ڈاکٹر مشتاق احمد کی نظموں کا مجموعہ ’’آئینہ حیران ہے‘‘:ایک مطالعہ

0
0

ڈاکٹر احسان عالم
پرنسپل الحراء پبلک اسکول، دربھنگہ
قسط اول
ڈاکٹر مشتاق احمد سرزمین دربھنگہ کے ایک فعال اور متحرک شخصیت کا نام ہے۔ فی الحال وہ سی ایم کالج دربھنگہ میں پرنسپل کے عہدہ پر فائز ہیں۔ اس سے قبل وہ ملت کالج، مارواڑی کالج اور ایم ایل ایس ایم کالج میں پرنسپل کے عہدہ پر رہ چکے ہیں۔ وہ جہاں بھی رہے اپنی فعالیت اور کام کی وجہ سے جانے پہچانے گئے۔ ان کے حریف بھی یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ ان کے قبل اور ان کے پرنسپل بننے کے بعد ان کالجوں کا کیا حال ہوا۔ انہوں نے کالج کی بلڈنگ ، وہاں کی آب و ہوا اور تعلیمی نظام کو ایسا چست ،درست کیا جس کے لئے وہاں کے اساتذئہ کرام اور طالب علم انہیں لمبے عرصے تک یاد رکھیں گے۔ یہ جملے میں ان کی تعریف میںیونہی نہیں لکھا رہا بلکہ ان کے کارناموں کو دیکھ کر میرا قلم خود بخود یہ تحریر کرنے پر مجبور ہے۔
ڈاکٹر مشتاق احمد اردو دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ان کی نثری اور شعری تحریریں اردو زبان کے معیاری اور معتبر رسائل و جرائد میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ ایک بے باک صحافی کے طور پر بھی انہوں نے اپنی منفرد پہچان بنائی ہے۔ ان کا ہفتہ وار کالم علمی وادبی حلقے میں کافی پسند کیا جاتا ہے۔ کئی قلم کاروں نے ان کے کالموں کو ترتیب دے کر کتابی صورت میں یکجا کرنے کا کام کیا ہے۔موصوف کی تقریباً دودرجن کتابیں منظر عام پرآچکی ہیں۔ ان میں چند ہندی اور انگریزی کتابیں بھی شامل ہیں۔
ڈاکٹر مشتاق احمد کی ادارت میں دو دہائی سے ایک معیاری ریسرچ جرنل ’’جہان اردو‘‘ شائع ہورہا ہے۔ اس جرنل کی مقبولیت عالمی سطح پر قائم ہوچکی ہے۔ اسے یوجی سی دہلی نے اپنے ریفرڈ جرنل کی لسٹ میں شامل کر رکھا ہے۔
ڈاکٹر مشتاق احمد تنقید و تحقیق کے آدمی ہیں لیکن ان کی دلچسپی شاعری اور افسانہ نگاری سے بھی ہے۔ بنیادی طور پر وہ غزل کہنا پسند کرتے ہیں لیکن جدید نظم نگاری میں خاصی دلچسپی رکھتے ہیں۔
پیش نظر کتاب ’’آئینہ حیران ہے‘‘ کورونا اور لاک ڈائون کے تناظر میں تحریر کی گئی نظموں کا مجموعہ ہے۔ ۱۰۴ صفحات کے اس کتاب میں ڈاکٹر مشتاق احمد کے پیش لفظ ’’اپنی بات‘‘ کے علاوہ تین نامور قلمکاروں پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی، پروفیسر محمد علی جوہراور پروفیسر محمد آفتاب اشرف نے اس کتاب پر اپنے تصورات کا اظہار کیا ہے۔اس کے علاوہ اس کتاب میں تیس نظمیں شامل ہیں۔ یہاں میں ان حضرات کے ذریعہ پیش کئے گئے تاثرات سے مختصراقتباسات پیش کرنابہتر سمجھتا ہوں ۔
چونکہ یہ کتاب کورونا اور لاک ڈائون کے تناظر میں لکھی گئی ہے اس لئے شاعر نے اس کا انتساب بھی بڑے دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے۔ انتساب اس طرح ہے:
’’ان مہلوکین کے نام جن کی ہنستی کھیلتی زندگی کو رونا نے چھین لی اور ان بے بس مزدوروں کے نام جن کی اذیت ناک زندگی ہماری سیاست کا حصہ بن گئی ہے۔ ‘‘
اپنے انتساب کے دو تین جملوں میں ڈاکٹر مشتاق احمد نے بڑے عمدہ خیالات کا اظہار کیا ہے۔ یہ بالکل حقیقت ہے کہ کورونا نے ہزاروں انسانوں بلکہ عالمی سطح پر دیکھیں تو لاکھوں انسانوں کی زندگی چھین لی۔ ہندوستان میں کورونا کے دوران لاک ڈائون لگایا گیا ۔ مزدور بھوکوں مرنے پر مجبور ہوئے۔ اپنے آبائی جگہ پر پہنچنے کی کوشش میں بہتوں نے اپنی جان گنوائی۔ ان سب کے درمیان ہماری سیاست کا بھی بڑا دخل رہا۔
ڈاکٹر مشتاق احمد نے اپنے پیش لفظ جو ’’اپنی بات ‘‘ کے عنوان سے ہے میں کئی اہم باتیں پیش کی ہیں۔ ایک مختصر اقتباس ان کی ’’اپنی بات‘‘ سے پیش کرتا ہوں۔ ملاحظہ کریں:
’’اپنی تخلیقات سے متعلق شروع سے ہی میرا یہ واضح نظریہ ہے کہ تخلیق کی قدر و قیمت کے تعین کا آزادانہ اظہارِ حق قاری کو حاصل ہے۔ قاری اپنی تنقیدی بصیرت و بصارت کی بدولت متن کے بطن کی خوشبو کو نہ صرف محسوس کرتا ہے بلکہ اپنی حتمی رائے بھی قائم کرتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ تمام قارئین کے غور و فکر کا زاویۂ نظر مختلف ہوتا ہے اور ایساہونافطری عمل ہے کہ اگر تمام انسان اذہان یکساں فکر و نظر کے حامل ہوجائیں تو غور و فکر اور افہام و تفہیم کی دنیا سپاٹ اور بے رنگ ہوکر رہ جائے گی۔ تخلیق تو فنکار کے اندر ون سے پھوٹنے والی ایک کرن کا نام ہے اور وہ کرن تخلیق کار کے آفتاب تخیل کی دین ہوتی ہے۔ اس لئے میں اپنی تخلیق کے متعلق قارئین کی آرا کو ہمیشہ اولیت دیتا رہا ہوں۔‘‘
معروف اور عالمی شہرت یافتہ کثیر الجہات قلمکار اور ڈھائی سو کتابوں کے مصنف پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی ڈاکٹر مشتاق احمد کی نظمیہ شاعری پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ڈاکٹر مشتاق احمد کی کرونا اور لاک ڈائون پر نظمیں پڑھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انسانی ساز پر خارجی اور باطنی محرکات کا ایک وبائی او ر احتیاطی سلسلہ کس طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ اس طرح ہے کہ ہوا کی لہریں اور ترنگ تاروں کو چھیڑ کر ان میں سے نت نئے نغمے پید ا کرتی ہے۔ لیکن انسان کے اندر ایک ایسا اصول مضمر ہوتا ہے جو ان تاروں کی جھنکار سے مختلف ہے ۔ ارتعاشوں ، آوازوں اور محرکات کے درمیان ڈاکٹر مشتاق احمد کی نظمیہ شاعری آنکھیں کھولتی ہے اور زندگی کی موجودہ کرب آمیز ساز پر انگلی رکھتی ہے۔ ‘‘
پروفیسر محمد علی جوہر ، ڈپٹی کو آڑدینٹر ، سنٹر آف اڈوانسڈ اسٹڈیز شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ نے ’’کثیر الجہاتی و کثیر المعانی شاعری کا البم:آئینہ حیرا ن ہے‘‘ کے عنوان سے ایک مطالعہ طلب مضمون قلم بند کیا ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر مشتاق احمد کے مختلف جہتوں کو بیان کرتے ہوئے ان کی نظموں پر روشنی ڈالی ہے۔ ’’آئینہ حیران ہے‘‘ کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں:
’’مختصر یہ کہ ’’آئینہ حیران ہے‘‘ کی نظمیں محض احتجاجی و انقلابی فکر کی آئینہ دار نہیں ہیں بلکہ کورونا جیسی مہلک وبا کی آڑ میں عالمی سطح پر جس طرح کے واقعات و حادثات رونما ہوئے ہیں اور بالخصوص اپنے ملک ہندوستان میں جس طرح محنت کش طبقوں کے ساتھ سیاسی فریب ہوا ہے اور غیر انسانی رویہ اپنایا گیا ہے ان تمام فکری و نظری موضوعات کو شعری پیکر میں پیش کیا گیا ہے۔ بیشتر نظموں میں تاریخی شعور کی زیریں لہریں رواں دواں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ لاک ڈائون کے عرصے میں شاعر اپنے کمرے میں بند ضرور رہے ہیں مگر ان کا کمرہ ’’جامِ جم‘‘ یا ’’جام جہاں نما‘‘ بن گیا ہے اور وہ اپنی تنہائی کے کرب کو جھیلتے ہوئے عالم گیر واقعات و حادثات کو لفظی پیکروں میں ڈھالنے میں مصروف رہے ہیں۔‘‘
پی جی صدر شعبۂ اردو ، ایل این ایم یو دربھنگہ ، پروفیسر محمد آفتاب اشرف نے ’’اجتماعی شعور کا تخلیقی آئینہ :آئینہ حیران ہے‘‘ کے عنوان سے اس کتاب اور اس کے شاعر ڈاکٹر مشتاق احمد کے سلسلہ میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ڈاکٹر مشتاق احمد کی نظمیہ شاعر ی میں وہ ساری خوبیاں موجود ہیں جو شاعری کو معنوی گہرائی و گیرائی سے ہم کنار کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نظموں کی قرأت کے وقت کسی طرح کی اکتاہٹ کا احساس نہیں ہوتا ہے۔ نظم آغاز تا انجام ایک ربط و تسلسل کے ساتھ فطری بہائو میں آگے بڑھتی ہے۔ ڈاکٹر احمد الفاظ کے درو بست، اظہار اسلوب اور موزونیت کا خاص خیال رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی نظموں میں ایک مربوط مطلوبہ تاثر قائم رہتا ہے۔‘‘
زیر مطالعہ کتاب ’’آئینہ حیران ہے‘‘ کی پہلی نظم ’’یوم احتساب‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس نظم میں سماجی ، ملکی اور عالمی سطح پر شاعر نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ آج ہر شخص کو خود کا احتساب کرنے کی ضرورت ہے۔ نظم معنویت سے پُر ہے۔ آج زندگی ایک پہیلی ، ایک معمہ بن گئی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر انسان اپنا احتساب کرے تب ہی اسے کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ نظم کے کچھ حصے ملاحظہ کریں:
یہ در، دروازے، کھڑکیاں
سبھی بند ہیں
اور بند کمرہ
بن گیا ہے اک آئینہ
خود کو دیکھتا ہوں
ہر اک زاویے سے
مگر کچھ حاصل نہیں
اک معمہ بن گیا ہوں
کس سے پوچھوں
کہ خلاء کا سفر
سمندر کی تہوں میں رسائی
چاند پر کمند ڈالنے کی ضد
کوہِ بلند کی فتح یابی
مجموعۂ کلام ’’آئینہ حیران ہے‘‘ کی تمام نظمیں کورنا کے بعد لاک ڈائون کے عرصے میں تحریر کی گئی ہیں۔ شاعر اس لاک ڈائون کے درمیان بہت سے اتار چڑھائو اور کربناکیوں سے گذرے ہیں۔ لہٰذا فطری اعتبار سے زیادہ تر نظمیں کورونا سے وابستہ مسائل پر منحصر ہیں۔ ایک نظم ’’روشن اندھیرا ‘‘ملاحظہ کیجئے:
دوپہر کی دھوپ ہے
تا حدِّ نظر
کوئی سایۂ دیوار نہیں
شعلوں پہ رواں دواں ہے
ہمار قافلہ در قافلہ
ہماری جلتی بجھتی آنکھوں میں
سب اپنے ہیں کوئی اغیار نہیں
کہ ہماری آنکھوں پر نہیں ہے
کوئی چشمۂ وقت
ہم محنت کشوں کو معلوم ہے
اپنی صدیوں کی کہانی
جہان نو کی رونق ہم سے ہے مگر
یہاں ہمارے لہو سے گراں ہے پانی
پھر بھی دیکھو
رواں دواں ہے ہمارا قافلہ
کہ ہمیں معلوم ہے
یہ اندھیرا ہمارا مقدر نہیں ہے
٭٭٭

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا