جراحی کے بعد مریضوں کو زائیدالمعیاد گلوکوز لگایا جاتا ہے،سماجی کارکن ارشد گیری نے کیامحکمہ صحت کا کیا پردہ فاش
چیف میڈیکل آفیسر نے ویڈیووائر ل ہونے کے بعد معاملے کی تحقیقات کاکیااعلان
بابر فاروق
کشتواڑ؍؍اکیسویں صدی میں بھی کشتواڑ میں محکمہ صحت کی طرف سے فراہم کی جانے والی طبی سہولیات کی حالت تشویشناک ہے۔ جہاں دنیا کے سارے ممالک اس وقت اپنی ساری تر توانائی کرونا وائرس کی جنگ کے خلاف استعمال کر رہے ہیں اور ہر کوشش کر رہے ہیں کہ عوام کو بہتر طبی سہولیات فراہم کی جائیلیکن ضلع کشتواڑ میں سب کچھ اس کے برعکس ہو رہا ہے۔کشتواڑ کے ایک معروف سیاسی و سماجی کارکن ارشد گیری نے ’لازوال‘ سے فون پہ بات کرتے ہوئے بتایا کہ ضلع اہسپتال میں زائیدالعیادگلوکوز مریضوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ بات ان کی جانکاری میں تب آء جب انکے ہی ایک مریض جس کا اوپریشن ایک روز پہلے ہوا تھا،تو اس مریض کے تیماردار کی نظر اچانک ایک گلوکوز بوتل پہ پڑی اس نے پایا کہ وہ 2019کے ماہ اکتوبر میں ایکسپائر ہو چکی ہے،تو اس نے اسی وارڈ میں دوسرے مریض کے پاس جاکر بھی دیکھا صرف اس گرز سے کہ کہیں انہیں ہی غلطی سے تو نہیں دیا گیا ہے تو انہوں نے دیکھا کہ اسکی بھی سبھی چار بوتلوں پہ وہی تاریخ لکھی ہوئی تھی۔ انہوں نے ارشد گیری کو بتایا کہ ہمارے ساتھ ہسپتال میں اسطرح کا واقع پیش آیا ہے ۔ ارشد گیری اْسی ضلع ہسپتال میں ان مریضوں کے پاس پہنچے اور ان سے تفصیل سے بات چیت کی اور اس بارے میں تمام تر جانکاری ایک ویڈیو میں قید کی اور ضلع ایڈمنسٹریشن و گورنر انظامیہ سے اس کویڈ19- جیسی مہلک بیماری میں جہاں ایک طرف گورنمنٹ کروڑوں روپے مریضوں کی ادویات کے لیے مہیا کر رہی ہے،وہیں کشتواڑ کے ضلع ہسپتال میں زائیدالمعیادگولکوز سپلائی کیا جاتا ہے۔ ارشد گیری نے بتایا کہ اسکے لیے ہسپتال کی ضلع اکائی اور مقامی پرچیزنگ کمیٹی،و سٹور کیپر جو ہر روز یہ ادویات مریضوں کے لیے سٹور سے نکال کر اپریشن تھیٹر کے علاوہ ہسپتال میں اوپریشن کے گیے مریضوں میں روزانہ تقسیم کرتا ہے۔سٹور کیپر کے پاس یہ ایکسپائر گلوکوز کہاں سے آیا اور پھر اپریشن تھیٹر تک بھی کہاں سے پہنچااپنے آپ ضلع انتظامیہ پہ کئی سوال کھڑے کرتا ہے۔اسکے بعد رات کو ہی جب یہ حیرت انگیز واقع سوشل میڈیا پے چند تصاویر کے ساتھ اپلوڈ کیا گیا تو اپنی غلطیوں پے پردہ ڈالنے کے لیے ہسپتال کے عملے نے رات کے 12بجے کے بعد اپریشن تھیٹر میں تین ملازموں کو بھیج دیا جو وہاں موجود باقی ایکسپائر گلوکوز کووہاں سے ہٹانے کیلئے آے تھے۔ ارشد گیری کا کہنا ہے کہ اتنی رات گئے نہ تو کوئی اوپریشن چل رہا تھا اور نہ ہی کوئی ڈاکٹر وہاں پر موجود تھااسطرح ان تین ملازموں نے وہاں سے کافی مقدار میں ایکسپائر گلوکوز کی بوتلیں نکالیں جس کو بھی کیمرے میں قید کیا گیا ہے، اور انکو دیکھ کر ان ملازموں نے جو اسے باہر لیجانے کی کوشش کر رہے تھے ‘بعد میں ایک ڈیوٹی روم میں رکھا گیا۔ انہوں نے مقامی ضلع مجسٹریٹ راجند سنگھ تارا و رلیفٹیننٹ گورنر منوج سنہاسے اپیل کی ہے کہ یہ ادویات کا ایک بہت بڑا سکینڈل ہو سکتا ہے اسکی تحقیقات ہونی چاہیے کہ یہ ایک سال پرانا گلوکوز کس طرح سے اوپریشن تھیٹر اور مریضوں تک پہنچا اور سٹورکیپر کی لاپرواہی ہے یا پھر کسی اور دھندے کی پول کھولتا دکھائی دیتا ہے کہ ضلع ہسپتال میں کس قدر ادویات کے نام پہ یہاں کے مقامی عوام کی زندگیوں کے ساتھ کھیلا جارہا ہے۔ واضح رہے اس سے قبل بھی کئی بار ضلع ہسپتال کشتواڑ میں طبی سہولیات کے فقدان پر مقامی این جی او ابابیل کے کارکن برہان ڈار نے اپنے سوشل میڈیا کے اکاؤنٹ کے ذریعے اپیل کی تھی کہ یہاں کی عوام کو بہتر طبی سہولیات فراہم کی جائے لیکن کسی نے ان کی باتوں پے توجہ نہ دی۔ ایکسپائر ادویات کی سپلائی کے بارے میں جب نمائدہ ’لازوال ‘نے جب سی ایم او کشتواڑ سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس معاملے کی تحقیق کی جائے گی کہ ہسپتال کے وارڈوں میں ایکسپائر ادویات کی سپلائی کیسے پہنچی۔