فرحت قادری کی شاعری کاتنقیدی جائزہ

0
0

آفتاب عالم
شعبہ اردو
مگدھ یونیورسیٹی۔بودھ گیا
قسط اول
فرحت قادری کا تاریخی نام سید ابوالفرح ذوالنون محمد جاہ ہے۔۶۰ جنوری ۱۹۲۸ء کو قصبہ اوگاواں ضلع نالندہ میں پید اہوئے۔ ان کے والد کانام سید ابوظفر سید محمد قادری گیا کے مشہور طبیب تھے۔ فرحت قادری نے اردو فارسی کی ابتدائی تعلیم کے بعد عربی تعلیم کے لیے دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا۔ تعلیم کی غرض سے سرونج( ٹونک) اور حیدر آبد میں بھی قیام پذیرہوئے۔ آئی کام تک کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سول کورٹ گیا میں بطور محرر بحال ہوگئے۔ یہ ۱۹۵۶ء کی بات ہے۔ دسمبر ۱۹۹۲ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوکر گیا میں قیام فرما ہیں۔
فرحت قادری جس خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں وہاں شعر و سخن کا چرچا عام تھا۔ ان کا اعتراف ہے:
’’دیوبند کے عام رواج نے خداداد صلاحیتوں کو ابھارناشروع کردیا۔ دیوبند میں دراصل مولوی اسلم مظفر نگری( مدیر روحانی عالم) نے شاعری کی راہ پر لگایا۔‘‘
فرحت قادری نے شاعری کی ابتدا غزل گوئی سے کی۔۱۹۴۷ کے بعد مشاعروں میں شرکت کرنے لگے اور تخلیقات اخبار و رسائل میں شائع ہونے لگیں۔ یوں تو انہوں نے نظمیں بھی لکھی ہیں اور دوسری اصناف سخن میں بھی طبع آزمائی کی ہے لیکن ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو غزل کا پیمانہ خاص طور پر ساز گار آیا ہے۔ فرحت قادری نے غزل کی کلاسیکی روایت سے روشنی حاصل کی ہے۔ زبان وبیان عروض اور فن کے تقاضوں کو پیش نظررکھ کر شاعری کرنا کتنامشکل کام ہے ، یہ وہی جانتے ہیں جن کو اس کار شیشہ و آہن کا عملی تجربہ ہے۔ فرحت قادری اس پرخار وادی سے بہ فیض احتیاط کامیاب انداز سے گزرے ہیں۔ جہاں تک ان کی معنوی سطح کا تعلق ہے وہ بھی خاصی بلند ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں مخرب اخلاق اور فحش و رکیک افکار و جذبات سے گریز کیا ہے۔ فرحت قادری نے سنجیدہ افکا ر وخیالات اور بہترین سماجی اور تہذیبی اقدار کو اپنی شاعری میں پیش کیا ہے۔ اس لئے ان کی شاعری میں اظہا رکی سطح پر بھی ایک مانوس فضا کااحساس ہوتاہے۔ یہ فضا انہیں ابرار حسنی، احسن مارہروی اور داغ دہلوی کی فنی کاوشوں کی فضا تک لے جاتی ہے۔ یہاں پر یہ بات ذہن نشیں رہے کہ فرحت قادری نے۱۹۶۳ء میں ابرار حسنی گنوری( بدایونی) سے زانوئے ادب تہہ کیا۔ ۱۹۶۸ء میں انہیں فارغ الاصلاح قراردیاگیا۔
فرحت قادری نے اپنی شاعری میں جس فنکاری کاثبوت دیا ہے اس کی داد نہ دینا سراسر ناانصافی ہے۔ ان کاکلام پڑھ کر اس دو رکے بالغ نظر انسان کے شعیر تجربوں میں شرکت کی مسرت ملتی ہے۔ یہ شعری تجربے رومانی ہوں یا زندگی کے حقائق پر مبنی ہوں، جس خلوص اور شعری چابکدستی سے بیان ہورہے ہیں قابل داد ہیں ۔ایک غزل کے صر ف دو اشعار ملاحظہ کیجئے ؎
آبادی گلشن سے ویرانی صحرا تک
ڈھائے ہیں ستم تونے اے موج صبا کتنے
ہر چہرۂ زیبا میں اک زخم ہے پوشیدہ
اجسام نگاریں میں ہم رنگ حنا کتنے
فرحت قادری کی شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے ش م عارف ماہر آروی لکھتے ہیں:
’’فرحت صاحب نے اردو شاعری کی تمام مروجہ اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ مگر غزلوں میں ان کا جوہر کھل کر سامنے آیا ہے۔ وہ اصولی طور پر روایت کے دائرے میں رہ کر ہی غزل سرا ہیں۔ مگر ایسی بات نہیں کہ ان کی غزلوں میں موجودہ دور کا کرب، ناآسودہ اور ٹوٹتی بکھرتی قدروں کا احساس نہیں ملتا۔ مندرجہ زیل اشعار سے ان کے کلام کی خوبیاں واضح ہوجائیںگی ؎
فضا مسموم گل افسردہ مرجھائی ہوئی کلیاں
یہ انعام بہاراں ہے توہم انعام سے گزرے
جس کی تعبیر ہے غم پیہم
زندگی کا وہ خواب ہیں ہم لوگ
ہم نوائی، غم گساری، بھولی بسری بات ہے
اب کہاں غیروں کا غم، اپنوں کی قربانی کہاں
شاخ گل تر، سرو سمن بیچ رہاہے
ہر اہل چمن اب تو چمن بیچ رہاہے
دشمن کے پتھروں نے بھی بخشا نہ تھا وہ درد
اپنے چمن کے پھول جو نشتر چبھو گئے
یہ اور اس طرح کے بہت سارے اشعار’’کائنات غم‘‘ مطبوعہ ۱۹۷۵ء میں آپ کو مل جائیںگے۔ فرحت صاحب کایہ مجموعہ کلام ان کی ۱۹۵۱ء سے ۱۹۷۲ء یعنی بیس برسوں کی مشق سخن کا انتخاب ہے۔ مگر ۱۹۸۳ء میں ’’شیشے اور پتھر‘‘ کے عنوان سے جو غزلیں شائع ہوئیں ان میں ’’غزل برائے غزل ‘‘ کا زمانہ بیت گیا، غم حیات کی منزل پہ آرہی ہے غزل، مجسم ہوکر شعر کا لباس نہیں لیتی ہے۔ ان غزلوں میں اس بات کی نشاندہی ملتی ہے کہ شاعر اپنے ارد گرد کے ماحول کی کثافت اور قدروں کی شکست وریخت سے بے حد متنفر ہے ا س دور کی غزلوں میں انفرادیت بھی ہے۔ اور فکر کی عنصر بھی ۔ جو ایک صاحب کردار کا غماز ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہو ؎
پتھر کی مورتی پہ تمدن کا خول ہے
انسان کیا ہے اس کے علاوہ بتائیے!
معنی کے سمندر سے افکار کے سورج تک
احساس سے عاری ہیں لفظوں کے خدا کتنے
یہ تشنگی کا زور، یہ تپتا ہوا بدن
فرحت یہاں قریب سمندر ضرور ہے
۱۹۷۲ء کے بعد کی غزلوں میں رفو، مطلوب، برگد، پت جھڑ، سورج، موسم، حصار ذات کے لفظیات جدیدیت سے متاثر ہونے کا اشارہ کرتے ہیں۔ مگر جدیدیت کی بے راہ روی میں گم کردہ راہ نہیں ہونے میں بہ بانگ دہل یہ کہتاہوں کہ فرحت قادری کی غزلوں میں ان کی شرافت اور نجابت کی بازگشت گونج رہی ہے۔‘‘
درج بالا رائے ش م عارف ماہر آروی صاحب کی اپنی رائے ہے اس سے اختلاف بھی کیاجاسکتاہے لیکن ایک بات تو بالکل سچ ہے کہ ان کا جوہر ان کی غزلوں میں ہی کھل کر سامنے آیاہے۔
فرحت قادری ایک عرصے تک حصول علم کے لئے ادھر ادھر آتے جاتے رہے جب آسودگی نصیب ہوئی تو لیل ونہار سے گزرے ہوئے لمحات کو انہوں نے اپنی شاعری میں سمونے کی سعی کی اور یہی حالات ان کی شاعری میں جلا بخشنے کا سبب بھی ہوئے۔ انہوں نے اپنی شاعری کو اپنی سستی شہرت کا وسیلہ کبھی نہیں بنایا بلکہ اسے اپنی شخصیت کاایک اہم حصہ سمجھ کر اپنے سینے سے لگائے رکھا۔ اگر ایسا نہیں ہوتاتو ان پریہ الزام کبھی بھی عاید نہیں ہوتا کہ انہوں نے قعرگمنامی میں ہی رہنا پسند کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فرحت قادری میں بے پناہ تخلیقی صلاحیت موجود ہے۔
بات فرحت قادری کی غزلوں کی ہورہی ہے۔ فرحت قادری برابر اس کا اعتراف کرتے رہے ہیں کہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔اپنی تصنیف ’’زمین ہنر‘‘ میںلکھتے ہیں:
’’میں بے جھجک عرض کروں گا کہ دراصل میں غزل کا شاعر ہوں۔ غزل ہی سے ابتدا کی ہے۔ اور زیادہ تر غزلیں ہی کہتاہوں۔‘‘
انہوں نے ’’رقص وعکس‘‘ میں بھی اس کا اعتراف یوں کیا ہے:
’’ میری شاعری کی ابتدا غزل گوئی سے ہوئی میں نے تقریباً ہرصنف سخن میں طبع آزمائی کی مگر غزلوں کی طرف میرا رجحان زیادہ ہے۔ مرزا غالب، جگر مراد آبادی اور جناب فیض احمدفیض میرے محبوب شاعر ہیں ان کی شا عری سے بہت متاثر ہواہوں۔‘‘
فرحت قادری کی غزل گوئی کے سلسلے میں اردو کے معروف فکشن نگار اور صحافی معین شاہد لکھتے ہیں:
’’ فرحت قادری کی غزل گوئی تفسیر حیات وکائنات ہے۔ ان کی غزلیں محفل شعر وسخن کی روح رواں رہی ہیں۔ ان کے پڑھنے کا مخصوص انداز اوران کا ترنم سامعین کے لیے وجہ کشش رہاہے۔
ان غزلوں کے اشعار معاملات حسن وعشق کی آئینہ دار ہیں۔ حیات و کائنات اور مسائل زندگی کے بے شمار پہلو ان کی غزلوں میں پائے جاتے ہیں۔ جن کا مجموعی تاثرComulative effectقارئین پرپڑتا ہے۔ ان میں ایک وجدانی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ان کی غزلیں مومن کی شگفتہ بیانی، غالب کی رفعت فکر، یگانہ اور شاد کی بلند خیالی اور شعری گہرائی و گیرائی ، فراق کی حسیت، فیض، مجاز اور جمیل مظہری کے شعری آہنگ اوران کے دوسرے ہم عصر شعراکے افکار نو اور عصری آگہی سے مرصع نظر آتی ہیں۔‘‘
… انہوں نے اپنے نئے شعور و وجدان کا سہار الے کر جادۂ شاعری میں ایک نئی راہ نکالی۔ اپنے لیے ایک نیا طرز سخن ایجاد کیا۔ انہوں نے زبان وبیان، لب ولہجہ، موضوع ،انداز فکر اور طرز احساس کو شعری روایت کے ساتھ ساتھ اپنی غزلوں کے قالب میں اس طرح ڈھالا کہ ہر دل احساس کو متاثر کئے بغیر نہ رہ سکا۔ فرحت قادری نے اپنے محسوسات اور تصورات کو شعری ڈھانچہ میں بڑی فنی چابکدستی کے ساتھ سموکر اپنی غزلوں کو جلادی۔ انہوں نے اپنے دلی در د وکرب کو جس ہنر مندی سے اپنی غزلوں میں بیان کیا ہے۔ اس کی وجہ سے فرحت کی شاعرانہ عظمت کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ غزلوں کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے ؎
یہ کس مقام پہ تم کھنچ کے آگئے فرحت
یہاں گلوں کی قبا میں ہیں خار پوشیدہ
شوق پروانہ نے کچھ کہنے کی مہلت ہی نہ دی
شمع گھلتی رہی اس غم میں سحر ہونے تک
لذت دور خوش گوار گئی تم گئے گھر کی ہر بہار گئی
آشیاں خود جلادیا میں نے کس قدر برق شرمسار گئی
موت کے بعد بھی ہے اور حیات زندگی مختصر نہیں ہوتی‘
فرحت قادری کی غزلوں میں واردات قلبی اور تجربات حیات کی ترجمانی بھی ملتی ہے۔ مندرجہ بالا اشعار دیکھئے
اتنے کھائے ہیں دوستی کے فریب اب تو جی دوستی سے ڈرتا ہے
اب یہ علم ہوا ہے دنیا کا آدمی آدمی سے ڈرتا ہے
معاملات حسن وعشق کی جلوہ گری ملاحظہ ہو ؎
پھر گھٹا چھائی ہے ساقی ترے میخانے پر
پھر مری زلف کی رندوں نے قسم کھائی ہے
حسن مغرور نے جس سے جلا پائی ہے
وہ مرے عشق جہاں تاب کی انگڑائی ہے
اف یہ انداز مسکرانے کا
دل دھڑکنے لگا، زمانے کا
آپ آیا نہ کریں سامنے آئینوں کے
آئینے دیکھ کر حیران ہوا کرتے ہیں
تصوف کے اشعار دیکھئے ؎
اٹھ جاتی ہے ہر بار نظر رحمت کی
اس دل پہ جو آلودۂ غم ہوتا ہے
سرمد کا روپ ہو یا منصور کی ہو صورت
حق یہ ہے زندگی بھر میں دار پر رہاہوں
فرحت قادری کی غزلوں میں بڑی آب وتاب ہے عصری حسیت ہے ؎
شیشے کے مکانوں میں پتھر کے صنم دیکھے
شعلوں کی جبینوں پر شبنم کی ردا ٹھہری
فرحت کی غزلوں میں زندگی کا عکس اس طرح نمایاں ہے کہ زندگی کی سچائیاں ان میں سمٹ آئی ہیں۔
میں تو سب کے چاک دامن پر رفو کرتا رہا
اہل دنیا چاک میرا پیرہن کرتے رہے
وہی قتل گاہ ہر سو، وہی عالم تباہی
کہاں لے کے آگیا ہے میرا جرم بے گناہی
مشکل نہیں ہے آج بھی اجرائے جوئے شیر
ہمت سے کام لیجئے، تیشہ اٹھائیے

(جاری)

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا