اصل ہندوستان میں بستاہے،دیہات کی ترقی کیلئے ہرمحکمہ میں کئی اسکیمیں ہیں،جن پرحقیقی معنوں میں عمل آوری ہوتویقینادیہی عوام کامعیارِحیات نئی بلندیاں چھوسکتاہے، لیکن افسوس کامقام یہ ہے کہ اکثر ان اسکیموں کی زمینی سطح پرعمل آوری سے زیادہ سرکاری ریکارڈمیں ہی خانہ پری کی جاتی ہے اور اس خانہ پری کی اصل وجہ کورپشن میں لت پت نظام ہے،کورپشن انتظامیہ کی جڑوں یایوں کہیں حُکام کی رگوںمیں خون کیساتھ دوڑتاہے توبیجانہ ہوگاکیونکہ سرکاری کرسی پانے والے اکثردِن دوگنی رات چوگنی ترقی کیلئے ہاتھ پائوں مارتے ہیں اور بہت جلد وہ بڑے بڑے بنگلے بنالیتے ہیں،بے نامی جائیدادیں جمع کرتے ہیں، اپنے دوست واحباب ورشتہ داروں کے نام پرگاڑیاں،بسیں،ٹرک تک خرید لیتے ہیں،ایسے عناصرکے ہوتے ہوئے گائوں میں سرکاری اسکیموں کی عمل آوری،مستحقین تک اُن کاحق پہنچنے کی اُمیدکیسے کی جاسکتی ہے،گائوں میں کسی غریب کی پنشن سے لیکربے سہارہ خاتون کی مالی مددسے لیکرسڑک،عمارت کی تعمیرتک ہرسطح پرہرمحکمہ میں زیادہ کاغذی گھوڑے ہی دوڑائے جاتے ہیں تاکہ راشی عناصر کی تجوریاں بھرتی رہیں اور غریب دیہی عوام کی آنکھیں اچھی سڑک،اچھے اسکول،اچھے طبی بنیادی ڈھانچے کیلئے ترستی رہیں،بزرگ اپنی پنشن کی راہ تکتے تکتے اس جہانِ فانی سے کوچ کرجاتے ہیں لیکن راشی عناصر ان کی بوڑھی آنکھوں سے بھی لہونچوڑلیتے ہیں،پینے کے پانی کی اسکیمیں ہوں، بجلی پہنچانے کی اسکیمیں ہوں یاپھرمنریگاکے تحت روزگاروتعمیروترقی کامعاملہ ہوسب ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور اور کھانے کے اور ہیں،صرف اور صرف سرکاری خزانے سے براہ راست یا پھر کسی بھی جوڑتوڑسے رقومات کوہڑپنے کی تدبیریں سوچی جاتی اور کامیابی بنائی جاتی ہیں، اس نظام کو بدلنے کیلئے سرکاری کسی بھی صورت میں کامیابی نہیں ہوسکتی کیونکہ سرکارنام کی چڑیاوہی سرکاری مشینری ہے جو اس لوٹ کھسوٹ میں ملوث ہے،اس گندگی کی صفائی کیلئے نوجوانوں کوتعلیم کو اپنازیوربناناہوگا،سرکاری اسکیموں کے تئیں اپنے اندر بیداری لانی ہوگی، دیہی عوم کو اُن کے حقوق کے تئیں بیدارکرناہوگا،سِول سوسائٹی کومتحرک ہوناہوگاتبھی زمین تک کوئی اسکیم پہنچ پائیگی،غریب تک اُس کاحق پہنچ پائیگاورنہ سرکاریں بدلیں یاریاست سے یوٹی میں بدل لیں ، کچھ بدلنے والانہیں، تصویرسب کے سامنے عیاں ہے،خودبدلناہوگا۔دیہات میں اس لوٹ کھسوٹ کی راہیں آسان ہوناوہاں کے لوگوں میں بیداری کافقدان ہے، اورنوجوانوں کی غفلت کانتیجہ ہے کہ لُٹیرے سادہ لوح دیہی عوام کو لوٹ لوٹ کرشہروں میں اپنے بنگلے گاڑیاں بنارہے ہیں اورغریب سڑک،پانی،بجلی،صحت سہولیات کیلئے آج اکیسویں صدی میں بھی ترس رہاہے۔