چینی سرکار کے ذریعہ ایغور مسلم خواتین پر کئے جا رہے مظالم پر سوال اٹھائیں:محمد جاوید

0
0

نئ دہلی,26 جولائ(نامہ نگار)محمد جاوید نے آج ہندوستانی اور چینی مسلم خواتین پر گفتگو کرتے ہوئے مذہبی آزادی کا حق ,زندگی کا حق اور اظہار رائے کا حق ہمارے آئین میں بنیادی حقوق ہیں۔بھارت میں پیدا کوئ بھی شخص پیدائش سے ہی ان حقوق کا استعمال کرتا ہے۔اگرچہ وہ ان حقوق کی اہمیت کبھی محسوس کرتے کیونکہ وہ ایک مختلف سچائ کے ساتھ اس کا موازنہ کرنے میں ناکامیاب ہیں۔ایغور مسلمان خواتین کا معاملہ اس کی سرفہرست مثال ہے۔جو اس قانون کی اہمیت پر روشنی ڈال سکتا ہے۔زندگی,کھانا پینا رہن سہن اور پہناوے کی آزادی کی انسانوں کی بنیادی ضروریات اور خواہشات ہوتی ہیں۔لیکن ایغور مسلمان خواتین کو چینی حکومت کے ذریعہ ایک صدی سے زائد وقت سے ان بنیادی حقوق محروم کر دیا گیا ہے۔چینی انتظامیہ کے ذریعہ مہیا تمام سوشل پر پابندی عائد کر دی گئ ہے اور ان کے گواہوں کو مار دیا گیا ہے ۔پھر بھی کچھ ایغور مسلمان خواتین کچھ سوشل میڈیا چینلوں کو خفیہ طور سے اپنا درد اپنی داستان سوشل میڈیا کے منظر عام پر لانے میں کامیاب رہیں۔اس سے ان کے ذریعہ روزمرہ سہے جارہے مظالم جھلک پانے میں باہری دنیا کو مدد ملی۔بھارتی مسلمان خواتین اپنی مرضی کے مطابق زندگی جینے اور اظہار رائے کیلئے آزاد ہیں۔ان پر اپنے مطابق میعار زندگی,پہناوا اور تعلیم حاصل کرنے پر کوئ پابندی نہیں ہیں کچھ ماہ قبل کچھ چینی کمپنیوں کو مسلم خواتین کو برقعہ پہن کر دفترپر آنے پرپابندی عائد کر دی اور اس حکم نامہ کو بہت سختی سے نافذ کیا گیا کہ متعدد خواتین کو اپنا روزگار کھونا پڑا۔اس کے مقابلے میں بھارتی مسلم خواتین دفتر ,مالس,ہوٹلس,سنیما حال وغیرہ سمیت کسی بھی جگہ پر کسی بھی طرح کا لباس پہننے کیلئے آزاد ہیں۔وہ بغیر کسی پابندی کے اپنی رائےکا اظہارکر سکتی ہیں(جب تک کہ یہ ملک کے تحفظ سے متعلق نہ ہوں)۔
ایغور مسلمان خواتین کو ڈیٹینشن کیمپ میں قید رکھا جاتا ہے اور ان کی جانچ کی جاتی ہیں۔اگرمذکورہ خواتین حاملہ پائ جاتی ہیں تو انہیں حمل گرانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔حملہ ہونے سے روکنے کیلئے کچھ خواتین کے جسم میں انٹرا یورین ڈیوائس لگائ گئ ہیں۔جس کے نتیجے میں ایغور مسلمان طبقے میں شرح پیدائش گھٹ کر ساٹھ فیصد آگئ ہے۔کچھ حقوق انسانی تنظیموں کے ذریعہ اسے پیدائش سے قبل قتل کے برابر قرار دیا گیا ہے۔اس کے برعکس بھارتی مسلمان خواتین بچوں کو جنم دینے کیلئے آزاد ہیں۔وہ اپنی مرضی کے مطابق بچوں کو گود لے سکتی ہیں۔بھارتی مسلم خواتین اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے بھارتی عدلیہ کا سہارا لے سکتی ہیں۔جو ایغور مسلمانوں میسر نہیں ہیں۔انہیں مسلمان مردوں کے برابر حق ملا ہے اور جب انہیں انصاف نہیں ملتا تو وہ بھارت سرکار کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر سکتی ہیں۔یہ سب ایغور مسلم خواتین کے تصور سے بہت دور ہیں۔وہ کبھی بھی چین کی کمیونسٹ پارٹی کے خلاف آواز نہیں بلند کر سکتی ہیں۔مسلم خواتین کو تعلیم اور روزگار کے مواقع آسانی سے حاصل ہیں۔متعدد بھارتی مسلم خواتین سرکاری کے ساتھ ساتھ ذاتی میدان میں حیرت انگیز روزگار حاصل کیا ہے۔جس سے انہیں ایک عزت کی زندگی کا تحفہ ملا ہے۔وہ نہ صرف اپنے تہوار منانے کیلئے آزاد ہیں بلکہ انہیں غیر مسلم دوستوں کے ذریعہ دیوالی اور ہولی کیلئے بھی مدعو کیا جاتا ہے جو بھائ چارہ اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت سرکار کے ذریعہ اپنائے گئے۔ظاہر کرتا ہے۔یہ سب ایغور مسلم خواتین کیلئے دور کا خواب ہے۔انہیں ناقابل برداشت ایذا سہنے کیلئے مجبور کیا جاتا ہے۔جسے نسل کشی مانا گیا ہے۔لیکن ان سب کیلئے چینی حکومت کی طرف سے مخالفت کی آواز دبانے کیلئے اجازت ہے۔یہ نہیں کہا جا سکتا بھارتی سماج تمام طبقے کیلئے بہتر ہے۔اس کی اپنی خامیاں ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی مخصوص طبقے کی خواتین کے تئیں ناانصافی پر مبنی ہے۔بھارت میں خواتین کے خلاف جرائم کا تعلق کسی مخصوص مذہب یا طبقے سے نہیں ہے۔ان جرائم کا سرکار میں مختلف سطح پر روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ایغور مسلمان خواتین کی قابل رحم حالت چینی سرکار کا اصلی چہرہ دکھاتی ہے اور ان کے نام نہاد ترقیاتی ماڈل کی خامیوں کو اجاگر کرتی ہے۔محمد جاوید نےبھارت سرکار کے ذریعہ مسلمان خواتین پر اٹھائے گئے قدموں پر سوال اٹھانے والے دانشوروں چینی سرکار کے ذریعہ ایغور مسلم خواتین پر کئے جا رہے مظالم پر سوال اٹھانے چاہئیں۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا