ڈاکٹرمحمد اکمل خان
23؍اگست 2020 کو ہفت روزہ ’’لازوال ادب(جموں)‘‘ اور روزنامہ’’ ادب نامہ نیا نظریہ‘‘ میںفوزیہ رباب کاایک مضمون ’’حرف و صوت کا شہنشاہ:راحت اندوری‘‘کے عنوان سے شائع ہوا جس میں اسٹیج کے شاعر راحت اندوری کی شخصیت کوبے معنی عنوان اور متضاد خیالات کے ذریعے واضح کرنے کی کوشش کی گئی ۔خیالات کی وضاحت میں ایسے اشعار کا اندارج کیا گیا جن کا موضوع سے کوئی تعلق نہیں۔بہر حال اس کا ذکر آنے والی تفصیل میں حوالوں کے ساتھ کیا جائے گا لیکن سب سے پہلے اس کے عنوان ’’حرف و صوت کا شہنشاہ:راحت اندوری‘‘پر غور کیا جائے۔
اہل نظر اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ’حرف ‘اور ’صوت‘ کا تعلق اردو قواعد سے ہے نہ کہ شاعری سے۔شاعری تو شائستہ الفاظ، موسیقیت اور آہنگ کا نام ہے ۔پھر بھی اگر ہم مضمون نگار کے خیال سے اتفاق کر لیںتو ’’چالیس پینتالیس برسوں تک حرف و صوت پر حکمرانی‘‘ والے جملے کو کس بنیاد پر تسلیم کریں جبکہ راحت اندوری کے زمانے میں اردو کے اور بھی بہترین شاعر موجود تھے۔ راحت اندوری نے کل ستر (70)سال کی عمر پائی اور مشاعرے پڑھنے کی شروعات بیس سال کی عمر سے کی، اس طرح ان کی شاعری کل پچاس سال کے عرصے پر محیط ہے۔ پچاس سال کے عرصے میں پینتالیس سال تک شاعری بلکہ ’’حرف و صوت کا شہنشاہ ‘‘ہونے والی بات ایک صحت مند ذہن کے لیے کیوںکر قابل قبول ہو سکتی ہے۔اگرموصوفہ کے مطابق 1975-80سے 2020 تک راحت اندوری نے اردو شاعری کی دنیا پر راج کیا توفراق گورکھپوری(متوفی 1982)،حبیب جالب (1993)، پروین شاکر (1994)، محسن نقوی(1996)، خمار بارہ بنکوی (1999)،قتیل شفائی(2001)،جون ایلیا(2002)،جگن ناتھ آزاد (2004)،معین احسن جذبی(2005)،احمد ندیم قاسمی (2006)منیر نیازی(2006)،احمد فراز(2008)،شہریار(2012)،ندا فاضلی (2016)اور گلزار دہلوی (2020)وغیرہ کو اس ’’بادشاہوں کے بادشاہ(شہنشاہ)‘‘ کی رعایا ماننے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر موصوفہ نے اردو شاعری کی اس نصف صدی پر نظر ڈالی ہوتی تو اس قدر مبالغہ آمیز عنوان نہ گڑھا ہوتا۔
کوئی بھی شاعر روز اوّل سے اپنے فن کا ماہر نہیں ہوتا۔ اس کے لیے سخت محنت اور مشق کی ضرورت ہوتی ہے، غالب ؔ نے کل تہتر (73) سال کی عمر پائی اور وہ بلا مبالغہ ہر صدی کے بہترین شاعر ہیں تاہم ان کے معاصرین نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ان کی شاعرانہ عظمت کا عہد نصف صدی پر محیط ہے یا وہ حرف صوت کے شہنشاہ ہیں۔لیکن مشاعروں کی بنیاد پرعوام کے درمیان مقبولیت حاصل کرنے والے شخص کو ’’حرف و صوت کا شہنشاہ‘‘ بنانے کا حتمی جملہ کہاں تک صحیح ہے اس کا فیصلہ میں اہل ذوق کے ہاتھوں پر چھوڑتا ہوں۔
عنوان سے آگے بڑھ کر جب ہم مضمون پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ موصوفہ نے راحت اندوری کے مصرعوں کو بطور نکات کے استعمال کیا ہے۔یہ انداز خوب ہے لیکن مصرعوں کی مناسبت سے اس کے تحت آنے والی بحث اس سے کہاں تک میل کھاتی ہے اس کی وضاحت کے لیے ہم سلسلے وار ان کے ایک ایک نکتے پر بات کریں گے۔
تمہید میں غزل کے لیے ’’پر شکوہ شعری پیکر‘‘کا استعمال کیا گیا ہے جو کہ قصیدہ کا خاصہ ہوتا ہے۔لیکن اگر یہی پرشکوہ پیکر غزل میں لایا جاتا ہے تو اشعار کو کرخت اور بھونڈا بنا دیتا ہے۔جیسا کہ راحت اندوری کے مشہورشعرکے دوسرے مصرعے(کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے) کے انداز سے واضح ہوتا ہے اورموصوفہ کی ’’ صوت کا شہنشا ہ‘‘ والی بات کی ازخود تردید ہو جاتی ہے۔’’چند دہائیوں تک مزاحمت اور احتجاج کا توانا مرد آہن‘‘کا نظر نہ آنا جبکہ احمد فرازکی احتجاجی شاعری کی وجہ سے ملک بدر ہونے تک کی نوبت آ جائے، موصوفہ کے قلیل شعری مطالعے کی ایک پختہ دلیل ہے۔
آگے چل کر ’’سفاک عہد کے وحشت خیز مناظر‘‘ میں لفظ’ وحشت ‘کے ساتھ’خیز‘ کا لاحقہ کیوں کر اور کس معنی میں استعمال ہوا ہے واضح نہیں ہے۔ہاں ’’وحشت ‘‘ ایک لفظ ہے اور’’خیز‘‘ مرکبات میں استعمال ہونے والا اسم فاعل ہے جس کے معنی’’ اٹھانے یا پیدا کرنے‘‘کے ہیں۔اس طرح جملے کے مفہوم سے جو مناظر مراد لیے جاسکتے ہیں ان کے لیے اب تک ہندوستان میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ سیاست کے اس تاریک عہدمیں بھی ہندوستان کا ماحول’’وحشت خیز‘‘مناظر کے لیے قطعی طور پر سازگار نہیں ہے۔
پہلا نکتہ ’’کسی چراغ کے مانند جل کے دیکھوں گا‘‘کے مصرعے کو محیط ہے ۔اس میں ’’روایت شکنی کے بغیر ترقی کو ناممکن‘‘ قرار دینااس بات کی دلیل ہے کہ شاعرنے روایت سے ہٹ کر یا روایت سے انحراف کر کے شاعری کی۔میرے مطالعے کی حد تک غالبؔ سے قبل اردو شاعری کا انحصار عاشق،معشوق اور رقیب کے مثلث پر تھا، غالبؔ نے اس روایت کو توڑ کر اس میںتوسیع کے نئے راستے ہموار کیے۔آل احمد سرور نے لکھا ہے کہ ’’غالب سے پہلے اردو شاعری دل والوں کی دنیا تھی،غالب نے اسے ذہن دیا اور ایک ایسی زبان دی جو فکر کا ساتھ دے سکے۔‘‘غالب کے بعد اردو شاعری از خود نئے نئے موضوعات سے متعارف ہوتی رہی ،تو پھر راحت اندوری نے کون سی پرانی روایت کو توڑا اور کون سی نئی روایت وضع کی اس کی دلیل میں موصوفہ نے کوئی شعر پیش کیا ہوتا تو شاید (بقول موصوفہ)ترقی کے راستے ہموار ہو پاتے۔تمام عمر محفل اور بزم گاہوں میں عمر گزارنے والا اسٹیج کا شاعر رزم گاہ میں معرکہ آرائیوں کوکس طرح محبوب رکھتا ہے یہ بات بھی وضاحت طلب ہے۔
اسی نکتے کے تحت آخر میں ’’جدیدیت کے نام پر شعر و ادب کوانسانی زندگی سے کاٹ دینا اور پھر لکھنؤکے امام باڑے کی بھول بھلیاں ہو نا،پھر راحت اندوری کا اس حصار کو توڑ کر اپنا تخلیقی رشتہ ترقی پسندوں سے استوار کرنا۔‘‘جیسے جملے تراشے گئے ہیں۔پہلی بات تویہ کہ لکھنؤ کے بھول بھلیاں کی مثال اس بات کے لیے دی جاتی ہے جو ہمیشہ کے لیے گم ہو جائے،جبکہ اردو شعر و ادب کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا۔جدیدیت کی تحریک غبار کی طرح اٹھی اور بیس سال کے بعد دھوئیں کی طرح ہوا میں تحلیل ہو گئی۔دوسری بات یہ کہ جدیدیت نے فکشن اور تنقید کے مقابلے شاعری کو بہت کم متاثر کیا۔اگر چہ اردو شاعری میں استعاراتی اور علامتی نظام نے جگہ پائی لیکن اس نے غزل کو کبھی بھی لکھنؤ کے امام باڑ ے کی بھول بھلیاں نہیں ہونے دیا۔تیسری بات یہ کہ جدیدیت کا دور 1960سے شروع ہو کر 1980ء میں دم توڑ چکا تھا اور موصوفہ کے بقول راحت اندوری کی ’’شہنشاہت کی تاج پوشی ‘‘ 1975 سے1980 کے درمیان میں کی گئی۔پھر ایک بے جان اوردم توڑتی ہوئی تحریک کے ازخود ختم ہونے کا سہرا اپنے سر لینا کس حد تک ٹھیک ہے؟اس بات سے موصوفہ کے تحریکات سے متعلق لاغر معلومات کی اصلیت قارئین کے سامنے آ جاتی ہے۔
دوسرانکتہ’’یہ زندگی جو مجھے قرض دار کرتی رہی‘‘کے مصرعے کو محیط ہے۔یہاں ’’نہ زندگی سے خوف زدہ ہیں نہ موت سے خائف‘‘ سے متعلق چند باتیں کہنا چاہتا ہوں۔اگر موصوفہ نے نفسیات کے حوالے سے ادب کا مطالعہ کیا ہوتا تو انہیںیہ معلوم ہوتا کہ دنیا میں صرف ایک احساس ہوتا ہے اور وہ ہے احساس کمتری ، باقی تمام احساس اس کمتری کو چھپانے کے لیے ہوتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح موت کے خوف سے زندگی کو برا بھلا کہنا یا ہمت اور دلیری کاجھوٹا مظاہرہ کرناوغیرہ۔راحت اندوری زندگی سے بیزار بھی ہیں اور موت سے خائف بھی ہیں۔ان کے یہ دو اشعار دیکھیں:
یہ زندگی جو مجھے قرض دار کرتی رہی
کہیں اکیلے میں مل جائے تو حساب کروں
خوابوں میں جو بسی ہے وہ دنیا حسین ہے
لیکن نصیب میں وہی دو گز زمین ہے
لیکن مشاعرے کے شاعروں کو ادب اور تنقید سے کیا علاقہ، انہیں تو اپنے ہم پیشہ کی موت پر ماتم کرنا مقصود ہوتا ہے۔
مضمون نگار نے چند اشعار کی مثال دینے کے بعد لکھا ہے کہ ’’راحت اندوری کا شعری خمیر بڑی حد تک مذہبی اقدار سے اٹھا ہے۔‘‘ لیکن وہ اس کی مثال پیش کیے بغیر ہی آگے بڑھ جاتی ہیں۔
تیسرانکتہ’’نیند رکھو یا نہ رکھو خواب معیاری رکھو‘‘ کے مصرعے کو محیط ہے اور اس میںموصوفہ ترقی پسندوں سے طبعی مناسبت اور جدیدیت سے ہم آہنگی کو دوسرے نکتے میں ’’جدیدیت کی حصار کو توڑ کر اپنا تخلیقی رشتہ ترقی پسندوں سے استوار کیا‘‘والی بات کی تردید کرتی ہیں اور اس طرح خود ان کی باتوں میںواضح تضاد دکھائی دیتا ہے۔اس ضمن میں دلیل کے طور پر پیش کیے گئے اشعار جدیدیت کے قوانین سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے۔محض لفظ’’خواب‘‘ کے شعر میں استعمال ہونے کی وجہ سے جدیدیت سے اس کا تعلق پیدا کرنا صریحاً احمقانہ امر ہے۔’’پتھر اور شیشے‘‘ سے متعلق راحت اندوری کاشعر ایک عام فہم شعر لکھا ہے جس کا مضمون ’’مصلحت پسندی‘‘ ہے اور جدیدیت سے اس کا کوئی علاقہ نہیں۔اس پر قدیم مضمون کا غلاف چڑھا کر ناصر کاظمی کے شعر کا حوالہ دینے کا بھی کوئی جواز نہیں ہے۔
چوتھا نکتہ ’’اس کی کتھئی آنکھوں میں ہیں جنتر منتر سب‘‘ کے مصرعے کو محیط ہے۔اس میں راحت کو ’’گھن گرج اور جاہ و جلا ل کا شاعر‘‘ کہا گیا ہے ، میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ ’’جاہ و جلا اور گھن گرج‘‘ جیسے الفاظ قصیدہ کا حسن ہوتے ہیں غزل کا نہیں۔آگے موصوفہ نے شاعر کو ’’رومان مخالف کردار‘‘ کے طور پر پیش کیاہے جبکہ مضمون کی ابتدا میں انہیں راحت کی شاعری میں ’’رومانی جذبات کی خوشبو‘‘آ رہی تھی۔یہ الگ بات ہے کہ’’ رومان مخالف کردار‘‘ کے لیے حوالے میں بہت سے رومانی شعر پیش کیے ہیں۔
پانچواں نکتہ’’موت کا زہر ہے فضاؤں میں‘‘کے مصرعے کو محیط ہے۔اردو میں خطاب اور القاب سے نوازنے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔راحت اندوری کو ’’نیل کنٹھ‘‘ کے خطاب سے نواز کر موصوفہ اس روایت کی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائیں گی۔ اگر چہ اس بات کا ذکر راحت اندوری نے ایک مشاعرے میں اس شعر کے حوالے سے کیا تھا:
کیا ضروری ہے کریںوِش پان ہم شیو کی طرح
صرف جامن کھا لیے اور ہونٹ نیلے ہو گئے
یہاں راحت نے علامتی طورسیاست دانوں کی ریاکاری اور ڈھونگ کو پیش کیا ہے لیکن ’’وش پان‘‘ کی مناسبت سے ’’اردو شاعری کا نیل کنٹھ‘‘ کہنا کہاں تک واضح ہے اس کا فیصلہ بھی قارئین کے ہاتھوں میں ہے۔لیکن یہ سوال تو ضرور پوچھا جانا چاہیے کہ اگر راحت اندوری نے ’’نیل کنٹھ ‘‘ بن کر ’’اپنے عہد کے زہر کو اپنی تخلیقی سرشت میں جذب کر لیا‘‘تو ان کے بعدہر موسم بہار کا موسم ہوگا؟ہر سماج اچھا سماج ہوگا؟ہرمعاشرہ نفرت سے پاک ہوگا؟ لیکن ہم جانتے ہیںکہ اس طرح کی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے، لہٰذا نیل کنٹھ کا استعارہ بھی محض چند اشعار کی بنیاد پر وضع کیا گیا ہے۔
چھٹا اور آخری نکتہ’’ہم قلندر ہیں، شہنشاہ لقب رکھتے ہیں‘‘کے مصرعے کو محیط ہے۔ہندی میں اس مصرعے سے مماثل محاورہ ’’آنکھ کے اندھے نام نین سکھ‘‘ کو کس نے نہیں سنا ہوگا۔راحت اندوری نے اپنے کچھ اشعار میں طنز کے طور مذہبی مبلغوں کی مذمت کی ہے، اس سے ان کو مشاعرے کے اسٹیج پر داد تو ضرور ملتی ہے لیکن ادب کی دنیا میں اس کی بے ثباتی سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ موصوفہ نے ہر زاویے سے راحت اندوری کو اردو شاعری کا سب سے باکمال شاعر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔اگر ان کے اختیار میں ہوتا تو شایدراحت اندوری غالب ، اقبال اور فیض کے ہم پلہ ہو جاتے ۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ عمومی الفاظ کے استعمال اورمنفرد کرخت انداز بیان کی وجہ سے راحت اندوری کے سامعین کی تعدادبہت زیادہ تھی لیکن اس بات کوبھی نظر انداز نہیں کیاجا سکتا ہے کہ ہر زمانے میں کم علم لوگوں کی تعداد باشعور لوگوں کے مقابلے زیادہ ہوتی ہے اور یہی چند مٹھی بھر لوگ ہیں جو ادب اور بے ادب کے درمیان دیوار بن کر ہمیشہ حائل ہوتے رہیں گے۔
***********
نوٹ:یہ تبصرہ ہفت روزہ ’’لازوال ادب‘‘ کو بنیاد بنا کر لکھا گیا ہے۔
٭٭٭
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی
حیدرآباد
9491971786
[email protected]