عنا پرستی اور حق پرستی

0
0

تحریر : صداقت علی ملک

عنا پرستی اور حق پرستی دو الگ پہلو ہیں ؛ کبھی كبهار ان دونوں متضاد پہلوں میں فرق معلوم کرنے میں کوتاہی برتی جاتی ہے! خودی کی تلاش میں انسان اور اپنی بات حقیقی معنوں میں رکھنے، اجتمایت اور ہمہ گیر ترقی کے لیے مفاد کے حصول کو بالا تر رکھ کر بے لوث ذندگی گزارنے کا نام حق پرستی میں شامل ھو! کسی بھی تنظیم کی بقا کے لیے مشورے کی ضرورت لا حق ہوتی ہے جسکے ہر کارکن مجلس شوریٰ کے بنیادی ستون ہوتے ہیں، جیسے کنبعے کے ہر فرد کو یہ حق حاصل ھوتا ہے کہ وہ اسکے فلاح کے لیے از سر نوح تشکیل و تکمیل تک اپنا کلید ی کردار ادا کرے۔ اسکے لیے یکساں سلوک اور نمایاں کردار ادا کرنا لازمی ھوتا ہے۔

انفرادیت غرور اور خود غرضی کے برابر نہیں ہے۔ کوئی شخصی شخصیت کو بچا سکتا ہے لیکن مغروریت سے آزاد ہوسکتا ہے۔ لہذا ، ایک مضبوط آزاد انسان عام فلاح و بہبود کے لئے وقف کر سکتا ہے۔ حقیقی انفرادیت دراصل انسان کے اعلی شعور میں رہتی ہے جہاں بہترین شعور اجتماعی شعور کے ساتھ مل جاتا ہے۔ روح ، ایک ہی وقت میں ، خود بھی اور تمام دوسرے بھی۔ اعلی شعور میں اتحاد و انفرادیت کا کامل امتزاج ہے۔ خودی اور انا بھی اسی طرح سے دو الگ پہلو ہیں جنکے سمجھنے کے لیے اہل نظر لوگ کافی ہوتے ہیں۔

وہ "میں” جس کو مارنے کا کہا جاتا ہے اس کا دوسرا نام انا ہے۔ جس کو انگریزی میں ایگو کہتے ہیں۔ اور عربی میں بھی جب اپنی ذات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہو تو انا کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے۔ یعنی میں۔۔۔ بذات خود۔۔۔

میں اور خودی :

انا“ یعنی سیلف انسان کو خود پرست بناتی ہے۔ مغرور کر دیتی ہے۔ ”انا“ کے باعث انسان خود کو برتر اور دوسرے کو کم تر سمجھتا ہے۔ کسی بھی معاملے میں خود کو ہمیشہ درست اور دوسرے کو غلط قرار دیتا ہے۔ یہی ”انا“ ہے۔ جو معاشرتی اور گھریلو نااتفاقیوں اور جھگڑوں کو جنم دیتی ہے۔ کوئی کسی کے آگے جھکنا اپنی توہین سمجھتا ہے۔ یوں سب اپنی جگہ پر اکڑے کھڑے رہتے ہیں اور فاصلے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ یہ انا اور غرور ہی تھا جس نے ابلیس کو حکم عدولی کی جرات دی۔ ابلیس کی ”میں“ غالب آئی اور وہ اکڑ گیا لیکن چونکہ خدائے بزرگ و برتر کو انا اور غرور سخت ناپسند ہے۔ اسی لئے اسے شیطان بنا ڈالا۔جہاں تک بات ہے ”خودی“ کی توخودی دراصل خود شناسی کا نام ہے۔ خود کو جاننا سمجھنا۔ اپنی ذمہ داریوں اور اپنے فرائض سے آگاہ ہونا۔ اپنی طاقتوں‘ صلاحیتوں اور اختیارات کو جاننا اور استعمال کرنا اور اپنی حدود کا تعین کرنا ۔ اسی خودی کا ذکر اقبال کے ہاں بہت واضح طور پر ملتا ہے۔ اسی خودی کا ذکر دیگر کئی بزرگوں نے بھی کیا۔خودی دراصل اسی عظمت کا نام ہے جس نے انسان کو اشرفیت بخشی اور وہ تمام دیگر مخلوقات سے بلند تر اور افضل قرار پایا۔

علامہ اقبال نے نوجوانوں کو خودی کا پیغام دیا اور فرمایا کہ نوجوان خود شناسی سے خدا شناسی کا سفر طے کریں، اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کریں اور بڑے قومی مقاصد کے لیے اپنے آپ کو دوسروں پر غالب کرنے کی کوشش کریں اور اپنے سماج سے ہر قسم کی برائی کو ختم کرکے ایک مثالی معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کریں جس میں امن سلامتی برداشت رواداری اور اخوت‘ سخاوت اور محبت جیسی خوبیاں موجود ہوں۔ . بقول اقبال رح

کبھی اے نوجواں مسلم! تدبّر بھی کِیا تُو نے
وہ کیا گردُوں تھا تُو جس کا ہے اک ٹُوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبّت میں
کُچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِ دارا
تمدّن آفریں، خلاّقِ آئینِ جہاں داری
وہ صحرائے عرب یعنی شتربانوں کا گہوارا

ریفرنس : اقبالیات”

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا