سمجھوتے کی رسی آخر ٹوٹ گئی

0
0

افسانہ

شمیمہ صدیق شمیؔ شوپیان،کشمیر

اُس کی ہستی تو ایک کٹھ پُتلی کی مانند ہوگئی تھی،لبوں پر اگرچہ خاموشیوں نے ڈھیرا ڈالا ہوا تھا مگر اُس کا دل کاتبِ تقدیر سے اپنی بدنصیبی کی وجہ پوچھ رہا تھا،اپنے سارے درد کرب اُس نے دل کے اندر ہی رکھ لیے تھے۔اپنے غموں اور اپنی محرومیوں کی تشہیر اُسے پسند نہیں تھی۔اُس کے من میں ہر گھڑی یہی سوال رہتا آخر یہ کرب اور رسوائی کا دور کب ختم ہوگا؟۔اپنی زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے خود ہی خود پر اک زہریلی ہنسی ہنس دیتا تھا ۔
ساجد ایک پڑھا لکھا،مہذب اور سلجھا ہوا انسان تھا۔اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا اُسے حق نہیں دیا گیا،اُسے یہ اِجازت نہیں دی گئی کہ وہ اپنا من پسند ساتھی چُنے۔بیوہ ماں کے فیصلے کے آگے اُس نے سر جھکا دیا۔بیوہ ماں نے اُسے ماں اور باپ دونوں بن کر پالا تھا،اپنی ساری جوانی اور زندگی بیٹے کے لئے قربان کی تھی،اِس لئے اُس نے اپنے سارے خواب دفن کرکے ماں کی پسند سے خالہ زاد بہن سے شادی کرلی۔وہ جتنا خاموش طبیعت،سمجھ دار،صابر اور سلجھا ہوا تھا تو اُس کی بیوی نازی اتنی ہی بد زبان،شکی مزاج،چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہنگامہ کرنے والی اور پھوہڑ تھی ۔ساجد حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرکے ازدواجی رشتے کو ہر طرح سے نبھانے کی کوشش کرنے لگا،وہ نہیں چاہتا تھا کہ ماں کا دل کسی وجہ سے دُکھی ہو،نازی آئے دن بدزبانی کرتی،بہتان لگاتی اور وہ چپ چاپ خاموش ہوجاتا۔اس سے ڈر تھا کہ گھر کی بات اگر باہر گئی تو رشتہ داروں اور معاشرے میں رسوائی ہوگی مگر نازی اُس کے برعکس تھی،اپنی کم عقلی کی وجہ سے سارے گھر کو جہنم بنانے میں پیش پیش تھی۔ساجد کی خاموشی کو اُس نے کمزوری اور اپنے لگائے گئے الزمات کو اُس نے صحیح سمجھ لیا تھا۔اُسے شک ہوگیا تھا کہ ساجد کا شادی سے پہلے ہی کسی کے ساتھ چکر تھا اور وہ شادی بھی وہیں کرنا چاہتا تھا مگر خالہ کی ضد کے آگے مجھے ذبردستی ساجد پر تھوپ دیا گیا۔اُس سے اب بھی شک تھا کہ ساجد کا اب بھی چکر ہے جبکہ ساجد نے سب کچھ بھول کر نئی زندگی کی بنیاد وفاداری سے رکھی تھی اور دل میں تہہ کرلیا تھا کہ وہ ماں کی پسند کو ہی سب سے زیادہ ترجیح دے گا مگر نازی کے من میں شک کا کیڑا روز بروز بڑا ہورہا تھا۔اُس کے من میں جو سوالات اٹھتے،اُن کا جواب وہ دل سے ہی تیار کرلیتی اور یوں بدگمانیوں اور غلط فہمیوں کے سلسلے دراز ہوتے گئے۔آئے دن کے لڑائی جھگڑوں سے ساجد تنگ آگیا تھا اور اُس کی ماں نے خاموشی اختیار کرلی تھی،اپنے فیصلے پر دل ہی دل میں کڑتی کہ اُس نے ساجد کی زندگی برباد کردی۔اب تو محلے والوں اور رشتہ داروں میں بھی چرچے ہونے لگے تھے ان میاں بیوی کے جھگڑوں پر۔نازی سے جب کوئی جھوٹی ہمدردی جتاکر گھر کا احوال پوچھتا تو وہ شوہر اور ساس کو بدنام کرنے میں کوئی کثر باقی نہ چھوڑتی اور مگرمچھ کے آنسو اس قدر بہاتی کہ یہی سب کو مظلوم نظر آتی اور بیچارہ ساجد بیحیا،ظالم اور آوارہ مزاج،وہ کچھ نہ کرتے ہوئے بھی ظالم تھا،مجرم تھا اور وہ تمام دکھ دیتے ہوئے بھی مظلوم تھی۔زندگی کا سفر یوں ہی چل رہا تھا اور وہ سمجھوتے کی رسی سے لٹک رہا تھا۔رسوائی اُس کا مقدر بن چکی تھی جہاں بھی جاتا تو لوگ دس دس باتیں سناتے۔بیوی نے جو بدنام ہی اتنا کر رکھا تھا۔
”ہائے میں بدقسمت،بدبخت مجھے کیا معلوم کہ یہ محترم شادی کے بعد بھی اس چڑیل سے ملتے رہیں گے،ارے اگر مجھ سے بیوفائی ہی کرنی تھی تو مجھ سے شادی کی کیا ضرورت تھی،کر لیتے نا اس ناک پیٹی سے شادی۔میری ابا کی چوکھٹ پر کیوں خالہ کو بھیج دیا تھا ماتھا رگڑنے ”بس چوبیس گھنٹے اُس کی زبان پر یہی رہتا۔وقت گزرتا گیا اور اُن کے دو بچے بھی ہوگئے،ساجد سوچ رہا تھا اب تو محترمہ کے مزاج بدل جائیں،اب تو میری کردار کشی کرنا چھوڑ دے مگر فطرت بھی بھلا بدلی ہے؟وہ کہاں تھی سدھرنے والی،ساجد نے لاکھ قسمیں کھائیں تھی کہ میرا اب کسی کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں مگر وہ مانے تب نا
” دیکھ نازی میں اپنے بچوں کی قسم کھاکر کہتا ہوں،میرا کسی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں،اب تو یقین کرو۔بہت رسوائی ہوگئی،بہت بیعزتی ہوئی میری اب تو خدا کے لئے مجھے بخش دے۔اب تک تونے ہمارے رشتے میں اعتبار کی بنیاد ہی نہیں رکھنی دی اور میں نے جو رکھنے کی ہر بار کوشش کی تُمنے اپنی بدگمانیوں میں آکر ناکام کردی”
”خبر دار جو میرے بچوں کی جھوٹی قسم کھائی تم نے اپنے اور اس چڑیل کے کرتوت چھپانے کے لئے۔تم نے مجھے سمجھ کیا رکھا ہے کہ میں کچھ نہیں جانتی۔میں سب جانتی ہوں تم سمجھتے ہو کہ میں ایک انپڑھ عورت ہوں،جاہل ہوں مجھے بھلا کیا سمجھ دنیا کی ہے نا؟،،وہ تمام لحاظ ہمیشہ کی طرح بلائے طاق رکھ کر زور زور سے بولنے لگی۔
اسے سمجھانا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔وہ سوچتا کاش اس نے حروف چار پڑھے ہوتے تو اس کی سوچ میں تھوڑی وسعت ہوتی یہ اتنی بدزبان نہ ہوتی۔اماں اور مجھے اپنی زبان سے تکلیف نہ دیتی۔کاش کہ اماں نے جزبات میں آکر غلط فیصلہ لیکر یہ رشتہ نہ کیا ہوتا تو زندگی کتنی خوبصورت ہوتی مگر اب سوچنے سے کیا ہوتا۔قسمت میں جو لکھا جاچُکا تھا وہی تو مل رہا تھا۔اپنے بچوں کی خاطر اُس نے نازی کی ہر غلطی نظر انداز کرنی شروع کردی مگر نازی کی زبان درازی عروج پر تھی ۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑ جھگڑ کر میکے بیٹھ جاتی اور رشتہ دار، بیچارے ساجد کو قصوروار مانتے ہوئے تھو تھو کرتے۔وہ اپنی زندگی سے بہت تنگ آگیا تھا۔روز روز کے جھگڑوں سے وہ ذہنی مریض بن کر رہ گیا۔بچوں کو بھی اُس نے باپ سے بدظن کردیا تھا
”کم بختوں بڑے ہوکر اب باپ پر مت جانا جسے رشتوں کی قدر ہی نہیں ”وہ غصے میں ہوتی تو بچوں کے ذہن میں ایسی ویسی باتیں بھی منتقل کرتی رہتی۔ساس نے سمجھایا بھی ”دیکھ بیٹا تم بہت غلط کررہی ہو،ساجد کے بچوں کو ساجد کے خلاف بھڑکا رہی ہو۔ بیقصور ہوتے ہوئے بھی تونے اسے مجرم بنادیا۔سب کی نظروں میں اسے گرادیا۔اب کم سے کم اسے اپنے بچوں کی نظر میں تو نہ گراو۔کل تک تمہارے بچے بھی تمہاری ہی طرح ساجد سے بدتمیزی کرنے لگیں گے ”
”ہاں ہاں بدتمیز،ان پڑھ،جاہل اور جگھڑالو میں ہی ہوں نا،تم دونوں ماں بیٹے تو دودھ کے دھلے ہوئے ہو،”وہ زور زور سے بولنے لگی۔اب تو پڑوسیوں کو بھی ان کے گھر کے شور شرابے کی عادت ہوگئی تھی۔ساجد زندہ لاش بن کر رہ گیا تھا،پہلے سے بھی زیادہ خاموش ہوکر رہ گیا تھا۔اس نے زمانے میں بیوی کے ہاتھوں اتنی ذلت اٹھائی مگر وہ اتنا نہ ٹوٹا تھا جتنا وہ آج ٹوٹ گیا جب اس کے بچوں نے اسے حقارت کی نظر سے دیکھتے ہوئے ماں کے ہی جملے بولے۔ جن بچوں کے لئے اس نے ہر دکھ درد سہا،بیوی کی بدتمیزی،کردار کشی،الزام تراشی سہی مگر بیوی کو گھر سے نہیں نکالا کہ میرے بچوں کی زندگی برباد ہوکر رہ جائے گی۔وہ جانتا تھا کہ میاں بیوی کے جھگڑوں کا سب سے زیادہ اثر بچوں کی زندگی پر ہی پڑتا ہے۔نازی جب خود ہی لڑائی جھگڑا کرکے،بدتمیزی کرکے میکے بیٹھ جاتی تو وہ ہمیشہ کی طرح اپنی عزتِ نفس کو مجروح کرتا ہوا،بیقصور ہوتے ہوئے بھی معافیاں مانگتا اور اسے گھر لے آتا،وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کے بچوں کی زندگی پر برا اثر پڑے۔آج بچوں کی زبان سے گندے گندے جملے سن کر،ان کی نظروں میں اپنے لئے حقارت دیکھ کر وہ برداشت نہیں کر پارہا تھا۔پچھلے دس پندرہ سالوں سے جس رشتے کو لاکھ دکھوں اور الزاموں کے باوجود بھی وہ وفاداری سے نبھا رہا تھا اسے کیا ملا،رسوائی،الزام،نفرت اور کردار کشی۔یوں تو پندرہ سالوں سے وہ سمجھوتے کے اِس رشتے کو نبھا رہا تھا،سمجھوتے کی رسی سے لٹک رہا تھا مگر آج وہ بہت ٹوٹ چکا تھا،تھک چکا تھا اور اس نے پنکھے کی رسی سے لٹک کر ہمیشہ کے لئے سمجھوتے کی اس رسی کو توڑ ڈالا۔

 

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا