ذوالفقاراحسن
03150569103
نجمہ منصور نثری نظموں کے حوالے سے خاصی شہرت رکھتی ہیں ان کی خوش قسمتی ہے کہ ان کی ابتداء میں ہی ڈاکٹر وزیر آغا جیسے نقاد، شاعر، انشائیہ نگار، ایک نفیس اور محبت کرنے والے انسان سے ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات چالیس برس پر محیط ہے۔ وزیر آغا نے نجمہ منصور کی ادبی تربیت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ رکھا۔ انھوں نے نجمہ منصور کی اس طرح تربیت کی کہ جیسے ایک مالی اپنے پودوں کی حفاظت اور دیکھ بھال کرتا ہے۔ وہ انکی ضرورت پڑنے پر تراش خراش بھی کرتا ہے اور موسموں کے تغیر و تبدل سے بھی بچاتا ہے۔ پھر آخر آخر اس کے پھل پھول دیکھ کر خوش ہوتا ہے وزیر آغا نے بھی ایسے ہی کیا ہے نجمہ کی تربیت ایسے کی کہ وہ لفظوں کی نشست و برخاست سے واقف ہوگئی ہیں۔ وہ نظموں کی تراش خراش اس انداز سے کرتی ہیں کہ جیسے پتھر میں سے سنگ تراش ایک خوبصورت مجسمہ نکال لیتا ہے۔ ان کی نظموں میں علامت،تجسیم، تشبیہ استعارہ، صنعت تلمیح کا استعمال عمدہ انداز میں ملتا ہے۔
وزیر آغا کو اپنا ادبی مرشد سمجھنے والی نجمہ کے سر پر باپ کی طرح ہاتھ رکھنے والے وزیر آغا جب رحلت فرماتے ہیں تو نجمہ منصور بھی ایسے محسوس کرنے لگتی ہے کہ جیسے ان کے والد شیخ منصور احمد ایک بار پھر انتقال کر گئے ہوں۔ وہ دکھ اور کرب میں مبتلا ہو جاتی ہیں ایسے میں وہ ایک نظم ’’بارہ ماسی پیڑ جیسے‘‘ تخلیق کرتی ہیں جس میں انھوں نے وزیر آغا کے انتقال کے دکھ کو بیان کرتے ہوئے اپنی محبتوں، چاہتوں اور جاوداں لمحوں کا ذکر کیا ہے۔ڈاکٹر وزیر آغا کو ایک ایسے پیڑ سے تشبیہ دی ہے جو بارہ ماہ ہرا بھرا رہتا ہے جس پر خزاں نہیں آتی۔ اس کی شاخوں اور پتوں پر کئی پرندے آکر بیٹھتے ہیں اور وہ پیڑ ہر آنے والے پرندوں کا خیر مقدم کرتا ہے۔ پرندے اپنی علمی پیاس بجھا کر اڑ جاتے ہیں تو پھر ایک اور ڈار آجاتی ہے اور یہ سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے ڈاکٹر وزیر آغا لفظوں کے بادشاہ تھے وہ لفظوں کونہایت عمدگی سے استعمال کرتے۔ لفظ ان کے سامنے مؤدب قطار میں کھڑے رہتے اور وہ بڑی آسانی سے انہیں نظموں اور نثرمیں استعمال کر لیتے تھے۔ لفظ ان کی انگلیوں کی پوروں کا بوسہ لے کر صفحہ قرطاس میں منتقل ہونے لگتے اور پھر منتقل ہوتے ہی رہتے۔ یہ سلسلہ ان کی موت تک جاری و ساری رہا۔ وزیر آغا کے انتقال کے بعد ان کا آخری نظموں کا مجموعہ ’’کاسہ شام‘‘ اس کا واضح ثبوت ہے۔ اس نظم میں افسانہ کی طرح فلیش بیک کا استعمال بھی ملتا ہے جب نجمہ منصور کہتی ہیں کہ
’’مجھے یاد ہے!
سجاد نقوی، یوسف خالد، عابد خورشید
ذوالفقاراحسن اور میں
آپ کی ہر نئی نظم کے پہلے سامع ہوتے اور
قاری بھی
آپ نظم سناتے
اور ہم سانس روک لیتے
نظم دائرہ در دائرہ پھیلتی
ہمارا طواف کرنے لگتی
پھر پرت در پرت ہم پر کھل جاتی‘‘
نظم کی ان لائنوں میں انھوں نے وزیرآغا کے ہاں شام دوستاں آباد کی محفلوں کا ذکر کیا ہے جب ہم یعنی پروفیسر سجاد نقوی، پروفیسر یوسف خالد، عابد خورشید، راقم (ذوالفقاراحسن) اور نجمہ منصور موجود ہوتے تو وزیر آغا اپنی تازہ نظمیں سنایا کرتے۔ آغا جی جب نظم سنا چُکتے تو پھر کہتے اب اس نظم کو کھولیں۔ ایسے میں پروفیسر یوسف خالد کا ہنکارا بھر کر گفتگو کا آغاز کرنا اور پھر نظم کا اتنی خوب صورتی سے تجزیہ کرنا، نظم میں چھپے استعاروں، علامتوں کو کھولتے چلے جانا اور وزیر آغا کے چہرے پر مسکراہٹوں کا پھیلتا جانا ہم نے دیکھا ہے۔ اس گفتگو میں ہم سارے لوگ شریک ہوتے۔ سب سے آخر پر وزیر آغا نے اپنی رائے دینا اور کہنا کہ بعض چیزوں کا مجھے بھی علم نہیں تھا جس طرف آپ لوگوں نے اشارہ کیا ہے۔ بعض اوقات وہ خود بھی اس گفتگو میں شریک ہوتے اور نظموں کے بارے میں ہمیں سمجھانے لگتے کہ ہر نظم کے اندر ہی کہیں اس کی چابی موجود ہوتی ہے جب آپ چابی تک پہنچ جاتے ہیں تو پھر نظم کھلنا شروع ہو جاتی ہے۔ یہ سلسلہ کم و بیش بیس پچیس سال پرمحیط ہے۔ نجمہ منصور نے وزیر آغا سے بہت کچھ سیکھا ہے یہ ان کا فیض ہے کہ وہ آج صف اول کی نثری نظموں کی شاعرہ ہیں اور ان کی نثری نظموں کا باقاعدہ کلیات منصہ شہود پر آچکا ہے۔
نظم ’’بارہ ماسی پیڑ جیسے‘‘ دراصل نجمہ منصور کے باطن کا وہ نوحہ ہے جسے انھوں نے نہایت عمدگی سے صفحہ قرطاس پر منتقل کر دیا ہے۔ ’’اپنوں سے جدائی کا دکھ‘‘وہ جانتا ہے جس کا کوئی بہت پیارا عزیز بچھڑ چکا ہو۔ اس کی جدائی کا صدمہ اندر ہی اندر ایسی ہلچل مچاتا ہے کہ پورا نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس وقت شاعرہ باطن کی شکست و ریخت سے دو چار ہو جاتی ہے۔ اس نظم میں نجمہ منصور ایک بار پھر ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے لگتی ہے جب وہ کہتی ہے:
آغا جان!
بچپن میں
مجھے بلی کی آنکھوں سے ڈر لگتا تھا
اندھیرے میں اس کی چمکتی بلوری آنکھیں
مجھے گھورتی تھیں تو
یوں لگتا تھا جیسے
موت کے چہرے پر آنکھیں اُگ آئی ہوں
بالکل سرچ لائٹ کی طرح
اب مجھے بلی کی آنکھوں سے
ذرا ڈرنہیں لگتا
اس کی بلوری آنکھیں اب مجھے اچھی لگتی ہیں
کیونکہ آپ او ربابا جان کو
کفن اوڑھے دیکھ کر
میں نے موت کا اصل چہرہ دیکھ لیا ہے‘‘
نظم ’’بارہ ماسی پیڑ جیسے‘‘ کی یہ لائنیں دراصل موت کے اس کرب اور دکھ کا اظہار اور اعلامیہ ہیں جب سے نجمہ منصور نے اپنے والد شیخ منصور احمد کو اور ڈاکٹر وزیر آغا کو موت کے بعد سفید کفن اوڑھے دیکھ لیا تب سے کوئی خوف اور ڈر نہیں رہا۔ انھیں بچپن میں بلی کی بلوری آنکھوں میں ڈر محسوس ہوتا تھا لیکن اب اس سانحہ کے بعد نجمہ کو خوف سے نجات مل گئی ہے۔ کیونکہ نجمہ منصور نے موت کا اصل چہرہ دیکھ لیا ہے۔بڑے سانحہ کے بعد چھوٹے چھوٹے سانحے کسی خاطر میں نہیں ہوتے۔جب نجمہ منصور کہتی ہیں ’’موت کے چہرے پر آنکھیں اُگ آئی ہوں‘‘ یہ لائن اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بلی کی آنکھوں سے اندھیرے میں ڈر دراصل موت کا اعلامیہ ہی تھا۔ اس نظم میں ایک مکالمہ بھی شامل ہے۔ نجمہ منصور کا وزیر آغا سے یہ مکالمہ دراصل اس نظم کا مرکزی نقطہ بھی ہے۔ مکالمہ کی یہ چند لائنیں ملاحظہ ہوں:
’’آغا جان!
آپ کا ایک سوال تو مجھے
آج بھی یاد ہے کہ
’’نجمہ جانتی ہو، زندگی کا سب سے بڑا روگ کیا ہوتا ہے‘‘
میں نے نے کہا تھا:
اپنوں سے جدائی‘‘
اس مکالمہ میں ’’اپنوں سے جدائی‘‘ والی لائن لازمی طور پر اس وقت تخلیق ہوئی ہوگی جب نجمہ منصور کے والد اور وزیر آغا کی بیگم صفیہ آغا کا انتقال ہو چکا ہوگا۔ دونوں یعنی وزیرآغا اور نجمہ منصور تازہ تازہ اس دکھ اور کرب سے گزرے ہیں انھیں معلوم ہوگیا تھا کہ زندگی کا سب سے بڑا روگ دراصل اپنوں سے جدائی ہی ہے۔نجمہ منصور نے کمال محنت اور ریاضت سے اسی لائن کو ڈاکٹر وزیر آغا کی وفات پر کہی جانے والی نظم ’’بارہ ماسی پیڑ‘‘ کا حصہ بنا کر ’’اپنوں سے جدائی‘‘ کو وزیر آغا کے ساتھ بھی منطبق کردیا ہے۔ زندگی کا سب سے بڑا روگ اپنوں سے جدائی میں مضمر ہے۔اس نظم کی چند مزید لائنیں ملاحظہ ہوں:
آج وقت کی نبض پر
انگلیاں رکھے کھڑی ہوں
آپ کی شفقت میں بھیگے
’’ستارہ جیسے آنسو
جو میری پلکوں پر آکر رک گئے ہیں
میری روح کو بھگو رہے ہیں
دیکھئے
لفظ بھی رو رہے ہیں
اس نظم کی مذکورہ لائنوں میں نجمہ منصور نے Personificationکو نہایت عمدگی سے برتا ہے۔ جب وہ وقت کی نبض کہتی ہیں تو گویا وہ وقت کو تجسیم کر رہی ہیں۔ وقت کی نبض پر انگلیاں رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ وقت کے تغیر و تبدل کو محسوس کیا جائے کہ وہ کس طرح کی طبیعت رکھتا ہے۔ یا یہ کہ وقت کیسا آنے والا ہے۔وزیر آغا کی آنکھوں میں چمکنے والا آنسو، نجمہ اپنی آنکھوں میں محسوس کرنے لگتی ہیں۔ یہ صرف آنسو ہی نہیں بلکہ وہ اس درد کو بھی محسوس کرنے لگی ہیں جس درد کی وجہ سے وزیر آغا کی آنکھوں میں آنسو ایسا ستارہ چمکا تھا۔ مجموعی طور پر نظم بہت اچھی اور اداسی کی فضا اوڑھے ہوئے ہے۔ یہ نظم دراصل اپنوں سے جدائی کا نوحہ ہے جسے نجمہ منصور نے کمال ہنر مندی سے لکھا ہے ان کی یہ نظم ان کی کتاب”نظم کی بارگاہ میں” موجود ہے نظم کے سنجیدہ قارئین کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔
٭٭٭٭٭