حادثہ جانکاہ : مقصوداحمدضیائی
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تما شا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاوں کہ تجھ سا کہیں جسے
یہ دور قحط الرجال ہے یوں تو دنیا انسانی آبادی سے بھری پڑی ہے بلکہ اضافہ آبادی کا تو ہر چہار جانب رونا رویا جا رہا ہے لیکن اگر تہذیب و شائستگی کی تلاش کی جائے تو انسانی بازار میں یہ متاع گراں مایہ مشکل سے ہی ملے گی ایسے لوگ جو مختلف اوصاف حمیدہ سے متصف ہوں کم از کم اس وقت انگلیوں پر ہی گنے جا سکیں گے ایسے عنقا افراد کی محفل سے اگر کوئی باکمال چلا جاتا ہے تو اس محفل کی بے رونقی کا کیا عالم ہوگا کچھ یہی کیفیت اہلیان پونچھ کے لیے اس وقت ہوئی جب باد غم نے مورخہ ۲۹/ اگست ۲۰۲۰ء مطابق ۹ / محرم الحرام ۱۴۴۲ھ صبح چھ بجکر چھتیس منٹ پر اس عاجز کے کان میں چپکے سے کہا کہ جناب محمد شریف صاحب سلاریہ (عرف بھائی جان ) داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے ہیں ایک فرشتہ صفت انسان ، ایک مرد درویش ، خدا کا ایک قدر گم نام ؛ لیکن انتہائی نیک نام بندہ یہ اس وقت ایک ایسی تصویر دنیا کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئی ہے جو حماقتوں کے فیشن میں تہذیب و شائستگی کا پیکر بنی ہوئی تھی ایک ایسا شخص جو خوبیوں کا مجموعہ اور مختلف اوصاف حمیدہ کا مرقع تھا
انجمن میں بھی میسر رہی خلوت اس کو
شمع محفل کیطرح سب سے جدا سب کا رفیق
جناب محمد شریف صاحب سلاریہ مرحوم نے اپنی عملی زندگی کا آغاز عصری تعلیم حاصل کرنے کے بعد محکمہ پولیس میں ملازمت سے کیا تھا اور پوری عمر محکمہ پولیس سے ہی منسلک رہے ہم نے ہوش سنبھالا تو یہ وہ وقت تھا کہ جب ہمارے خطہ کے حالات سخت کشیدہ تھے ۱۹۹۱ء میں ہند و پاک کے مابین ایک جنگ بھی ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی خون خرابہ اور لاشوں کے انبار گولہ بارود کی بارش اور بمباری کی گھن گرج نے تو آج تک پیچھا نہ چھوڑا بلکہ یہ مصائب ہماری زندگی کا حصہ رہے ہیں اہم بات یہ کہ ہمارے والد محترم کی پیدائش ۱۹۴۷ ء کی ہے اسی سال ہند و پاک کے مابین مشہور جنگ بھی ہوئی ۱۹۶۵ ء ۱۹۷۱ء اور ۱۹۹۱ء یہ تمام جنگیں والد محترم نے دیکھی ہیں قصہ مختصر نہایت ناگفتہ بہ حالات میں سلاریہ صاحب نے محکمہ پولیس کی ملازمت کی آپ شناختی کارڈ بنانے کی ڈیوٹی پر مامور تھے جو ایک مشکل ترین کام تھا لیکن سلاریہ صاحب کی ایمان داری خاندانی شرافت اور عوام دوستی کی وجہ سے خاص و عام کے لیے اس کا حصول کوئی مشکل نہ رہا یہ ان کے فرض منصبی میں داخل کٹھن ذمہ داری تھی جس کو بحسن و خوبی آپ نے انجام دیا آپ کی اس بے لوث خدمت کو تا دیر یاد رکھا جائے گا
محمد شریف صاحب سلاریہ جامعہ ضیاء العلوم کے رکن شوری تھے حضرت مولانا قاضی عزیزالرحمن صاحب قاسمی اور حضرت مولانا محمد شریف صاحب نعمانی رحمہم اللہ کے بعد میرے نزدیک آپ منفرد شخصیت تھے کہ جن کے تئیں منتظمین مدرسین خادمین اور طالبین سبھی نیک خیالات رکھتے تھے آں مرحوم جامع مسجد بگیالاں کے صف اول کے مستقل نمازی اور جامعہ کے ہر پروگرام میں شریک ہونے والے طلبہ جامعہ کی حوصلہ افزائی کے لیے مشہور تھے بطور خاص میری ذات کے لیے ایک اعلی درجہ کے محسن و محب تھے آپ کی چند عنایتوں کا ذکر یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے * نماز فجر میں بار ہا ایسا ہوا کہ بعد نماز سیدھے میرے پاس آن پہنچے اور بلند آواز سے فرماتے کہ صبح کی نماز آپ خود پڑھا دیا کریں دل کو تسلی آجاتی ہے اس لیے کہتا ہوں جوابا میں حسب روایت ان شاء اللہ کہہ دیتا * سرکاری عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد ایک وسیع دوکان ڈال لی تھی دوکان کی ابتداء میں دعا کے لئے ہفتہ پہلے مجھ سے کہا کہ فلاں دن دوکان کی ابتداء کرنی ہے میری خواہش ہے کہ دعا آپ سے کرائی جائے چنانچہ ہم نے وہ دن اپنی تدبیر میں طے کر لیا قدرت کے تقدیر ہمنوا رہی تو عین وقت پر گاڑی بھی بھیج دی الحمدللہ شہر کی کئی دوکانیں ایسی ہیں جن کے آغاز میں مجھے دعا کرنے کا موقع ملا * ایک بار میں نے گھر میں کچھ کام لگایا چنانچہ ٹائلیں کم پڑگئیں فون کیا فورا بھیج دیں حساب کرنے پر قطعا انکار کر دیا فرمایا کہ شرمندہ نہ کریں دوکان پر موجود ملازم کو ہم نے اصرار کیا کہ آپ پیسے لے لیجئے لیکن انہوں نے بھی انکار کر دیا * ایک بار فرمایا کہ امتیاز سلاریہ کے بچے کو قرآن کریم پڑھانا ہے آپ کچھ وقت نکالیں میں ذاتی طور پر ٹیویشن پڑھانے سے بچتا رہا ہوں ایسا ” افادات صدیق ” (قاری محمدصدیق صاحب باندوی رحمہ اللہ تعالی) کے مطالعہ کے اثر کی وجہ سے ہوتا رہا ہے حضرت نے باز رہنے کا لکھا ہے لیکن یہاں انکار بڑا مسئلہ تھا چند روز یونہی گزر گئے بار بار کے اصرار اور یادھانی پر ایک روز میں نے عرض کیا کہ آج کل کچھ مصروفیت زیادہ ہے اگر کسی استاذ محترم کا انتظام کر دوں ایک صاحب سے بات بھی ہو چکی تھی کہ ہاں ہو اور حاضر ہوجائیں فرمایا نہیں گھر کا مسئلہ ہے آپ ہی کو آنا پڑے گا چائے ہفتے میں دو دن ہی آئیں فرمایا (سعید) سے اجازت بھی لے لوں گا (حضرت مولانا سعید احمد صاحب حبیب نائب مہتمم جامعہ ضیاء العلوم پونچھ) خیر چند روز پڑھایا اور پھر کاموں کے ہجوم کی وجہ سے لمبی چھٹی ہوگئی اس دوران معلوم ہوا کہ کسی طالب علم کو لگا دیا گیا ہے * اور متعدد بار قربانی یا صدقہ کے موقعوں پر دعا کے لیے ڈھونڈ کر بلا لیتے یہ چند باتیں بطور نمونہ ذکر کر دی گئیں ورنہ ان کی عنایتوں کو اگر یکجا کرنے لگوں تو ایک دفتر تیار ہوجائے مجھے ذاتی طور پر بہت بڑا صدمہ ہوا ہے کہ ہم ایک صاحب کردار انسان سے ہمیشہ ہمیش کے لیے محروم ہوگئے ہیں سادگی بھائی جان کا شیوہ اور یہی ان کہ پہچان تھی عمر بھرمحکمہ پولیس سے منسلک رہے اور سب انسپکٹر کے عہدے سے باوقار طور پر ریٹائرڈ ہوئے وردی میں بہت کم دیکھا گیا عمر بھر دفتر ی کام کے ساتھ وابستہ رہے خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار نماز روزے کے بے حد پابند تھے لہجے کی ملاحت اورشخصی و جاہت بھی اپنی مثال آپ تھی دو ہزارگیارہ میں ہم نے ایک ساتھ حج بھی کیا ہماری روانگی حج کمیٹی سے اور بھائی جان کی حج ٹور سے ہوئی تھی دوران سفر رابطے میں رہے اور مسائل وغیرہ دریافت کرتے رہتے جو مجھے معلوم ہوتے بتا دیتا جو نہ معلوم ہوتے وہ کسی جاننے والے سے دریافت کرکے بتا دیتا حج سے دو روز قبل فرمایا کہ طریقہ کار کیا رہے گا ؟ میں نے عرض کیا کہ آپ تشریف لے آئیں منی ، عرفات اور مزدلفہ کا جغرافیہ سمجھا دیا جائے گا کچھ لمحات بعد فون آیا کہ گائڈ کا انتظام ہوگیا ہے آں مرحوم کا مطالعہ بھی خوب تھا ہمارے یہاں تقریبات میں کبھی کبھار جب کچھ بولنے کا موقع ملتا تو ایسے مواقع پر اس بات کا علم ہوتا مرحوم کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا تھے سال رواں کے اوئل میں اول اول جب اس جان لیوا مرض کا مجھے علم ہوا تب آپ جموں جا چکے تھے فون رابطہ کیا میں نے دکھ کا اظہار کیا فرمایا بیٹا ! یہ میرے اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے اپنے کسی امتحان کے قابل سمجھا ورنہ میں تو گنہگار اس قابل بھی نہ تھا اور پھر دعاوں کے لیے فرمایا اس کے بعد کرونا نے ڈیرا ڈال لیا بالمشافہ ملاقات نہ ہوپائی البتہ اہلیہ محترمہ سے متعدد بار فون پر ملاقات رہی اور صحت دریافت ہوتی رہی انتہائی ملنسار اوردینی معلومات رکھنے والی نیک خاتون ہیں شعبہ تعلیم سے زندگی بھر وابستہ رہیں سلاریہ صاحب نے اس موذی مرض کا سامنا جس دلیری کے ساتھ کیا وہ ہرکس و ناکس کے بس کی بات نہیں سلاریہ صاحب تقوی و پر ہیزگاری کے باعث اعلی ایمانی رتبے پر فائز تھے ممدوح مکرم کے وصال پر آج جب کہ ان کا پورا گھرانا صدمے سے نڈھال ہے میں ذاتی طور پر اپنے ایک دیرینہ مخلص اور محسن کے فراق پر بے حد افسردہ ہوں آپ کی نماز جنازہ احاطہ جامعہ ضیاء العلوم میں ادا کی گئی حضرت مولانا غلام قادر صاحب مدظلہ بانی جامعہ نے پڑھائی بعد اذاں مرکزی جامع مسجد بگیالاں کے پہلو میں موجود قبرستان میں تدفین عمل میں آئی جامعہ اور فرزندان جامعہ کے لیے تو یہ حادثہ غم دوراں نہیں ، بلکہ غم جاناں ہے ان کے ساتھ مرحوم کی وابستگی اٹوٹ تھی وہ اوصاف جن کی وجہ سے آپ ہر جگہ محبوب رکھے گئے اور ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ان میں فکر و عمل میں اعتدال آپ کا ایک اہم وصف تھا آپ اہل علم سے رسم و راہ رکھتے اور ان کی خوبیوں کو سراہتے تھے خورد نوازی اور چھوٹوں کی ہمت افزائی آپ ہر طرح سے کرتے تھے بھری محفلوں میں نوجوانوں کے کاموں کو سراہتے تھے آں مرحوم بادشاہی میں فقیری کی ایک مثال تھے وہ بہت بڑے ہوکر بھی بہت چھوٹے بن کر رہے مرحوم کو کسی بھی پروگرام میں بلانا بہت آسان تھا قرب و جوار کے دیگر مدارس کے تعاون کے لیے پیش پیش رہتے آپ کے لواحقین میں اہلیہ محترمہ کے علاوہ دو صاحبزادے اور ایک صاحبزادی ہیں بڑے بیٹے شہزاد احمد سلاریہ جوکہ محکمہ پولیس میں ایس ایس پی کے عہدہ پر فائز ہیں چھوٹے بیٹے امتیاز احمد سلاریہ جو معروف سماجی خدمت گار اور علاقے کے کونسلر بھی ہیں مختصر یہ کہ محمدشریف سلاریہ صاحب اب ہمارے درمیان نہیں رہے البتہ ان کی خوبیاں اور میٹھی یادیں باقی رہیں گی ان کا کردار اور ان کے تابندہ نقوش بنے رہیں گے آں مرحوم تو اپنی اصل منزل کی جانب روانہ ہوگئے بلاشبہ قدرت کا کار خانہ اور صناع حقیقی کا سانچہ اپنی جگہ پر قائم ہے البتہ ان کے اٹھ جانے سے ہاتف غیب کی صدا کانوں میں گونج رہی ہے
اکیلا ہوں مگر آباد کر دیتا ہوں ویرانہ
بہت روئے گی میرے بعد میری شام تنہائی
آخری بات : محمد شریف صاحب سلاریہ مرحوم کے خاندان سے تعزیت تو کرنا ہی ہے دراصل ان کی تعزیت اس ادارہ سے ہے جس کے وہ رکن شوری تھے دعائیں ہیں ان کے خاندان کے تمام افراد کے لیے اللہ پاک ان کے زخمی دلوں پر اپنی رحمت کا ٹھنڈا مرحم رکھے ہماری گواہی ہے کہ وہ اللہ پاک کے صالح بندے تھے ان سے لوگوں کو خیر پہنچی اللہ ان کی روح کو شادماں رکھے
عدم کو جانے والو ! آنے والے ہیں ہم بھی
ہماری راہ بھی منزل بہ منزل دیکھتے جانا