قصاب برادری کا روزگار داؤ پر لگ گیا ہے: ڈیلرز یونین
یواین آئی
سرینگر؍؍آل کشمیر ہول سیل مٹن ڈیلرز یونین کے جنرل سکریٹری معراج الدین گنائی نے کہا ہے کہ صوبائی انتظامیہ کی طرف سے گوشت کے لئے مقرر شدہ نئی ریٹ سے قصاب براداری کا روزگار داؤ پر لگ گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ گوشت کی نئی ریٹ مقرر کرنے کے لئے زمینی سطح پر کوئی کام کیا گیا نہ ہی متعلقین کو اعتماد میں ہی لینے کی زحمت گوارا کی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت یہ کہہ کر غلط بیانی سے کام لے رہی ہے کہ یونین اس نئی ریٹ کے ساتھ متفق ہے۔موصوف جنرل سکریٹری نے یہ باتیں یو این آئی اردو کو صوبائی حکومت کی طرف سے گوشت کی ریٹ فی کلو 480 روپے طے کرنے کے بارے میں بتائیں۔انہوں نے کہا: ‘سرکار غلط بیانی سے کام لے رہی ہے کہ ہم (یونین) گوشت کی مقرر شدہ نئی ریٹ پر متفق ہیں ہم نے اس (ریٹ مقرر کرنے والی کمیٹی کے فیصلے) پر کوئی دستخط نہیں کئے بلکہ جب سرکار نے نئی ریٹ کا اعلان کیا تو ہم نے اس کے خلاف یہاں پریس کالونی میں احتجاج کیا’۔ان کا کہنا تھا کہ میٹنگ میں ہم سے کہا گیا کہ آپ لوگ باہر نکلو بعد میں آپ سے بات کی جائے گی لیکن بعد میں صرف نئی ریٹ کا اعلان ہوا۔مسٹر گنائی نے کہا کہ متعلقہ ڈائریکٹر کا یہ فیصلہ ایک آمرانہ فیصلہ ہے۔انہوں نے کہا: ‘میں سمجھتا ہوں کہ متعلقہ ڈائریکٹر کا یہ فیصلہ آمرانہ فیصلہ ہے کیونکہ اس کے لئے زمینی سطح پر کوئی کام نہیں کیا گیا اور نہ منڈیوں یا بیرون وادی کے متعلیقن کے ساتھ اس ضمن میں کوئی بات چیت کی گئی’۔ان کا کہنا تھا کہ کسی سے کچھ معلوم کئے بغیر ہی گوشت کی نئی ریٹ کا اعلان کیا گیا۔موصوف نے کہا کہ تمام متعلقہ امور و معاملات کو نظر اندز کر کے حکومت نے نئی ریٹ مقرر کی۔انہوں نے کہا کہ محکمہ انیمل اینڈ شیپ ہسبنڈری والے کہتے ہیں کہ 476 روپے فی کلو گوشت تیار ہوتا ہے تو ہم ہول سیل میں کس طرح صرف 450 روپے فی کلو اس کو لا سکتے ہیں۔موصوف نے کہا کہ اگر کوئی دکاندار چوری چھپکے گوشت بیچ رہا ہے تو اس کے دکان پر زبردستی گوشت کی قیمت 480 روپے فی کلو لکھی جاتی ہے اور اس کا فوٹو کھینچا جاتا ہے اور اس تصویر کو بعد میں یہ باور کرانے کے لئے سوشل میڈیا پر وائرل کیا جاتا ہے کہ گوشت اسی ریٹ سے ہی فروخت کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ بازاروں میں 95 فیصد گوشت کے دکان بند ہیں۔مسٹر گنائی نے کہا کہ جموں و کشمیر میں 80 ہزار شیپ یونٹ ہولڈرس ہیں جنہوں نے حکومت سے باقاعدہ قرضہ بھی لیا اور سبسڈی بھی لیکن زمینی سطح پر وہ کہیں دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر ایک یونٹ سال میں صرف چوبیس ہی بھیڑ فراہم کرے گا تو اسی ہزار یونٹ قریب بیس لاکھ بھیڑ فراہم کریں گے ہمیں اس سے زیادہ ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ان کا کہنا تھا کہ ان یونٹ ہولڈرس نے صرف ہزاروں کروڑ روپیوں کی سبسڈی کھائی جبکہ زمینی سطح پر کچھ بھی نہیں کیا۔موصوف نے کہا کہ جس طرح ہمارے دکانداروں کے خلاف گوشت مہنگا بیچنے پر ایف آئی آر درج کی جاتی ہے اسی طرح ان یونٹ ہولڈروں کے خلاف بھی قانونی کارروائی عمل میں لائی جانی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ سرکار کی طرف سے نئی ریٹ جاری کرنے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی گئی ہے اور اس سلسلے میں ہائی کورٹ سرکار کو جلد نوٹس جاری کرے گا۔معراج الدین نے کہا کہ حکومت کی نئی ریٹ سے قصابوں کا روزگار داؤ پر لگ گیا ہے دکانیں بند ہیں اور اس سے وابستہ لوگ بچوں کا فیس ادا کرنے اور کتابیں خریدنے سے قاصر ہیں۔قابل ذکر ہے کہ صوبائی حکومت نے وادی میں گوشت کی نئی ریٹ 480 روپے فی کلو مقرر کی ہے۔ یہ نئی مقرر شدہ ریٹ سال 2016 میں مقرر کی جانے والی ریٹ سے 40 روپے زیادہ ہے۔یہ نئی ریٹ مٹن پرائز فیگذیشن کمیٹی نے مقرر کی ہے جس کی سربراہی صوبائی کمشنر کشمیر کر رہے ہیں۔ تاہم اس کے خلاف گوشت سے وابستہ تاجر سراپا احتجاج ہیں۔