ڈاکٹر ابوطالب انصاری ، بھیونڈی (تھانہ)
ماں! بابا آیا ہے کھانا مانگ رہا ہے۔ اشیش نے گھر میں داخل ہوتے ہوئے اپنی ماںسے کہا۔ اشیش کی ماں گھر کے کام میںمصروف تھی ۔ اشیش نے دوبارہ کہا ماں!بابا آیا ہے کھانامانگ رہاہے۔ کہہ رہاہے بہت بھوکا ہے۔ اشیش کی ماں نے گھرکے اندرسے بڑ بڑاتے ہوئے کہا’’ ان بابالوگوں کا پیٹ نہیں بھرتا ہے، ہر وقت بھو کے ہی رہتے ہیں ۔ ہر وقت ان کا ہاتھ پھیلا ہی رہتا ہے۔ یہ کوئی وقت ہے بھیک مانگنے کا ۔ میں ابھی دیا بتی کرونگی ۔ اسکے بعد کھاناپکا کر بھگوان کو بھوگ لگائونگی‘‘ ۔ اشیش کی ما ںبڑبڑائے جارہی تھی مگر اشیش گھر باہر نکل کر کھیلنے چلا گیا۔ اشیش کی ماںنے باہر جھانک کر دیکھا تو ایک بوڑھا فقیر دیوار سے سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ اس کی آ نکھیں بند تھیں۔ سر پرمیلی کچیلی پگڑی بندھی ہوئی تھی۔ بدن پر پھٹی پرانی سفیدرنگ کی قمیض اور دھوتی تھی۔ جسم گرد آلود تھا اور چہرے پر بھوک کی وجہ سے مردنی چھائی ہو ئی تھی۔ وہ کون تھا؟کہاں رہتاتھا؟ کوئی نہیں جانتا تھا۔ مگر وہ اس گائوں میں اکثر بھیک مانگنے آتا تھا۔ اشیش کی ماںنے دروازہ بند کرتے ہوئے من ہی من کہا’’ پہلے دیا بتی کرونگی پھر کھانا بنا کر بھگوان کو بھو گ لگائوںگی۔ اس کے بعد بابا کو دونگی‘‘۔ سورج اپنی کرنوںکو دن کی گٹھری میںسمیٹ کررخصت ہونے کی تیاری کررہا تھا ۔ بچے میدان میںکھیل رہے تھے۔ گائوںکے لوگ اپنے اپنے کھیتوںسے واپس لوٹ رہے تھے۔ کچھ عورتیں اپنے گھرکے آنگن میںباتوںمیںمصروف تھیں۔ پرندے بسیرا کرنے اپنے اپنے آشیانوںمیں لوٹ رہے تھے ۔ جانور اپنے اپنے مسکن پر تیزی سے واپس آ رہے تھے۔ شام کے سائے تیزی سے پھیلناشروع ہوگئے۔ اشیش اپنے دوستوں کے سا تھ میدان میںکھیل رہا تھا۔ مگراس کا دل فقیر کی طر ف لگا تھا کہ پتہ نہیں ماں نے ا سے کھانا دیا کہ نہیں؟۔ اس نے دیکھا تھا کہ جب و ہ میدان میں کھیل رہا تھا تو وہی فقیر بھیک مانگتے ہوئے جارہا تھا ۔ وہ بہت ہی کمزور تھا اور بمشکل چل پارہا تھا۔ اسے دیکھ کر اشیش کو بہت ترس آرہا تھا مگروہ کیاکرسکتا تھا؟ اس کے پاس پیسے بھی تو نہیں تھے کہ اسے دے دیتا۔ جب کھیلتے کھیلتے وہ پانی پینے کیلئے گھر گیاتو دیکھا کہ وہی فقیر اس کے گھرکے آنگن میں پالتی مارے بیٹھا ہے ۔
شام نے اپنی سیاہ چادر پوری طرح تان دی۔ کھیل ختم ہوا سارے بچے اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹ گئے۔ گائوں کے مندر کے گھنٹو ں کے ساتھ بھجن کی کی آواز بھی صاف سنائی دے رہی تھی۔ اشیش تیزی ے سے گھر کے برآمدے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ فقیر دیوا رسے ٹیک لگائے سو رہا ہے۔ اسے لگا دن بھر کا بھوکا کھا ناکھا کر سوگیا ہے۔ لیکن جب وہ گھر کے اندر دداخل ہوا تو دیکھا کہ ماں پوجاختم کر کے کھانا پلیٹ میں نکال رہی تھی۔ اس نے اشیش کو دیکھتے ہی کہا لے جا بابا کو دے دے۔ اشیش کھانے کی پلیٹ لے کر تیزی سے فقیر کے پاس آیا۔ وہ دیوار سے ٹیک لگا ئے سورہا تھا۔ اشیش نے اسے کئی بار آ واز دی مگروہ ٹس سے مس نہیں ہوا۔ اشیش کو لگاکہ وہ گہری نیند میں ہے۔ کئی بارآوازدینے کے بعد بھی جب اس نے آنکھیں نہیںکھولیں ۔تواشیش کوتشویش ہوئی۔اس نے فقیر کی سانسوںکے اتار چڑھا ئوکو غور سے دیکھا ۔ اس پر بھی اطمینان نہیںہوا تو اس نے اسے جھنجھوڑ کر جگانے کی کوشش کی۔ اشیش کے جھنجھوڑتے ہی وہ ایک طرف لڑھک گیا۔ گھبراہٹ میں وہ زور زو ر سے ماں کو آواز دینے لگا ’’ ماں جلدی آئو دیکھوبابا کوکچھ ہوگیاہے۔ وہ کچھ بول نہیں رہا ہے‘‘۔ ماں تیزی سے گھر کے اندر سے باہر آئی اس نے دیکھا کہ فقیرایک طر ف بے سدھ لیٹا ہے جبکہ دوسری طرف پلیٹ میںکھانا پڑا ہوا ہے۔ اشیش کی ماں نے پریشانی کے عا لم میں اشیش سے پوچھا کیا ہوا؟ ’’ماں میںکھانا لے آیا توباباکچھ بول نہیں رہا تھا میں اسے جھنجھوڑکر جگانا چاہا تووہ ایک طرف لڑھک گیا‘‘۔ اشیش کی ماںنے اوپر سے نیچے تک فقیر کا جائزہ لیا ۔ اور نبض پر ہاتھ رکھ دی۔ نبض پرہاتھ رکھتے ہی اس کی پریشا نی میں اور اضافہ ہوگیا ۔ اشیش کی ماںنے سانس کے زیر و بم کوغورسے دیکھا مگروہ بھی بند ہو چکی تھی ۔ اس نے اشیش سے کہا کہ جا جلدی سے ڈاکٹر کو بلا لا۔ اشیش تھوڑی ہی دیر میںڈاکٹر کو لئے گھر میں داخل ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے معائنہ کر نے کے بعد فقیرکی مرنے کی تصدیق کردی۔ اشیش کی ماں نے بابا کی موت کی خبر سن کر کہا ۔ ڈا کٹر صاحب کیا اسے ہارٹ اٹیک ہواتھا ۔ڈاکٹر نے فوراََ کہا نہیں اس کی مو ت بھوک سے ہو ئی ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں پورے گائوں میں باباکے مرنے کی خبر پھیل گئی۔ ایک بڑامجمع وہاں جمع ہوگیاسبھی اس کے انتم سنسکارکیلئے فکر مندتھے۔ کچھ لوگ چند ہ دینے کیلئے بھی تیارتھے۔ مگرسر پنچ نے یہ سعادت ہاتھ سے جانے نہ دی کیونکہ یہ انتہائی پنیہ کا کام تھا۔ فقیر کاانتم سنسکار دھوم دھام سے کردیا گیا ۔ کئی دن تک تیسرا، دسواں ا ور تیرہواںکے نام پر گائوںمیںکھانا چلتارہا۔ گائوں وا لے مزے سے کھاتے رہے۔ معلوم نہیں مرنے والا فقیر تھا یا گائوں والے۔