نیشنل کانفرنس لیڈران مت بھولیں اِسے کشمیریوں نے 1947 میں مسترد کردیا تھا:پروفیسر بھیم سنگھ
لازوال ڈیسک
جموں؍؍پینتھرس سپریمو، آئینی امور کے ماہر اور لندن یونیورسٹی سے قانون میں پوسٹ گریجویٹ پروفیسربھیم سنگھ نے اپنے سخت ردعمل میں جموں و کشمیر میں اقتدار کی بھوکی نیشنل کانفرنس کی قیادت کو یاد دلادیا کہ 2020 میں جناح فارمولہ چل نہیں سکتا، جسے کشمیریوں نے 1947 میں مسترد کردیا تھا۔ 1927 میں، جموں و کشمیر کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے ایک شاہی فرمان جاری کیا جس میں اعلان کیا گیا تھا کہ جموں و کشمیر میں کسی بھی بیرونی ( نان اسٹیٹ سبجیکٹ) کو شہریت (مستقل رہائشی حیثیت) نہیں دی جائے گی۔ 1949 میں، جب ہندوستانی آئین تشکیل دیا گیا تو دستور ساز اسمبلی نے اس فارمولے کو پوری طرح قبول کرلیا۔ دستور ہند کے آرٹیکل 11 اور 12 میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جموں وکشمیر میں مستقل رہائشی کی حیثیت متاثر نہیں ہوگی یا اسے بدلا نہیں جائے گا۔ ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی نے جموں و کشمیر کے مستقل رہائشیوں کے ریاستی سبجیکٹ(مستقل رہائشی) کے درجہ کومنظوری دے دی تھی۔انہوں نے ‘ہندوستان ٹائمز کے خصوصی نمائندہ کے اداریہ میں ڈاکٹر فاروق عبد اللہ کے اس بیان کو غلط قرار دیا جس میں کہا گیا ہے کہ 1954 میں شیخ عبد اللہ کے خلاف آرٹیکل 35-A لایا گیا تھا، جبکہ آرٹیکل 12 سے 36 تک تمام ہندوستانیوں پر پورے انسانی حقوق نافذ ہیں، جس میں جموں و کشمیر بھی شامل تھا۔ پرو بھیم سنگھ نے 35-A کو غیر قانونی قرار دیا، کیونکہ صدر یہ ترمیم صرف چھ ماہ کے لئے کرسکتے تھے۔ یہ ترمیم پارلیمنٹ نے نہیں کی اور نہ ہی پارلیمنٹ اس کو 35-A انسانی حقوق کے باب میں شامل کرسکتی ہے۔ بدقسمتی سے، ‘ہندوستان ٹائمز’ 1953 میں واحد اخبار تھا جس نے 1954 میں صدارتی حکم سے صرف شیخ عبد اللہ کو مطمئن کرنے کے لئے جاری کردہ آرٹیکل 35-A کی حمایت کی تھی، جو سراسر غلط ہے۔ شیخ عبد اللہ آرٹیکل 35-A کی وجہ سے غیر قانونی طور پر 22 سال جیل میں رہے، جسے آج ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے نیشنل کانفرنس کی قیادت اور ‘ہندوستان ٹائمز کے نمائندے’ کو جموں وکشمیر کی تاریخ اور نام نہاد آرٹیکل 35 میں آئینی ترمیم کے بارے میں پڑھنے کی یاد دلاتے ہوئے اسے ایک سیاسی سازش قرار دیا۔انہوں نے نیشنل کانفرنس کی قیادت کو ریاست میں بنیادی حقوق کا آغاز، جموں و کشمیر کی تاریخ پڑھنے کی یاد دلادی۔ نیشنل کانفرنس کے لیڈروں کو نیشنل کانفرنس کے بانی کی تاریخ کے بارے میں پڑھنا چاہئے کہ کس طرح آرٹیکل 35-A میں آئینی ترمیم سے ان کی سیاسی زندگی بکھر گئی تھی اور انسانی حقوق پورے جموں و کشمیر کے عوام سے غیر قانونی طور پر چھین لئے گئے تھے۔انہوں نے کشمیری قیادت کو (ان میں سے کچھ کو) خبردار کیا کہ وہ محمد علی جناح کی زبان کو دہرانے سے باز رہیں، جسے انہوں نے مذہبی خطوط پر تقسیم ہند کے لئے استعمال کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر کے عوام کو آج ترمیم شدہ آرٹیکل 35-A اور آرٹیکل 370 کے سلسلے میں اپنے طور پر سوچنے کی اجازت دی جانی چاہئے۔ انہوں نے نیشنل کانفرنس کے رہنماؤں کو یاد دلایا کہ جناح ہندوستان کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کے لئے جس فارمولے کا استعمال کرتے تھے وہ جموں وکشمیر میں کام نہیں کرسکتا، کیوں کہ یہ 1947 میں بھی کام نہیں آیا تھا۔انہوں نے ‘ہندوستان ٹائمز’ میں شائع ہونے والے اداریہ کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مصنف کو جموں و کشمیر کی سیاسی تاریخ اور اس کی سیکولر اور ہم آہنگی کی ثقافت کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے۔ بدقسمتی سے، موجودہ قیادت اپنے بانی، شیخ محمد عبداللہ کی ہم آہنگی اور سیکولر کردار کو زندہ رکھنے کے لئے قربانیوں کو نہیں سمجھ سکی ہے۔انہوں نے جموں و کشمیر کی تمام تسلیم شدہ سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں نہ لینے پر کشمیری رہنماؤں کی مخالفت کی اور کہا کہ نام نہادچھ جماعتیں نیشنل کانفرنس کے رہنماؤں کو آج یا کل کی قیادت کرنے کی اجازت نہیں دیں گی۔انہوں نے نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کی قیادت کو مشورہ دیا کہ وہ جلد ہی الیکشن کمیشن آف انڈیا کے ذریعہ تسلیم شدہ جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتوں کے سینئر نمائندوں کے ساتھ ایک بند دروازہ میٹنگ کریں جو جموں و کشمیر کی سیکولر، جمہوری اور علاقائی پوزیشن قائم رکھنے کا واحد راستہ ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے پوچھا کہ آرٹیکل 370 کو مکمل طور پر کیوں نہیں ہٹایا گیا؟ اس موضوع پر ایک بہت بڑی بین الاقوامی پیچیدگی ہے، جس پر بات چیت اور بحث اس وقت ہوگی جب تمام سیکولر، قوم پرست اور جمہوری پارٹیاں کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں ملیں گی۔ کیا وزیر اعظم اس کا جواب دے سکتے ہیں کہ آئین ہند کی دفعہ 370 ابھی تک زندہ کیوں ہے؟