نئی دہلی، 08 اگست (یواین آئی) نائب صدر ایم وینکیا نائیڈو نے بیرونی اور اندرونی چیلنجوں سے متحد ہوکرلڑنے کی اپیل کرتے ہوئے سنیچر کو کہا کہ اگر ہم متحد رہے تو کھڑے رہیں گے اور بٹ گئے تو گر جائیں گے ۔مسٹر نائیڈو نے ‘ہندوستان چھوڑو تحریک’ 08 اگست 1942 کی سالگرہ پر لکھے ایک مضمون میں کہا ہے آگے کا راستہ گزشتہ 1000 برسوں کی بے عزتی کے تجربے ہمیں مستقبل کی نئی راہ دکھائیں گے ۔
انہوں نے کہا کہ ‘‘پہلا سبق یہ ہے کہ اگر ہم متحد رہے تو کھڑے رہیں گے ، بٹ گئے تو گر جائیں گے ۔’ اندرونی اور بیرونی چیلنجوں اور حملوں کے خلاف ہمیں متحد ہوکر لڑنا ہے ۔ ہمیں مساوات اور سب کے لئے ایک جیسے مواقع کو تلاش کرنا ہوگا۔ ہمیں ہر ہندوستانی کو بااختیار بنانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی آزادی کے 75 برس منانے کے قریب ہیں، ہم اپنی طاقت کو سمجھیں اور ایک مشترکہ اور ترقی پذیر ہندوستان کی تعمیر کریں۔مسٹر نائیڈو نے کہا کہ جدید ہندوستان کی تاریخ میں اگست مہینے کا خصوصی مقام ہے ۔ آزادی کی جنگ کا مزا 15 اگست 1947 کو چکھا گیا۔ اس سے پانچ برس پہلے ہندوستان چھوڑو تحریک کا بگل مہاتما گاندھی نے آٹھ اگست کو ‘کرو یا مرو’ کے نعرے کے ساتھ بجایا۔ اس ماہ کی پانچ تاریخ کو اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا کام شروع ہوا۔ ایسے واقعات موجودہ اور مستقبل کے لئے خاص سبق دیتی ہیں۔
مسٹر نائیڈو نے کہا کہ ہندوستان کی آزادی صرف برطانوی سامراج کا خاتمہ نہیں تھا۔ اس نے تقریبا 1000 برسوں کے اس تاریکی عہد سے پردا ہٹادیا جس کی ابتدا 1001 میں محمود غزنوی کے حملے سے شروع ہوئی تھی۔ یہ ایسا دور تھا جب ہندوستان کی اندرونی کمزوریوں کا فائدہ اٹھایا گیا اور باہر سے غیرملکی حملہ آور مسلسل ہندوستان کی جانب رخ کرتے رہے ۔ اس کے ساتھ تاجر اور نواستعماریت کا قیام کرنے والے بھی ہندوستان کی جانب آنے لگے ۔انہوں نے کہا کہ ‘‘ہماری سماجی، ثقافتی اور معاشی زمین کے لینڈ اسکیپ کا خاتمہ کردیا گیا اور کمزور لوگوں کو لوٹا گیا۔ حملہ آور بے خوف ہوکر آتے رہے اور اپنی خواہش کے مطابق ہندوستان کو لوٹتے رہے ۔ ایک دوسرے کو سمجھنے کی طاقت میں کمی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ آپس میں اتحاد ی بھی کمی دیکھی گئی۔ بے شمار حملہ آوروں نے ہمارے ملک کو ایک نرم ہدف سمجھا حالانکہ ان کے حملے کی مخالفت پرتھوی راج چوہان، مہاراجہ پرتاپ، چھترپتی شیواج، رانی لکشمی بائی، ویرا پانڈے کٹابومن، آلوری، سیتاراما راجو وغیرہ نے کیا۔نائب صدر نے کہا کہ لوٹنے والوں نے اپنے منصوبے کے حساب سے لوٹا حالانکہ میر جعفر جیسے لوگ بھی تھے ۔ تقسیم ہوئے ملک نے اختلاف رائے اور بائیکاٹ کو جھیلا۔ کبھی سونے کی چڑیا کہے جانے والے ہندوستان غریبی اور پچھڑے پن کے سمندر میں غرق ہوگیا۔ اس طویل تاریکی عہد کے دوران ہندوستان نے اپنی روح اوراندرونی طاقت کو کھودیا۔ جیسے ہی برطانوی سامراج کی لوٹ شروع ہوئی تو ہندوستانیوں نے اپنے آپ کو نئے سرے سے تلاش کرنا شروع کیا۔
آزادی کی جنگ نے لوگوں کو ایک دھاگے میں پرودیا جنہوں نے اپنی قسمت آپ لکھنی چاہی۔ اسے ہی صحیح معنوں میں ہندوستانی قومی تحریک کا نام دیا گیا کیونکہ اس وقت قومیت نے زور پکڑا۔ اتحاد کی کمی کے بے وقوقی کے طویل عرصے میں ایسی باتوں کو جھیلا گیا۔ اس کے بعد بالآخر ہندوستانی قوم کی پیدائش 15 اگست 1947 کو ہوئی۔ اسی وجہ سے یہ کہنا مناسب ہوگا کہ آزادی کے لئے لڑی گئی طویل لڑائی ملک کو صدیوں سے تاریکی عہد سے آزادی دلانے کے لئے تھی جس میں سماجی یکجہتی کی کمی تھی۔مسٹر نائیڈو نے کہا کہ ہندوستان چھوڑو تحریک کا یہ سب سے اہم لمحہ تھا۔ ہندوستان چھوڑو تحریک کی تجویز آٹھ اگست 1942 کو پاس کی گئی جس میں زور دے کر کہا گیا کہ ہندوستان میں برطانوی سامراج فوری طور سے ختم ہو۔ برطانوی سامراج کا قائم رہنا ہندوستان کو اور نیچے دھکیل رہا تھا جو اس کی ترقی میں ایک رکاوٹ تھی۔ ہندوستان چھوڑو تحریک کے دوران اپنی تقریر میں مہاتما گاندھی نے ‘کرو یا مرو’ کی آواز بلند کی۔انہوں نے کہا کہ ‘‘ثقافتی اور معاشی انحطاط صدیوں سے لوگ مختلف ریاستوں اورسامراج کے تحت رہے تھے ۔ لوگ ثقافت اور اقدار کے طور طریقے کے پابند تھے ۔ مندر ثقافت کا ایک اہم منبع تھا۔ اس ثقافتی دھاگوں کو غیر ملکی حملہ آور توڑنا چاہتے تھے ۔ ہندوستان کے اہم مندروں پر حملے کئے گئے ۔ ان کو لوٹا گیا اور ان کو تباہ کیا گیا۔ محمود غزنوی نے مشہور سومناتھ مندر پر 1001-25 عیسوی تک حملے کئے ۔ اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر شروع کرنے میں تقریبا پانچ سو برسوں کا وقت لگا۔ طویل عرصے تک تقسیم کرنے کی یہ قیمت ادا کرنی پڑی۔’’نائب صدر نے کہا کہ سامراج کی حامیوں کا کہنا ہے کہ برطانوی عہد سے ہندوستان نے فائدہ اٹھایا۔ یہ سچائی سے پرے ہے ۔ ہندوستان میں برطانوی سامراج کی سبھی چیزیں تجارتی اور انتظامی مفادات کے مطابق تھے