نئے اسلامی سال كی ابتدا

0
0
 عبيد الله شميم قاسمی
   *محرم الحرام* کی آمد آمد ہے، اسی مہينے سے نئے اسلامی سال كی ابتدا ہوتی ہے،  انسان اپنی زندگی كی بنيادی اور اساسی ضرورتوں كو ترتيب دينے ميں تاريخ كا محتاج ہوتا ہے، تاريخ ہی كے ذريعہ اس كو كام كے تقدم وتاخر كا بھي اندازه ہوتا ہے، ماضی، حال اور استقبال کے حوادث، واقعات، منصوبے اور ان کی نوعیت سن اور تاریخ ہی کے ذریعہ معلوم کی جاتی ہے۔
   مستقبل کے عزائم میں بہترین نتائج کے حصول کا انحصار ماضی کے تجربات پیش نظر رکھنے پر ہے۔
برصغیر میں اس وقت معاملات میں عموماً چار قسم کے سن استعمال ہوتے ہیں:
1۔ *بکرمی سن* : یہ ہنود کے یہاں مروج ہے، اور عام طور پر ہندی اخبارات میں یہ تاریخ درج ہوتی ہے۔
2۔ *قبل مسیح* : یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے قبل کی تاریخ کا نام ہے، جس کے حوالے یہودی مذہب میں بکثرت پائے جاتے ہیں اور ان کی مخصوص مذہبی یادیں اسی تاریخ کے ساتھ وابستہ ہیں۔
3۔ *سن عیسوی* : اس کا آغاز حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یوم ولادت سے بتایا جاتا ہے۔ اس تاریخ کے ماہ وایام مسیحی دنیا میں آئینہ حیات تصور کئے جاتے ہیں۔
4 *۔ سن ہجری* : اس سن وتاریخ کا آغاز حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مكہ المکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کے سال سے ہے۔
پہلے تین قسم کے سن کب اور کیسے وجود میں آئے؟ اس كی تفصيل كا يہ موقع نہیں ، اس وقت  سن ہجری کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟ اس پر مختصر روشنی ڈالنی ہے۔
 *تاريخ كے مطالعہ* سے يہ بات معلوم ہوتی ہے كہ  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ سے قبل عرب دنیا میں تاریخ ماضی کے واقعات اور عظیم حادثات کی طرف منسوب کی جاتی تھی، مثلاً جس سال ابرہہ شاہ یمن نے بیت اللہ شریف کو منہدم کرنے کی ناکام کوشش کی اور 60 ہزار فوج، 13 ہاتھی لے کرمکہ مکرمہ میں داخل ہوا، اس سال کو “ عام الفیل” کہا جاتا ہے۔ اہل حجاز کے لیے یہ ایک عظیم حادثہ تھا، اس لیے اس کے بعد پیش آنے والے چھوٹے واقعات اور معاملات کو اس اہم واقعہ کی طرف منسوب کرکے یوں کہا جاتا تھا، فلاں واقعہ عام الفیل کے ایک سال بعد پیش آیا یا فلاں معاہدہ عام الفیل کے اتنے ماہ بعد کیا گیا۔ اسی طرح عرب سردار ہشام بن مغیرہ کی وفات کی طرف بھی تاریخ منسوب کی جاتی رہی۔
اسلام سے پہلے عیسوی سال اور مہینوں سے تاریخ لکھی جاتی تھی اور مسلمانوں میں تاریخ لکھنے کا دستور نہیں تھا، دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور دور صدیقی میں بھی تاریخ کو اہم واقعات وحادثات کی طرف منسوب کیا جاتا رہا، مثلاً کہا جاتا تھا: سنۃ الاذن، سنۃ الامر، سنۃ الابتلاء، سنۃ الھجرۃ وغیرہ۔ یہاں تک کہ خلیفہ ثانی حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا تو خلیفہ ثانی نے جہاں اور بہت سے اہم امور کا آغاز کیا، وہاں سن ہجری کی ترتیب بھی آپ کے دور خلافت کا ایک اہم کارنامہ ہے ۔
 *حضرت ابوموسیٰ اشعری* رضی اللہ عنہ نے (بصرہ سے) امیر المومنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی طرف ایک خط لکھا جس کامضمون یہ تھا: ہمارے پاس امیر المومنین کی جانب سے ایک دستاویز پہنچی ہے ہمیں سمجھ نہیں آرہا کہ اس پر کیسے عمل درآمد کیا جائے؟ کیوں کہ اس میں تعمیل حکم کا مہینہ شعبان درج ہے تو معلوم نہیں ہورہا کہ اس میں گزشتہ شعبان مراد ہے یا آئندہ؟۔
ایک روایت میں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک درخواست پیش کی گئی جس میں (مہینہ کا نام) شعبان درج تھا، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: معلوم نہیں کہ درخواست دہندہ کی مراد کون سا شعبان ہے؟ (گزشتہ یا آئندہ) پھر ارشاد فرمایا: ہمارے پاس اموال کی کثرت ہے اور ہم یہ مال تعیین وقت کے بغیر تقسیم نہیں کرنا چاہتے، تو تعیین وقت اور ضبط اوقات کا کیا طریقہ ہونا چاہیے؟ مجلس میں موجود "ملک الاہواز” نامی شخص جو کسی جنگ میں قید ہوکر آپ کے ہاتھ اسلام لائے تھے، کہنے لگے کہ عجم کے ہاں ایک حساب اوقات مروج ہے جسے وہ “ماہ روز”  کا نام دیتے ہیں اور یہ فارس کے کسی بادشاہ کی طرف منسوب ہے، اس نے حساب کی کیفیت وضاحت کے ساتھ بیان کردی۔
حضرت عمر رضی للہ عنہ نے فرمایا کہ تم لوگ بھی کوئی تاریخ وضع کرو جس کے ذریعہ لوگ اپنے معاملات طے کریں اور اپنے اوقات ضبط کریں۔ کچھ لوگوں نے یہود کی تاریخ کا ذکر کیا مگر آپ نے اس کو ناپسند فرمایا اور کچھ لوگوں نے فارس کی تاریخ اختیار کرلینے کی رائے دی، آپ نے منظور نہ فرمایا، پھر سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مل کر ہجرت کو تاریخ کا مبدا بنالینے پر رضا مندی اور پسندیدگی کا اظہار کیا۔
علامہ آلوسی نے تفسير روح المعانی ميں لكھا ہے:
وفي بعض شروح البخاري: أن أبا موسى الأشعري كتب إليه إنه يأتينا من أمير المؤمنين كتب لا ندري بأيها نعمل، وقد قرأنا صكا محله شعبان فلم ندر أي الشعبانين الماضي أم الآتي.
وقيل: إنه هو رضي الله تعالى عنه رفع صك محله شعبان فقال: أي شعبان هو؟ ثم قال: إن الأموال قد كثرت فينا وما قسمناه غير مؤقت فكيف التوصل إلى ضبطه فقال له ملك الأهواز، وكان قد أسر وأسلم على يده: إن للعجم حسابا يسمّونه- ماهروز- يسندونه إلى من غلب من الأكاسرة ثم شرحه له وبين كيفيته فقال رضي الله تعالى عنه: ضعوا للناس تاريخا يتعاملون عليه وتضبط أوقاتهم فذكروا له تاريخ اليهود فما ارتضاه والفرس فما ارتضاه فاستحسنوا الهجرة تاريخا انتهى. (تفسير روح المعاني) (5/ 282).
  *جب حضرت ابو موسی اشعری* رضی اللہ تعالی عنہ نے 17 ہجری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس خط بھيجا کہ آپ کی طرف سے حکومت کے مختلف علاقوں میں خطوط جاری ہوتے ہیں، لیکن آپ کے ان خطوط میں تاریخ لکھی ہوئی نہیں ہوتی، جبکہ تاریخ لکھنے سے بہت فائدہ ہوتا ہے کہ کس دن آپ کی طرف سے حکم نامہ جاری ہوا اور کب پہنچا اور کب اس پر عمل جاری ہوا ان سب باتوں کے سمجھنے کا دارومدار تاریخ لکھنے پر ہے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کو نہایت معقول بات سمجھا اور فوری طور پر اکابر صحابہ کرام کی ایک میٹنگ بلائی اس میں مشورہ دینے والے صحابہ کی طرف سے چار باتیں سامنے آئیں:
 *اکابر صحابہ* رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک جماعت کی یہ رائے ہوئی کہ بنی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے سال سے اسلامی سال کی ابتدا کی جائے ۔
*دوسری جماعت* کی یہ رائے تھی کہ نبوت کے سال سے اسلامی سال کی ابتدا کی جائے۔
*تیسری جماعت* کی رائے یہ ہوئی کہ ہجرت کے سال سے اسلامی سال کی ابتدا کی جائے۔
*چوتھی جماعت* کی یہ رائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات سے اسلامی سال کی ابتدا کی جائے۔
امام حاكم ابو عبد الله نے اس سلسلے ميں روايت نقل كی ہے:  حضرت عمر  رضي الله عنه نے لوگوں كو جمع  كركے پوچھا تو  حضرت علی رضي الله عنہ نے كہا كہ ہجرت كے وقت سے تاريخ كی ابتدا كی جائے اس لیے كہ الله كے رسول نے شرک كی زمين كو چھوڑ كر ہجرت كيا:
يَقُولُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ: جَمَعَ عُمَرُ النَّاسَ فَسَأَلَهُمْ مِنْ أَيِّ يَوْمٍ يُكْتَبُ التَّارِيخُ؟ فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: «مِنْ يَوْمِ هَاجَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَرَكَ أَرْضَ الشِّرْكِ» فَفَعَلَهُ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، "المستدرك على الصحيحين” للحاكم (3/ 15).
 ان چاروں قسم کی رائے کے بعد ان پر باضابطہ بحث ہوئی پھر حضرت عمر نے یہ فیصلہ سنایا کہ ولادت یا نبوت سے اسلامی سال کی ابتدا کرنے میں اختلاف سامنے آسکتا ہے، اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت اوت بعثت کا دن قطعی متعین نہیں جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات سے شروع کرنا اس لئے مناسب نہیں کہ وفات کا سال اسلام اور مسلمانوں کے لئے غم اور صدمہ کا سال ہے، اس لئے منا سب یہ ہو گا کہ ہجرت سے اسلامی سال کی ابتدا کی جائے ، اس پر پھر چاروں جماعتوں نے اپنے اپنے نکات پیش کئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب کی رائے نہایت احترام کے ساتھ سنی، پھر آخر میں یہ فیصلہ دیا کہ محرم کا مہینے اسلام کے مہینے کی ابتدا ہو نی چاہیئے کیونکہ حضرات انصار نے بیعت عقبہ کے موقع پر حضور اکرمؐ کو مدینہ منورہ ہجرت کر کے تشریف لانے کی دعوت پیش  فرمائی تھی اور آپ نے انصار کی دعوت قبول فرمائی اور یہ ذی الحجہ کے مہینے کے بعد حج پیش آیا تھا اور حضور نے محرم کے شروع سے صحابہ کرام کو ہجرت کے لئے روانہ کرنا شروع فرما دیا تھا، لہٰذا ہجرت کی ابتدا محرم کے مہینہ سے ہوئی اور اس کی تکمیل ربیع الاول میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت سے ہوئی، كیونکہ ہجرت نے حق وباطل کے درمیان واضح امتیاز پیدا کریا، اسی سال سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم امن وسکون کے ساتھ بلاخوف وخطر پروردگار کی عبادت کرنے لگے، اسی سال مسجدِ نبوی کی بنیاد رکھی گئی جو دراصل دینِ اسلام کی نشر واشاعت کا مرکز تھی۔
 اسی طرح حج اسلام کی ایک تاریخی عبادت ہے جو سال میں صرف ایک مرتبہ ہوتی ہے اور حج سے فراغت کے بعد محرم کے مہینہ میں حاجی لوگ اپنے گھر واپس آتے ہیں۔ حافظ ابن حجر العسقلانی نے 《فتح الباري》 ميں يہ تمام تفصيلات درج كی ہيں۔ (فتح الباري (7/268)۔
ان خوبیوں کی بنا پر سال کے مہینے کی ابتدا محرم سے مناسب ہے۔ اس پر تمام صحابہ کرامؓ کا اتفاق اور اجماع ہوا کہ سال کے مہینے کی ابتدا محرم سے ہو۔ لہٰذا اسلامی سال کی ابتدا ہجرت سے اور اسلامی مہینہ کی ابتدا محرم الحرام سے مان لی گئی اور اسی پر امت کا عمل جاری ہے۔
ماہ محرم کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ اس مہینے کا روزہ رمضان المبارک کے بعد سب سے افضل ہے ۔حضرت ابو هريره رضي الله عنه روايت كرتے هيں:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَفْضَلُ الصِّيَامِ، بَعْدَ رَمَضَانَ، شَهْرُ اللهِ الْمُحَرَّمُ، وَأَفْضَلُ الصَّلَاةِ، بَعْدَ الْفَرِيضَةِ، صَلَاةُ اللَّيْلِ» صحيح مسلم (1163).
اسی طرح عاشورا كے روزے كی بھی فضيلت حديث شريف ميں آئی ہے: عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «صِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ» سنن الترمذي (752).
ہم نئے ہجری سال کی آمد پر عزم مصمم کریں کہ زندگی کے جتنے ایام باقی بچے ہیں ان شاء اللہ اپنے مولا کو راضی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ ابھی ہم بقید حیات ہیں اور موت کا فرشتہ ہماری جان نکالنے کے لئے کب آجائے، معلوم نہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِرَجُلٍ وَهُوَ يَعِظُهُ: ” اغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ: شَبَابَكَ قَبْلَ هِرَمِكَ، وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ، وَغِنَاءَكَ قَبْلَ فَقْرِكَ، وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ، وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ». المستدرك للحاكم (4/ 341).
 *پانچ چیزوں کو  پانچ چیزوں  سے پہلے غنیمت جانے۔*
 (1) جوانی کو بڑھاپے سے  پہلے۔
(2)  صحت کو بیماری سے پہلے، (3) مالداری کو فقر ومحتاجگی سے  پہلے۔
(4) اپنی فراغت کو مشغولیت سے پہلے۔
(5) زندگی کو موت سے پہلے (مستدرک الحاکم)۔
     اسی طرح ترمذی شريف كی مشہور روايت ہے، حضرت عبد الله بن مسعود  رضی اللہ عنہ راوی ہيں: عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: «لَا تَزُولُ قَدَمُ ابْنِ آدَمَ يَوْمَ القِيَامَةِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ، عَنْ عُمُرِهِ فِيمَ أَفْنَاهُ، وَعَنْ شَبَابِهِ فِيمَ أَبْلَاهُ، وَمَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَ أَنْفَقَهُ، وَمَاذَا عَمِلَ فِيمَا عَلِمَ» (سنن الترمذي) (2416).
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن کسی انسان کا قدم اللہ تعالیٰ کے سامنے سے ہٹ نہیں سکتا یہاں تک کہ وہ مذکورہ سوالات کا جواب دیدے: زندگی کہاں گزاری؟ جوانی کہاں لگائی؟ مال کہاں سے کمایا؟ یعنی حصولِ مال کے اسباب حلال تھے یا حرام، مال کہاں خرچ کیا؟ یعنی مال سے متعلق اللہ اور بندوں کے حقوق ادا کئے یا نہیں۔ علم پر کتنا عمل کیا (سنن الترمذي)۔
 ہمیں گزشتہ ٣٥٤ دن کے چند اچھے دن اور کچھ تکلیف دہ لمحات یاد رہ گئے ہیں باقی ہم نے٣٥٤ دن اس طرح بھلادئے کہ کچھ ہوا ہی نہیں۔ غرضیکہ ہماری قیمتی زندگی کے ٣٥٤ دن ایسے ہوگئے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ حالانکہ ہمیں ہجری سال کے اختتام پر یہ محاسبہ کرنا چاہئے کہ ہمارے نامۂ اعمال میں کتنی نیکیاں اور کتنی برائیاں لکھی گئیں ۔ کیا ہم نے امسال اپنے نامۂ اعمال میں ایسے نیک اعمال درج کرائے کہ کل قیامت کے دن ان کو دیکھ کر ہم خوش ہوں اور جو ہمارے لئے دنیا وآخرت میں نفع بخش بنیں؟ یا ہماری غفلتوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے ایسے اعمال ہمارے نامہ اعمال میں درج ہوگئے جو ہماری دنیا وآخرت کی ناکامی کا ذریعہ بنیں گے؟ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ امسال اللہ کی اطاعت میں زيادتي ہوئی یا کمی آئی؟ ہماری نمازیں، روزے اور صدقات وغیرہ صحیح طریقہ سے ادا ہوئے یا نہیں؟ ہماری نمازیں خشوع وخضوع کے ساتھ ادا ہوئیں یا پھر وہی طریقہ باقی رہا جو بچپن سے جاری ہے؟ روزوں کی وجہ سے ہمارے اندر اللہ کا خوف پیدا ہوا یا صرف صبح سے شام تک بھوکا رہنا؟ ہم نے یتیموں اور بیواؤں کا خیال رکھا یا نہیں؟ ہمارے معاملات میں تبدیلی آئی یا نہیں؟ ہمارے اخلاق نبی اکرم ﷺ کے اخلاق کا نمونہ بنے یا نہیں؟ جو علم ہم نے حاصل کیا تھا وہ دوسروں کو پہنچایا یا نہیں؟ ہم نے اپنے بچوں کی ہمیشہ ہمیش کی زندگی میں کامیابی کے لئے کچھ اقدامات بھی کئے یاصرف ان کی دنیاوی تعلیم اور ان کو دنیاوی سہولیات فراہم کرنے کی ہی فکر کرتے رہے؟ ہم نے قرآن کریم کے ہمارے اوپر جو حقوق ہیں وہ ادا بھی کئے یا نہیں؟ ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی یا نافرمانی؟ ہمارے پڑوسی ہماری تکلیفوں سے محفوظ رہے یا نہیں؟ ہم نے والدین، پڑوسی اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کئے یا نہیں؟
الحاصل يہ كہ نيا اسلامہ سال ہميں اپنا محاسبہ كرنے پر ابھارتا ہے بلكہ زندگہ كا ہر دن ہميں يہ پيغام ديتا ہے كہ ہم اپنی موت سے قريب آگئے، الله تعالی ہميں اعمال صالحہ كی توفيق دے۔
 *عبيد الله شميم قاسمی، العين ، ابو ظبی*
+971563116081
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا