کلیدی ملزمین کے ٹرائل پر 31اگست کو فیصلہ متوقع
یواین آئی
لکھنؤ؍؍بابری مسجد۔رام مندر متازع قضیہ معاملے میں سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق لکھنؤ میں سی بی آئی کی اسپیشل کورٹ بابری مسجد کی مسماری کے معاملے میں کلیدی ملزمین کے ٹرائل کی تکمیل کے بعداب 31اگست کو فیصلہ سنا سکتی ہے ۔گذشتہ سال 9نومبر 2019 میں بابری مسجد۔رام مندر متنازع اراضی ملکیت کے معاملے میں سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے کے بعد اب پوری توجہ بابری مسجد کی مسماری کے ضمن میں چلنے والے ٹرائل کیس پر مرکوز ہوگئی ہے جو 06دسمبر 1992کے بعد شروع ہوا تھا۔سپریم کورٹ نے اراضی ملکیت معاملے میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ بابری مسجد کی مسماری ایک مجرمانہ فعل ہے ۔تاہم مسماری کے 31کلیدی ملزمین بشمول ایل کے اڈوانی، ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی، سابق وزیر اعلی کلیان سنگھ، اور اوما بھارتی وغیرہ نے ٹرائل کے درمیان اپنے بیان ریکاڑ میں خود کو بے قصور بتاتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ انہیں سیاسی سازش کے تحت اس کیس میں پھنسایا گیا تھا۔گذشتہ 28سالوں میں کی انوسٹی گیشن اور ٹرائل میں تاخیر کے بعد اب یہ معاملہ بلاآخر لکھنؤ کی سی بی آئی کورٹ میں آخری مقام پر پہنچ گیا ہے ۔32ملزمین میں سے 31نے سی آر پی سی کی دفعہ 313 کے تحت اپنا بیان ریکارڈ کرایا ہے ۔ ابھی تک 351گواہوں کے بیان لئے جاچکے ہیں۔اس معاملے کی سماعت کررہے خصوصی جج ایس کے یادو کو سپریم کورٹ نے ٹرائل کی تکمیل کے لئے اضافی وقت دیتے ہوئے اس ضمن میں 31اگست تک حتمی فیصلہ سنانے کی ہدایت دی تھی۔ملحوظ رہے کہ سپریم کورٹ نے ملکیت معاملے میں فیصلہ سناتے ہوئے متنازع اراضی پر رام مندر بنانے اور بابری مسجد کے لئے اجودھیا میں ہی 5ایکڑ زمین فراہم کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔ایڈوکیٹ ابھیشیک رنجن جو کہ اڈوانی،جوشی اور کلیان سنگھ کے وکیل ہیں انہوں نے کہا کہ’اب کاروائی فیصلہ کن مرحلے میں ہے ۔سی آر پی سی کی دفعہ 313 کے تحت بیان ریکارڈ کے بعد دفاع ایک بار پھر ضرورت کے بقدر گواہوں سے سوال کرے گا۔سپریم کورٹ نے اس معاملے میں حتمی فیصلے کے لئے 31اگست کی تاریخ مقرر کی ہے ۔ اور اسی کے تحت سماعت جاری ہے ۔دیگر متعدد ملزمین کا دفاع کرنے والے وکیل آئی بی سنگھ نے بتایا کہ ٹرائل آخری مرحلے میں اور ہمیں اس معاملے میں جلد ہی فیصلے کی امید ہے ۔28سال کے بعد بھی اس معاملے میں فیصلہ اب بھی سی بی آئی کورٹ میں التوا کا شکار ہے ؟ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ اول دن سے ہی کافی گنجلک تھا۔کافی سالوں تک یہ مجرمانہ فعل کی سنجیدہ انوسٹی گیشن کے بجائے سیاسی رنگ میں زیادہ رنگا رہا۔