یواین آئی
سرینگر؍؍تین افراد کا کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کے باوصف متحدہ عرب امارات سے لاکر یہاں ایک ہوٹل میں رکھے گئے زائد از ایک سو لوگوں کو ایک ہفتے تک کورونٹائن میں رکھنے کے بجائے چھ دنوں کے بعد ہی نیا ٹیسٹ کئے بغیر اپنے اپنے گھروں کو روانہ کیا گیا ہے جبکہ دبئی سے لوٹنے والے زائد از بیس لوگوں کو دو دنوں تک ہی ایک ہوٹل میں کورنٹائن کرنے کے بعد گھر بھیج دیا گیا ہے۔رپورٹس کے مطابق کورونا کے پیش نظر عالمی سطح پر ہوائی ٹریفک معطل ہونے کے بعد متحدہ عرب امارات میں جموں وکشمیر کے درماندہ ہوئے قریب ڈیڑھ سو لوگوں کو ایک خصوصی جہاز کے ذریعے 22 مئی کو سری نگر لایا گیا تھا۔ امیگریشن لوازمات کی ادائیگی اور کورونا ٹیسٹ کرنے کے بعد ان لوگوں، جن میں عمر رسیدہ افراد، حاملہ خواتین اور بچے بھی شامل تھے، کو چودہ روزہ انتظامی کورنٹائن میں جانے کو کہا گیا تھا۔دبئی سے اپنی اہلیہ، بیٹی اور ننھی نواسی کے ہمراہ لوٹنے والے بشیر احمد نامی ایک شخص نے یو این آئی کو بتایا کہ ہم نے ہوائی اڈے پر عمر رسیدہ افرا، خواتین چھوٹے بچے ساتھ ہونے کے پیش نظر حکام سے ہوم کورنٹائن میں رکھنے کی اپیل کی تھی لیکن انہوں نے ہماری اس اپیل کو رد کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ ایئر پورٹ سے بشمبر نگر میں واقع ممتا ہوٹل میں پہنچنے کے لئے بزرگ افراد کو بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ایس آر ٹی سی گاڑیوں میں انہیں سامان رکھنے میں کسی نے کوئی مدد نہیں کی۔موصوف شہری نے بتایا کہ ہوٹل میں کمرے گندے تھے اور وہاں صحت وصفائی کا کوئی انتطام ہی نہیں تھا۔ہوٹل ممتا میں کورنٹائن میں رکھے گئے دوسرے لوگوں نے بھی ایسے ہی تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ‘یہاں کے ہوٹل عملہ کا کہنا ہے کہ انہیں کمروں میں داخل نہ ہونے کی ہدایات دی گئی ہیں’۔دبئی سے واپس لوٹنے والے ایک شخص نے بتایا کہ ہمیں ایک ہوٹل میں کورنٹائن میں دو دنوں تک رکھنے کے بعد ہوم کورنٹائن میں جانے کے لئے گھر روانہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ ایک ہفتے تک کورنٹائن میں رکھنے کی ہدایایت ہونے کے باوجود ہمیں دو دنوں کے بعد ہی گھر کیوں بھیج دیا گیا۔موصوف نے بتایا کہ دبئی سے لوٹنے والے تین لوگوں کے ٹیسٹ 24 مئی کو مثبت آئے جنہیں تین دیگر لوگوں جو ان کے کمرے میں تھے، کے ساتھ وہاں سے اٹھایا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک سینئر صحافی سمیت آدھ درجن لوگوں کے ٹیسٹ رپورٹ غائب ہیں اور ضلع مجسٹریٹ کے دفتر کے ساتھ رابطہ کرنے کے باوجود بھی ان کے نئے ٹیسٹ بھی نہیں کئے جارہے ہیں۔موصوف نے بتایا کہ ہماری حیرانگی کی اس وقت کوئی حد نہیں رہی جب 28 مئی کی شام کو منفی ٹیسٹ آنے والے سبھی لوگوں کو چھ دنوں کے بعد ہی نئے ٹیسٹ کئے بغیر ہی گھر جانے کو کہا گیا تاہم کئی لوگوں اور ہوٹل عملے نے پرائیویٹ کلینکوں اور ایس ایم ایچ ایس ہسپتال میں ٹیسٹ کرائے۔انہوں ںے کہا کہ جب کسی علاقے میں کسی شخص کا ٹیسٹ مثبت آتا ہے تو پورے علاقے کو ریڈ زون قرار دیا جاتا ہے اور اس علاقے میں تمام تر سرگرمیوں کو محدود کیا جاتا ہے تو ایک ہی ہوٹل میں رکھے گئے لوگوں جہاں تین کا ٹیسٹ مثبت آیا ہو ، کو کیسے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ڈاکٹر حسن نے کہا کہ ہوٹل ممتا میں کورنٹائن میں رکھے گئے سینئر صحافی کو نو دنوں تک انتظامی کورنٹائن میں رکھنے کے بعد چودہ روزہ ہوم کورنٹائن میں جانے کو کہا گیا ہے جو ایک مجرمانہ حرکت ہے اور جو لوگ نئے ٹیسٹ کرنے کے بغیر ہی لوگوں کو گھر جانے کی اجازت دیتے ہیں ان کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہئے۔ملک کے مختلف حصوں سے لائے گئے یہاں مختلف کورنٹائن سینٹروں میں رکھے گئے لوگوں نے بھی ان مراکز میں بنیادی سہولیات کے فقدان کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں گھر جانے کے لئے خود ہی ٹرانسپورٹ کا بند وبست کرنے کو کہا گیا۔انہوں نے کہا کہ کورنٹائن مراکز میں کھانے کا بندوبست تسلی بخش نہیں تھا اور بعض سینٹروں میں لوگوں کو دیا جانے والا کھانا غیر معیاری تھا۔لوگوں کی شکایت ہے کہ پہلے کورنٹائن میں رکھے گئے لوگوں کے لئے مناسب اور بھر پور طعام کا انتظام ہوتا تھا لیکن بعد میں اس میں کمی لائی گئی۔دریں اثنا ڈاکٹرس ایسوسی ایشن کشمیر کے صدر ڈاکٹر نثار الحسن کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر میں انتظامی کورنٹائن سے زیادہ نقصان ہی ہورہا ہے کیونکہ اس میں سماجی دوری کا کوئی خیال نہیں رکھا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جن لوگوں کے ٹیسٹ رپورٹ آنے باقی ہیں انہیں علاحدہ رکھا جانا چاہئے اور اگر ایک کورنٹائن میں کسی شخص کا ٹیسٹ مثبت آئے تو اس سینٹر کے تمام لوگوں کا ٹیسٹ کیا جانا چاہئے۔