سیّد شیبان قادری
محلہ: دربارِ کلاں،امروہہ
ایک ایسے معاشرے میں جہاں علم و ادب کے چراغ روشن ہوں ، تخلیقات کے سوتے پھوٹتے ہوں،تنقید کا وجود ناگزیر ہے کیونکہ اس سے کھرے کھوٹے کی پہچان ہوتی ہے۔ افسوس کہ نقادان ِ فن نے دیگر اصنافِ ادب کی طرح اسے بھی اپنے جارحانہ رویے کا شکار بنادیا۔ خودفریبی کے شوق میں مبتلا ہوکر انھوں نے تنقید کو متعدد خانوں میں بانٹ دیا۔ ہر نقاد اپنے آپ کو ایک الگ طرزِ تنقید کا موجد قرار دیتے ہوئے فن پاروں کا یوں تجزیہ کرتاہے جیسے سرجن مریض کا آپریشن کررہاہو۔ اگر تنقید نگار کسی کا مداح ہے تو اپنے زورِ قلم سے بیمار فن پارے کو صحت بخشتاہے ، اسے شاہکار بناکر پیش کرتا ہے اور اس کے اندر وہ خوبیاں تلاش کرتاہے جو کبھی فن کار کے تصور میں بھی نہ آئی ہوں گی۔ اگر تنقید نگار کسی پر ادھار کھائے بیٹھا ہے تو سمجھئے اس کی خیر نہیں ۔ وہ تنقیدکی تیز چھری سے اس کے فن پارے کاایسے تجزیہ کرے گا جیسے ڈاکٹر مریض کے جسم سے گلے سڑے حصوں کو کاٹ کر پھینک دیتاہے۔ وہ اس کے اندر ایسی خامیاں تلاش کرے گا کہ الامان والحفیظ ۔ غرض یہ کہ فن پارے کا بخیہ ادھیڑ دیتاہے اور یہ ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیتاہے کہ اس فن پارے کی کوئی ادبی حیثیت نہیں بلکہ وہ ادب کے نام پر ایک دھبہ ہے۔تاہم یہ عمل تمام تنقید نگاروں کا نہیں ہے بلکہ ان لوگوں کاہے جو عصبیت ، جانب داری اور گروہی سیاست کے شکار ہیں ۔ بہت سے نقاد ایسے ہیں جنھوں نے تنقیدی اصولوں کا پاس رکھتے ہوئے غیرجانب داری کے ساتھ تخلیقات کا مطالعہ کیا اور ان کی خوبیوں اور خامیوں کوآشکار کیا جس کے لئے وہ یقینا تعریف کے مستحق ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ تنقید نگاری ایک دقیق فن ہے جس کے لئے گہرا شعور ، ادبی ذوق اور ناوابستگی شرط ہے۔ تب ہی تنقید نگار صحیح معنی میں اپنا فرض انجام دے سکتاہے۔
اہم بات یہ ہے کہ تنقید میں انتہا پسندی بری شے ہے ۔ تنقید ایسی ہونی چاہئے جو ہر لحاظ سے جامع ہو اور تمام تعصبات سے بالاتر ہو۔ تنقید نگار کا فرض ہے کہ وہ پوری دیانت داری سے فن پارے کا مطالعہ کرے ، اس کی خوب و زشت کا جائزہ لے اور بے لاگ رائے دے تاکہ فن پارے کی ادبی قدروقیمت کا تعین کیاجاسکے۔ یہی تنقید کا مقصد ہے ۔
فنِ تنقید پر اردو ادیبوں نے بہت کچھ لکھاہے ۔ اس کی باضابطہ ابتدا شبلی نعمانی اور مولانا حالی سے ہوئی جنھوں نے اصول ِ تنقید کو تو مدون نہیں کیا لیکن تنقیدی نظر سے ادب کا مطالعہ ضرورکیا۔رفتہ رفتہ اصول ِ تنقید بھی مدون ہوتے گئے ۔ متعدد تنقید نگاروں نے ادبی تخلیقات کو تنقیدی نظر سے پرکھا جن میںمولوی عبدالحق ، کلیم الدین احمد، آل احمد سرور ، مجنوں گورکھپوری اور احتشام الحسن وغیرہ شامل ہیں۔ تنقید نگاروں میں سے کچھ لوگ جدید نقطہء نظر کے حامل تھے۔انھوں نے مغربی ادب کے زیر ِ اثر اردو ادب کا مطالعہ کیا۔کچھ لوگ ترقی پسندتھے اور اشترکی نقطہء نظر سے ادب کا مطالعہ کرتے تھے۔ کچھ لوگ ادب میں عصری روح اور معاشرتی افادیت پر زور دیتے تھے۔ چنانچہ آج اردو ادب میں فن پاروں پر لکھے گئے تنقیدی مضامین اور خود تنقید کے بارے میں شائع شدہ مواد کی کوئی کمی نہیں ۔ تاہم اس مواد میں ذاتی احساسات کا کچھ زیادہ د خل ہے جس کی وجہ سے تنقید باہمی چپقلش کا منظرنامہ بن کر رہ گئی ہے۔
لفظِ تنقید باب ِ تفعیل کے وزن پر ہے جس سے عموما ً یہ تاثر ملتاہے کہ یہ لفظ عربی زبان کا ہے حالانکہ عربی میں تنقید نام کا کوئی لفظ نہیں بلکہ اس کے لئے نقد اور انتقاد کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں ۔ اردو والوں نے ان کی رعایت سے تنقید کا لفظ وضع کرلیا جو اب اتنا رائج ہوگیاہے کہ اس کی جگہ نقد اور انتقاد کے الفاظ اجنبی سے لگتے ہیں ۔
تنقید کے لغوی معنی دقیقہ سنجی، نکتہ چینی اور حرف گیری کے ہیں لیکن ادبی اصطلاح میں اس کا مطلب ہے نظم و نثر کا بغور جائزہ لینا اور ان کے عیوب و محاسن کو اجاگرکرنا۔ بالفاظِ دیگر تنقید وہ کسوٹی ہے جس پر فن پارے کو کساجاتاہے اور اس کی ادبی قدروقیمت کا تعین کیاجاتاہے۔ بقولِ پروفیسر آل احمد سرور :
’’تنقید وضاحت ہے ، تجربہ ہے ۔ تنقید قدریں متعین کرتی ہے ، ادب اور زندگی کو ایک پیمانہ دیتی ہے ، تنقید انصاف کرتی ہے ، ادنی اور اعلیٰ ، جھوٹ اور سچ ، پست اور بلند کے معیار قائم کرتی ہے۔ تنقید ادب میں ایجاد کرنے اور محفوظ رکھنے کا کام انجام دیتی ہے۔ وہ بت شکنی بھی کرتی ہے اور بت گری بھی۔ تنقید کے بغیر ادب ایک ایسا جنگل ہے جس میں پیداوار کی کثرت ہے موزونیت اور قرینے کا پتہ بھی نہیں‘‘۔
آخر میں صرف اتنا ہی کہنا چاہونگا کہ تنقید کے متعلق یہ کہنا غلط ہے کہ وہ صرف عیب جوئی یا نکتہ چینی ہے بلکہفی الحقیقت وہ فن و ادب کے احتساب کا نام ہے۔ تاہم اسے کسی مخصوص ازم سے وابستہ کرنا یا ایک مخصوص زاویہء نگاہ سے تخلیقات کو پرکھنا غیرجانب دارانہ شان کے خلاف ہے کیونکہ تنقید مسلمہ اصولوں کا وہ پیمانہ ہے جس کے ذریعے کلامِ موزوں اور غیر موزوں کے عیوب و محاسن کو جانچا جاتاہے تاکہ ادب کے نام پر ماضی میں جو کچھ تخلیق کیاجاچکاہے یا حال میں تخلیق کیاجارہاہے اس کی فنکارانہ اہمیت کو پوری دیانت داری سے اجاگر کیاجاسکے ۔
٭٭٭
Mbl No:- 8958472872
محلہ: دربارِ کلاں،امروہہ
ایک ایسے معاشرے میں جہاں علم و ادب کے چراغ روشن ہوں ، تخلیقات کے سوتے پھوٹتے ہوں،تنقید کا وجود ناگزیر ہے کیونکہ اس سے کھرے کھوٹے کی پہچان ہوتی ہے۔ افسوس کہ نقادان ِ فن نے دیگر اصنافِ ادب کی طرح اسے بھی اپنے جارحانہ رویے کا شکار بنادیا۔ خودفریبی کے شوق میں مبتلا ہوکر انھوں نے تنقید کو متعدد خانوں میں بانٹ دیا۔ ہر نقاد اپنے آپ کو ایک الگ طرزِ تنقید کا موجد قرار دیتے ہوئے فن پاروں کا یوں تجزیہ کرتاہے جیسے سرجن مریض کا آپریشن کررہاہو۔ اگر تنقید نگار کسی کا مداح ہے تو اپنے زورِ قلم سے بیمار فن پارے کو صحت بخشتاہے ، اسے شاہکار بناکر پیش کرتا ہے اور اس کے اندر وہ خوبیاں تلاش کرتاہے جو کبھی فن کار کے تصور میں بھی نہ آئی ہوں گی۔ اگر تنقید نگار کسی پر ادھار کھائے بیٹھا ہے تو سمجھئے اس کی خیر نہیں ۔ وہ تنقیدکی تیز چھری سے اس کے فن پارے کاایسے تجزیہ کرے گا جیسے ڈاکٹر مریض کے جسم سے گلے سڑے حصوں کو کاٹ کر پھینک دیتاہے۔ وہ اس کے اندر ایسی خامیاں تلاش کرے گا کہ الامان والحفیظ ۔ غرض یہ کہ فن پارے کا بخیہ ادھیڑ دیتاہے اور یہ ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیتاہے کہ اس فن پارے کی کوئی ادبی حیثیت نہیں بلکہ وہ ادب کے نام پر ایک دھبہ ہے۔تاہم یہ عمل تمام تنقید نگاروں کا نہیں ہے بلکہ ان لوگوں کاہے جو عصبیت ، جانب داری اور گروہی سیاست کے شکار ہیں ۔ بہت سے نقاد ایسے ہیں جنھوں نے تنقیدی اصولوں کا پاس رکھتے ہوئے غیرجانب داری کے ساتھ تخلیقات کا مطالعہ کیا اور ان کی خوبیوں اور خامیوں کوآشکار کیا جس کے لئے وہ یقینا تعریف کے مستحق ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ تنقید نگاری ایک دقیق فن ہے جس کے لئے گہرا شعور ، ادبی ذوق اور ناوابستگی شرط ہے۔ تب ہی تنقید نگار صحیح معنی میں اپنا فرض انجام دے سکتاہے۔
اہم بات یہ ہے کہ تنقید میں انتہا پسندی بری شے ہے ۔ تنقید ایسی ہونی چاہئے جو ہر لحاظ سے جامع ہو اور تمام تعصبات سے بالاتر ہو۔ تنقید نگار کا فرض ہے کہ وہ پوری دیانت داری سے فن پارے کا مطالعہ کرے ، اس کی خوب و زشت کا جائزہ لے اور بے لاگ رائے دے تاکہ فن پارے کی ادبی قدروقیمت کا تعین کیاجاسکے۔ یہی تنقید کا مقصد ہے ۔
فنِ تنقید پر اردو ادیبوں نے بہت کچھ لکھاہے ۔ اس کی باضابطہ ابتدا شبلی نعمانی اور مولانا حالی سے ہوئی جنھوں نے اصول ِ تنقید کو تو مدون نہیں کیا لیکن تنقیدی نظر سے ادب کا مطالعہ ضرورکیا۔رفتہ رفتہ اصول ِ تنقید بھی مدون ہوتے گئے ۔ متعدد تنقید نگاروں نے ادبی تخلیقات کو تنقیدی نظر سے پرکھا جن میںمولوی عبدالحق ، کلیم الدین احمد، آل احمد سرور ، مجنوں گورکھپوری اور احتشام الحسن وغیرہ شامل ہیں۔ تنقید نگاروں میں سے کچھ لوگ جدید نقطہء نظر کے حامل تھے۔انھوں نے مغربی ادب کے زیر ِ اثر اردو ادب کا مطالعہ کیا۔کچھ لوگ ترقی پسندتھے اور اشترکی نقطہء نظر سے ادب کا مطالعہ کرتے تھے۔ کچھ لوگ ادب میں عصری روح اور معاشرتی افادیت پر زور دیتے تھے۔ چنانچہ آج اردو ادب میں فن پاروں پر لکھے گئے تنقیدی مضامین اور خود تنقید کے بارے میں شائع شدہ مواد کی کوئی کمی نہیں ۔ تاہم اس مواد میں ذاتی احساسات کا کچھ زیادہ د خل ہے جس کی وجہ سے تنقید باہمی چپقلش کا منظرنامہ بن کر رہ گئی ہے۔
لفظِ تنقید باب ِ تفعیل کے وزن پر ہے جس سے عموما ً یہ تاثر ملتاہے کہ یہ لفظ عربی زبان کا ہے حالانکہ عربی میں تنقید نام کا کوئی لفظ نہیں بلکہ اس کے لئے نقد اور انتقاد کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں ۔ اردو والوں نے ان کی رعایت سے تنقید کا لفظ وضع کرلیا جو اب اتنا رائج ہوگیاہے کہ اس کی جگہ نقد اور انتقاد کے الفاظ اجنبی سے لگتے ہیں ۔
تنقید کے لغوی معنی دقیقہ سنجی، نکتہ چینی اور حرف گیری کے ہیں لیکن ادبی اصطلاح میں اس کا مطلب ہے نظم و نثر کا بغور جائزہ لینا اور ان کے عیوب و محاسن کو اجاگرکرنا۔ بالفاظِ دیگر تنقید وہ کسوٹی ہے جس پر فن پارے کو کساجاتاہے اور اس کی ادبی قدروقیمت کا تعین کیاجاتاہے۔ بقولِ پروفیسر آل احمد سرور :
’’تنقید وضاحت ہے ، تجربہ ہے ۔ تنقید قدریں متعین کرتی ہے ، ادب اور زندگی کو ایک پیمانہ دیتی ہے ، تنقید انصاف کرتی ہے ، ادنی اور اعلیٰ ، جھوٹ اور سچ ، پست اور بلند کے معیار قائم کرتی ہے۔ تنقید ادب میں ایجاد کرنے اور محفوظ رکھنے کا کام انجام دیتی ہے۔ وہ بت شکنی بھی کرتی ہے اور بت گری بھی۔ تنقید کے بغیر ادب ایک ایسا جنگل ہے جس میں پیداوار کی کثرت ہے موزونیت اور قرینے کا پتہ بھی نہیں‘‘۔
آخر میں صرف اتنا ہی کہنا چاہونگا کہ تنقید کے متعلق یہ کہنا غلط ہے کہ وہ صرف عیب جوئی یا نکتہ چینی ہے بلکہفی الحقیقت وہ فن و ادب کے احتساب کا نام ہے۔ تاہم اسے کسی مخصوص ازم سے وابستہ کرنا یا ایک مخصوص زاویہء نگاہ سے تخلیقات کو پرکھنا غیرجانب دارانہ شان کے خلاف ہے کیونکہ تنقید مسلمہ اصولوں کا وہ پیمانہ ہے جس کے ذریعے کلامِ موزوں اور غیر موزوں کے عیوب و محاسن کو جانچا جاتاہے تاکہ ادب کے نام پر ماضی میں جو کچھ تخلیق کیاجاچکاہے یا حال میں تخلیق کیاجارہاہے اس کی فنکارانہ اہمیت کو پوری دیانت داری سے اجاگر کیاجاسکے ۔
٭٭٭
Mbl No:- 8958472872
———————-