گئی شاعروں کی ایک ڈائرکٹری ’’گوش بر آواز‘‘ کے نام سے منظر عام پر آچکی ہیں جو قارئین کے درمیان داد و تحسین وصول کرنے میں کافی کامیاب ہوئی ہیں۔ انہوں نے ’’سسرال بیٹی چلی‘‘کے عنوان سے ایک نظم تخلیق کی ہے جس سے چند اشعار ملاحظہ کریں:
دلہن بن کے سسرال بیٹی چلی
ہے ماں باپ کے دل کو بے حد خوشی
ہے سج دھج کے گھونگھٹ میں جو زاہدہؔ
ابھر آئی چہرے پہ مسکان بھی
اس طرح اس کتاب میں شامل تمام رخصتی نامے اور تہنیتی نظمیں دلکش ہیں ۔ تمام قارئین کو مطالعہ کی دعوت دیتے ہیں۔ امید ہے اس کتاب کی پذیرائی ہوگی ۔ان نظموں کو یکجا کرکے امان ذخیروی نے ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔
٭٭٭