از:ڈاکٹر مفتی محمد ساجد احمد
ہما ہمی کے اس دور برق رفتاری میں بہت کچھ چھوٹ گیا ہے ،معیار،اصول وضوابط،قانون وقاعدہ کی پابندی ،تعلقات ،رشتے اور ناطے انحطاطی دور کے شکار ہوگئے ہیں،اہمیت وافادیت ،اقدار وروایات ،تعظیم وتوقیر کا معیار واسلوب بدل چکا ہے ،اب تک ایک تصویر کے دو رخ ہوتے تھے اب تو پتا نہیں کتنے رخ ہوتے ہیں،امیدیں وہم کا لباس زیب تن کرچکی ہیں ،اعتماد وبھروسہ نے اپنےاپنے طریقہ کار میں تبدیلی کرلی ہے ،دل وزباں میں اتفاق کا فقدان نظر آتاہے ،حقیقت گوئی و حقیقت شناشی دن بہ دن زوال پذیر ہوتی جارہی ہے ،مجھے لگتا ہے یہ سب کچھ خود کو اسمارٹ ،اوور کانفیڈیشیل ،انا نیت،مطلق العنانی ،ضرورت سے زیادہ خوش فہمی دیگر اور کسی نہ کسی کم زوری کی عکاسی ہوتی ہے ۔
آخر انسان جب اپنے وجود پر ایک نظر ڈال لیتا ہے تو بلا اختلاف یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہوگا کہ سوائے ولادت کے ہر قسم کی ترقی ،عزت و عظمت ،شہرت وصلاحیت ہر قسم کی میدانی ،علمی ،فکری،قلمی،عملی صلاحیتوں کے پیچھے کسی نہ کسی موثر ہستی کی دعائے سحر گاہی ،خون جگر کا نچوڑ ،دن و رات کی محنت ومشقت اور جاں فشانی کار فرما ہوتی ہے اسی موثر ہستی کو ہم اپنی زبان میں ”استاذ“سے تعبیر کرتے ہیں ،جس کی اہمیت وافادیت پر کسی ذی شعور اور صاحب عقل سلیم کو یکسر کلام کی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے ،ہر مفکر ،مدبر،محدث،مفسر حتی کہ مجدد کی بھی ابتدائی تعلیم کے دور کا مطالعہ کریں گے تو پر آپ پائیں گے کہ فلاں مجدد،محدث ۔۔کے استاذ فلاں ہیں وہیں پر آپنے ابتدائی تعلیم حاصل کی ،پھر اس طرح سے آگے کی تعلیم کا تذکرہ ہوتا ہےاور یہاں بھی استاذ ہی ہیرو ہوتا ہے، بہر حال یہ باتیں اس امر کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ استاذ بھلے ہی نہ خود مجدد ہو،محدث ومفسر ہو لیکن وہ اپنی انتھک کوششوں اور محنتوں کے ساتھ دعاؤں سے اس بندہ کو عامی زندگی سے نکال کر ،سنگ تراش کی طرح تراش کر دنیا کے سامنے ایک انمول ہیرا بنا کر پیش کرتا ہے جس کے علم وہنر ،اہمیت وافادیت کو ایک جہاں بے چوں چرا تسلیم کرنے میں تامل نہیں کرتا ہے ،لیکن مجھے حالات دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان احسانات کا بدلہ اس دور میں بہت عجیب وغریب طریقہ سے دیا جارہا ہےجیسے ایک استاذ ہیں جن کے دسترخوان کے خوشہ چیں بڑے بڑے مفتی ،محدث ومحقق گزرے ہیں اور ابھی بھی فرش گیتی کی زینت ہیں ،استاذ نہایت ہی کمال کے صاحب ادراک ،صاحب فہم فراست ہیں اور ذی علم ایسے ہیں کہ اپنے ہوں یا غیر پوری دنیا ان کی علمی حیثیت کا معترف ہے ،جب کسی مسئلہ پر کلام فرماتے ہیں تو دلائل وبراہین کی باریکیوں کے ساتھ ہر ہر جز پر کلام کرتے ہوئے مسئلہ کے ہر ہر پہلو سیر حاصل گفت گو فرماتے ہیں ،سوشل میڈیا کے اس دور میں ان کے ایک شاگرد کے فالور استاذ کو اعلیٰ صفات کی مسجع ومقفیٰ گندی گالیوں کا ہار پیش کرتے ہیں ،اس پر بھی شیخ محقق(شاگرد)اپنے استاذ پرہی متبعین کے ذریعہ کیے گئے رکیک حملوں سے نہ تو منع کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی تنبیہانہ تحریر وبیان ریکارڈ کراتے ہیں ۔
استاذ کیا کرتا ہے ؟ ایک استاذ جب کہ وہ ابھی استاذ نہیں ہوتا ہے اس سے پہلے کی لائف کے بارے میں ڈسکس کرنا اس بابت فعل عبث معلوم ہوتا ہے لیکن جب بندہ استاذ بنتا ہے اور شاگرد اس کے علم سے خوشہ چینی کرتے ہیں تو وہ استاذ صرف نوکری نہیں کرتا ہے ،وہ اس سوچ کے ساتھ آپ کی تعلیم وتربیت کررہاہے کہ آپ کا فیوچر برائٹنیس ہوجائے ،آپ ایک قابل،معاملہ فہم،سنجیدہ،محقق،مفکر،محدث، مفتی،مصلح ومبلغ بن کر قوم وملت کی راہ نمائی کریں جس سے امت مسلمہ کی دنیا و آخرت سنور جائے ،وہ صرف کتابیں نہیں پڑھاتاہے ،وہ کتاب کی شکل میں اپنی خواہشات کی قربانی ،نیند،چین وسکون کی قربانی احبا واقربا سے اتصالات وانفعالات کو ذبح کرکے ،خون جگر کتابوں کی شکل میں پلاتا ہے ۔بلا اختلاف پوری دنیا آپ سے حسد کر سکتی ہے آپ کے علم کی بنیاد پر،عزت وشہرت اور وقار کی بڑھتی ہوئی رفتار سے جلن کی آگ میں جل سکتی ہے لیکن ایک استاذ ہی ایسی ہستی ہے کہ جب وہ آپ کا علمی مقام،عزت وعظمت شہرت ورفعت کی بلندیاں دیکھتا ہے تو مارے خوشی کے پھولے نہیں سماتا ،دل کی بے پناہ گہرائیوں سے دعائیں دیتا ہے ”یا اللہ !میرے اس تراشے کو،میری اس محنت کے نتیجہ کو ،میری دعاؤں کے اس ثمرے کو ہمیشہ ہرا بھرا رکھنا،اسی طرح عزت وآبرو کی دولت بے بہا سے سرفراز فرما کر دارین کی سعادتوں سے مالال مال کرنا،آمین“یقین جانیں !وہ جس نے آپ کو پروان چڑھانے کی خاطر اپنی علمی ،فکری اور ہرممکنہ صلاحیتوں کو بروے کار لاکر آپ کو تراشااور ایک چمکتا ہوا ہیرا بنایا ،اسی نے آپ کو زبان وبیان کی طاقت قوت سے آشنا کرایا،اسی کے بتانے سے آپ کے اندر قلم کی اہمیت ،بیان کی افادیت سمجھنے کی قدرت پیدا ہوئی ،اسی استاذ نے آپ کو پیر،قطب،ابدال اورمفتی ،محدث ومفکر بنایا،اسی نے زمانہ کے نشیب وفراز سے ہم کنار کیا ،اسی استاذ نے اس لائق بنایاکہ آپ ممبر ومحراب ومصلیٰ پر یکساں کام یاب وکام راں نظر آتے ہیں،ہر میدان آپ کے ہاتھوں میں کام یابی کی ضمانت چاہتا ہے یہ کمال اگر کسی نے آپ کو دیا تو وہ استاذ ہی کی نادرالمثال ہستی ہے جو خود تو بادشاہ نہیں ہوتا لیکن شاگرد کو بادشاہ بنادیتا ہے ۔لیکن واہ رے گردش ایام !تیری بھی رنگینیوں کا کہنا!اپنے دامن میں ایسے نہ اہل لوگوں کو بہت کشادہ دلی کے ساتھ پناہ دی جو ۸؍۸؍سال ۹؍۹؍سال ایک استاذ کی درس گاہ سے علم وعمل، فضل وکمال حاصل کر جب اعلیٰ تعلیم یا عصری تعلیم کے لیے یونیورسٹیز میں پہنچتے ہیں تو اسی استاذ پر لعن طعن وتشنیع کرنے میں اور مدارس کو متہم کرنے میں اپنی سعادت مندی وفیروز بختی تصور کرتے ہیں ،اتنے گھناؤنے جملے ”ارے یہ مولوی لوگ ہیں ،یہ صرف قال ضرب ہی تک رہ جائیں گے ،ان کے یہاں کوئی فیوچر پلان نہیں ہے،یہ ہم کو تو صرف چہار دیواری میں قید کرکے رکھنا چاہتے تھے اب پتا چلا ہے کہ حقیقت کیا ،اللہ ان مولویوں کی مولیت سے بچائے “ان جملوں کی ادائیگی کے وقت ذرا سوچیں کہ آپ کیا اور کس کو کہہ رہے اور یہ جملے آپ کی عقل وفہم کے کورے ہونے پر کس قدر دلالت کررہے ہیں ،اساتذہ ہی ہیں جو تمام باطل پرست طاقتوں کی سازشوں کو بے نقاب کرسکتے ہیں ،یہی وہ نفوس قدسیہ ہیں جو ہر محاذ پر ہر طرح کے قائدین کو پروان چڑھاتے سکتے ہیں لہٰذا پوری خندہ پیشانی کے ساتھ ،خوش دلی سے اپنے استاذہ سے پیش آئیں اور ان کو ایک نعمت سمجھیں ،ہماری ذلت کے اسباب وعلل میں سے ایک بہت بڑی علت یہ بھی ہے کہ ہم اپنے اساتذہ کے تعلق سے بد گمان ہوگئے نتیجۃ وہ کبیدہ خاطر ہوگئے اور اب رفتہ رفتہ لوگ اس میدان سے ہی منہ موڑنے لگے جس کا ریزلٹ یہ ہے کہ اس وقت درس گاہیں ذی علم لوگوں سے خالی ہوتی جا رہی ہیں ۔۔ہمیں ضرور یاد ماضی کے صفحات سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔