ملک کو 34برس بعد نئی تعلیمی پالیسی ملی

0
0

حکومت کی اسکول اور اعلی تعلیم میں بڑی تبدیلی؛وزارت کا نام بدل کروزارت تعلیم کردیا گیا
کریڈٹ سسٹم اور گریڈ کی خودمختاری دی جائے گی۔آن لائن تعلیم پربھی زور دیا جائے گا
یواین آئی

نئی دہلی؍؍ مرکزی کابینہ نے ملک میں اسکولی اور اعلی تعلیم میں غیرمعمولی تبدیلی لانے کے لئے تاریخی اور زیرانتظار نئی تعلیمی پالیسی کو آخر کار بدھ کو منظوری دے دی۔نئی تعلیمی پالیسی میں انسانی وسائل کو فروغ کی وزارت کا نام بدل کروزارت تعلیم کردیا گیا ہے۔ تقریباًً 34برس کے بعدملک کو ایک بار پھر نئی تعلیمی پالیسی ملی ہے۔وزیراعظم نریندر مودی کی صدارت میں آج کابینہ کی میٹنگ میں اس پالیسی کو منظوری دی گئی۔ میٹنگ میں انسانی وسائل کو فروغ کے وزیر ڈاکٹر رمیش پوکھریا ل نشنک بھی موجود تھے۔ڈاکٹر نشنک نے کابینہ کی میٹنگ کے بعد نامہ نگاروں و بتایا کہ آج کا دن تاریخی دن ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی میل کا پتھر ثابت ہوگئی۔ نئی تعلیمی پالیسی پر تبادلہ خیال کے دوران دو لاکھ 25ہزار مشورے آئے۔ملک کی تاریخ میں نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ میں اتنے طویل عرصہ تک کوئی تبادلہ خیال نہیں ہوا۔اطلاعات و نشریات کے وزیر پرکاش جاوڈیکر نے اس نئی پالیسی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ 34برس بعد ملک میں نئی تعلیمی پالیسی آئی ہے۔ تعلیم گھر گھر کا موضوع ہے۔ اس پالیسی کو ملک ہی پوری دنیا میں تعریف ملے گی آج کا دن تاریخی ہے۔ انہوں نے نامہ نگاروں سے کہاکہ اس پالیسی کا دستاویز اتنا تفصیلی ہے کہ اس پالیسی کے بارے میں بعدمیں سوالات پوچھیں۔اعلی تعلیم کے سکریٹری امت کھر ے نے ملک میں تعلیم کی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ 1948-49میں یونیورسٹی ایجوکیشن کمیشن قائم ہوا تھا اور اس کے بعد سیکنڈری ایجوکیش کمیشن 1952-1953میں قائم ہوا۔اس کے بعد 1964-66میں ڈی ایس کوٹھاری کی صدارت میں تعلیم کمیشن قائم ہوا جس کی بنیاد پر 1968میں ملک میں پہلی بار قومی تعلیمی پالیسی بنی۔ اس کے بعد 1976میں 42ویں آئینی ترمیم کے تحت تعلیم کو کنکرینٹ لسٹ میں شامل کیا گیا اور 1986میں قومی تعلیمی پالیسی بنی جو اب تک چل رہی تھی لیکن 1992میں اس میں تھوڑی ترمیم کی گئی۔ اس کے بعد اب نئی تعلیمی پالیسی بنی اور اس کے لئے سبرامنیم اور کستوری رنگن کمیٹی قائم ہوئی۔انہوں نے بتایا کہ نئی تعلیمی پالیسی کے لئے قومی سطح پر ہی نہیں بلکہ ریاستی سطح پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا اور ماہرین تعلیم ہی نہیں عام لوگوں سے بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔انہوں نے کہاکہ اس پالیسی میں کئی سطح پر ڈگری ڈپلوما وغیرہ کا التزام ہوگا اور ہنرمندی پر زور دیا جائے گا اور مختلف موضوعات اور شعبوں کو شامل کیاجائے گا۔ کریڈٹ سسٹم اور گریڈ کی خودمختاری دی جائے گی۔آن لائن تعلیم پربھی زور دیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ ا بھی اس پرمجموعی گھریلو پیداوار کا 4.3فیصد تعلیم پر خرچ ہوتا ہے جسے اب بڑھا کر چھ فیصد کیا جائے گا اور پرائیویٹ، سرکاری اور ٹرسٹ کی حصہ داری بھی ہوگی۔اعلی تعلیم کے سکریٹری امت کھر ے نے ملک میں تعلیم کی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ 1948-49میں یونیورسٹی ایجوکیشن کمیشن قائم ہوا تھا اور اس کے بعد سیکنڈری ایجوکیش کمیشن 1952-1953میں قائم ہوا۔اس کے بعد 1964-66میں ڈی ایس کوٹھاری کی صدارت میں تعلیم کمیشن قائم ہوا جس کی بنیاد پر 1968میں ملک میں پہلی بار قومی تعلیمی پالیسی بنی۔ اس کے بعد 1976میں 42ویں آئینی ترمیم کے تحت تعلیم کو کنکرینٹ لسٹ میں شامل کیا گیا اور 1986میں قومی تعلیمی پالیسی بنی جو اب تک چل رہی تھی لیکن 1992میں اس میں تھوڑی ترمیم کی گئی۔ اس کے بعد اب نئی تعلیمی پالیسی بنی اور اس کے لئے سبرامنیم اور کستوری رنگن کمیٹی قائم ہوئی۔انہوں نے بتایا کہ نئی تعلیمی پالیسی کے لئے قومی سطح پر ہی نہیں بلکہ ریاستی سطح پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا اور ماہرین تعلیم ہی نہیں عام لوگوں سے بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔انہوں نے کہاکہ اس پالیسی میں کئی سطح پر ڈگری ڈپلوما وغیرہ کا التزام ہوگا اور ہنرمندی پر زور دیا جائے گا اور مختلف موضوعات اور شعبوں کو شامل کیاجائے گا۔ کریڈٹ سسٹم اور گریڈ کی خودمختاری دی جائے گی۔آن لائن تعلیم پربھی زور دیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ ا بھی اس پرمجموعی گھریلو پیداوار کا 4.3فیصد تعلیم پر خرچ ہوتا ہے جسے اب بڑھا کر چھ فیصد کیا جائے گا اور پرائیویٹ، سرکاری اور ٹرسٹ کی حصہ داری بھی ہوگی۔خیال رہے کہ جب پچھلی حکومت میں جب محترمہ اسمرتی ایرانی انسانی وسائل کو فروغ کی وزیر بنی تھیں تب سے نئی تعلیمی پالیسی بنانے کا عمل شروع ہوا اور اس طرح تقریباً چھ برس بعد اس تعلیمی پالیسی کو حتمی شکل دی گئی اور آخرکا ر مودی کابینہ نے اس پر اپنی مہر لگا دی۔اس سے پہلے سابق وزیراعظم راجیو گاندھی نے 1986میں اپنی مدت کار میں نئی تعلیمی پالیسی بنائی تھی۔ 1992میں اس میں ترمیم کی گئی۔ ملک میں اس درمیان تعلیم کے شعبہ میں آئی تبدیلی کے پیش نظر حکومت نے کئی تعلیمی پالیسی بنائیں تاکہ بدلے ہوئے حالات میں خاص طورپر تکنالوجی میں آئی تبدیلی میں ڈیجیٹل تعلیم اور انوویشن کو شامل کیاجاسکے۔پہلے سابق کابینی وزیر ٹی ایس آر سبرامنیم کی صدارت میں ایک کمیٹی نے اپنی عبوری رپورٹ سونپی لیکن ان کا محترمہ ایرانی سے تنازعہ ہوگیا اور وہ رپورٹ عوامی نہیں ہوئی۔ اس کے بعد ہندستانی اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن کے چیرمین کستوری رنگن کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے گزشتہ برس اپنی رپورٹ دے دی تھی۔ نئی تعلیمی پالیسی نے2035 تک اعلی تعلیم میں مجموعی اندراج کے تناسب کو بڑھا کر کم سے کم 50 فیصد کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے، جس میں اسکول کی تعلیم سے لے کر اعلی تعلیم تک میں کئی اہم تبدیلیاں کی گئیں۔نئی تعلیمی پالیسی کے تحت متعدد داخلی اور خارجی نظام نافذ کیے گئے ہیں۔ آج کے نظام میں، اگر چار سال انجینئرنگ یا 6 سمسٹرس کے بعد، طلبہ کسی وجہ سے آگے تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہوجاتے ہیں تو پھر اس کا کوئی حل نہیں ہوتا لیکن ملٹی پل انٹری اور ایگزٹ سسٹم (متعدد داخلی اور خارجی نظام) میں ایک سال کے بعد سرٹی فیکٹ، دو سال بعد ڈپلوما اور 3اور 4 سال بعد ڈگری مل جائے گی۔ طلبہ کے مفاد میں یہ ایک اہم فیصلہ ہے۔اسکول کی تعلیم میں کی گئی تبدیلی کے تحت، 6-9 سال کی عمر کے بچوں جو عام طور پر 1-3 کلاسوں میں ہوتے ہیں،ان کے لئے ایک قومی مشن شروع کیا جائے گا تاکہ بچے بنیادی خواندگی اور اعداد کو سمجھ سکیں۔ اسکولی تعلیم کے لئے خصوصی تعلیمی نصاب 5 + 3 + 3 + 4 نافذ کئے گئے ہیں۔ اس کے تحت، 3-6 سال کا بچہ اسی طرح تعلیم حاصل کرے گا تاکہ اس کی بنیاد خواندگی اور اعداد شمار کی صلاحیت میں اضافہ کیا جاسکے۔ اس کے بعد مڈل اسکول یعنی 6-8 کلاس میں ، مضمون کا تعارف کرایا جائے گا۔ کلاس 6 کے بعد سے، بچوں کو کوڈنگ کی تعلیم دی جائے گی۔نئی تعلیمی پالیسی کے تحت، 3-6 سال کے درمیان تمام بچوں کے لئے معیاری ابتدائی بچپن کی دیکھ بھال اور تعلیم کو یقینی بنانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ تین سے پانچ سال کی عمر کے بچوں کی ضروریات کو آنگن واڑیوں کے موجودہ نظام اور 5 سے 6 سال کی عمر کے بچوں کو کھیلوں پر مبنی نصاب کے ذریعہ پورا کیا جائے گا، جو این سی ای آر ٹی کے ذریعہ تیار کیا جائے گا۔ ابتدائی بچپن کی تعلیم ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ، ویمن اینڈ چائلڈ ڈویلپمنٹ، صحت اور خاندانی بہبود اور قبائلی امور کی وزارتیں مشترکہ طور پر بنائیں گی اور ان کا نفاذ کریں گے۔ اس کی جانے والی رہنمائی کے لئے ایک خصوصی مشترکہ ٹاسک فورس تشکیل دی جائے گی۔بنیادی خواندگی اورا قدار پر مبنی تعلیم کے ساتھ تعداد پر توجہ دینے کے لئے ترجیحی بنیاد پر ایک قومی خواندگی اور شماریاتی مشن قائم کیا جائے گا۔ گریڈ ایک سے تین کو ابتدائی زبان اور ریاضی پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ این ای پی 2020 کا ہدف یہ ہے کہ گریڈ 3 تک کے ہر طالب علم کو سال 2025 تک بنیادی خواندگی اور اعداد کا علم حاصل کرلینا چاہئے۔ اسکول میں تمام مضامین یعنی سائنس، سوشل سائنس، آرٹس، زبان، کھیل، ریاضی وغیرہ پر پیشہ ورانہ اور تعلیمی سلسلے کے انضمام پر یکساں زور دیا جائے گا۔مختلف اقدامات کے ذریعہ سال 2030 تک تمام اسکول کی تعلیم کے لئے 100 فیصد مجموعی اندراج کے تناسب کو حاصل کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ اس کوہدف کو یقینی بنانا ہے کہ پیدائش یا پس منظر کے حالات کی وجہ سے کوئی بھی بچہ سیکھنے اور ان کو بہتر بنانے کے کسی بھی مواقع سے محروم نہ رہ جائے۔ معاشرتی اور معاشی طور پر پسماندہ گروپوں پر خصوصی زور دیا جائے گا۔ پسماندہ علاقوں کے لئے خصوصی تعلیم کا شعبہ اور علیحدہ صنفی شمولیت فنڈ قائم کیا جائے گا۔اعلی تعلیم کے فروغ کے لئے ایک جامع ہمہ جہتی (امبریلا)ادارہ ہوگا جس کے تحت معیاری ترتیب، فنڈنگ، منظوری اور ضابطہ کے لئے آزاد یونٹ قائم کیے جائیں گے۔ پیشہ ورانہ تعلیم ہر طرح کی تعلیم کا لازمی جزو ہوگی۔ نئی تعلیمی پالیسی کا مقصد سال 2025 تک 50 فیصد طلبا کو پیشہ ورانہ تعلیم فراہم کرنا ہے۔نیشنل ریسرچ فاؤنڈیشن تحقیق اور اختراعات کو فروغ دینے اور توسیع دینے کے لئے ملک بھر میں ایک نئی یونٹ تشکیل دے گی۔متعدی بیماریوں اور عالمی وبائی امراض میں اضافے کے پیش نظر، آن لائن تعلیم کو فروغ دینے کے لئے سفارشات کا ایک جامع مجموعہ تیار کیا جائے گا، تاکہ جب بھی اور جہاں بھی روایتی اور ذاتی طور پر تعلیم کے طریقوں کا امکان ممکن نہ ہو، انہیں معیاری تعلیم کا متبادل دیا جائے۔ تعلیمی پالیسی کا مقصد سو فیصد نوجوانوں اور بالغوں کی خواندگی کو حاصل کرنا ہے۔سکریٹری ہائر ایجوکیشن امت کھری نے ملک میں تعلیم کی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی ایجوکیشن کمیشن 1948-49 میں تشکیل دی گئی تھی اور پھر 1952-53 میں سیکنڈری ایجوکیشن کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔ اس کے بعد، 1964-66 میں، ڈی ایس کوٹھاری کی صدارت میں، تعلیمی کمیشن تشکیل دیا گیا، جس کی بنیاد پر 1968 میں ملک میں پہلی بار قومی تعلیمی پالیسی تشکیل دی گئی۔ اس کے بعد، 1976 میں 42 ویں آئینی ترمیم کے تحت، تعلیم کو یکساں تعلیم کی فہرست میں شامل کیا گیا اور 1986 میں ایک قومی تعلیمی پالیسی بنائی گئی جو ابھی چل رہی تھی لیکن 1992 میں اس میں قدرے ترمیم کی گئی۔ اس کے بعد، ایک نئی تعلیمی پالیسی بنائی گئی اور اس کے لئے سب سے پہلے سبرامنیم اور کستوری رنگن کمیٹی تشکیل دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ نئی تعلیمی پالیسی پر نہ صرف قومی سطح پر بلکہ ریاستی سطح پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا اور نہ صرف ماہرین تعلیم بلکہ عام لوگوں سے بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔انہوں نے بتایا کہ نئی تعلیمی پالیسی میں پانچ پلس تین پلس تین پلس چار کا التزام ہوگا اور آرٹ سائنس اور ووکیشنل تعلیم کے درمیان کوئی ٹکراؤ نہیں ہوگا اوراسباق میں تخفیف کی جائے گی اور کلاس چھ کے بعدووکیشنل تعلیم کو شامل کیا جائے گا۔انہوں نے بتایا کہ بچوں میں سائنس اور ریاضی میں دلچسپی کو ڈیولپ کیا جائے گا اورسبھی موضوعات پڑھائے جائیں گے چاہے ۔میوزک ہو یا آرٹ۔ ذہین طالب علموں کی شناخت کی جائے گی۔نئی تعلیمی پالیسی میں نیشنل ایجوکیشن کمیشن اور نیشنل ریسرچ فاؤنڈیشن کی تشکیل کے علاوہ انوویشن فیزیکل ایجوکیشن یوگا، کھیل کود اور آرٹ پر بھی زور دیا گیا اور تین برس سے اٹھارہ برسوں تک کے طالب علموں پر توجہ دی گئی ہے۔علی تعلیم کے سکریٹری امیت کھرے نے ملک میں تعلیم کی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 1948-49میں یونیورسٹی تعلیمی کمیشن کی تشکیل ہوئی تھی اور اس کے بعد سیکنڈری ایجوکیشن کمیشن کی تشکیل 1952-53 میں ہوئی۔ اس کے بعد1964-66 میں ڈی ایس کوٹھاری کی صدارت میں ایجوکیشن کمیشن کی تشکیل یوئی جس کی بنیاد پر 1968 میں ملک میں پہلی مرتبہ نیشنل ایجوکیشن پالیسی بنائی گئی۔اس کے بعد 1976 میں بیالیسویں آئینی ترمیم کے تحت تعلیم کو کنکرینٹ لسٹ میں شامل کیا گیا اور 1986 میں نیشنل ایجوکیشن پالیسی بنی جو اب تک جاری تھی لیکن 1992 میں اس میں تھوڑی سی ترمیم کی گئی۔ اس کے بعد اب نئی تعلیمی پالیسی بنی اور اس سے پہلے سبرامنیم اور کستوری رنجن کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔انہوں نے بتایا کہ نئی تعلیمی پالیسی کے لئے قومی سطح پر ہی نہیں ریاستی سطح پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا اورماہر تعلیم سے ہی نہیں عام لوگوں سے بھی تبادلہ خیال کیاگیا۔اسکولی تعلیم کے سکریٹری سنیتا کروال نے بتایا کہ نئی تعلیمی پالیسی میں مجموعی طور سے 27 اہم نکات ہیں جن میں 10 اسکولی تعلیم سے متعلق ہیں اور سات نکات دونوں میں برابر ہیں جن میں آن لائن اور ٹکنالوجی سے جڑی تعلیم شامل ہیں۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا