*کروناوائرس کے زمانہ میں میں مسلمانوں کا برادران وطن کے ساتھ بلند اخلاقی سے پیش آنا تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی عکاسی ہے*

0
0

✍🏻 از قلم: عبدالرحمن چمپارنی

اسلام ابد ی اورخدا کا پسندیدہ دین اور امت مسلمہ اس کا شاداب اور سدا بہار درخت ہے، اسلام کی تعلیم اعلی اور پاکیزہ ہے، مریضوں کی عیادت کرنا ، بھوکوں کو کھانا کھلانا راہ بھٹکے ہوئے کو اس کی صحیح رہنمائی کرنا اور اس کی منزل مقصود سے آگاہی کرنا،دوسروں کی تکالیف کو اپنی تکلیف گردانا اور برابر کا شریک ہونا بلاتفریق مذہب و ملت، یہ اسلام کا وہ روشن اور تابندہ پہلو ہے، جسے اہل اسلام تو مانتے ہی ہیں، غیر بھی اس سے بہ خوبی واقف ہیں ، وہ جانتے ہیں کہ مسلمان اچھے اخلاق اور بلند سوچ کے حامل ہوتے ہیں، مذکورہ صفات حمیدہ تغلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ پہلو ہیں، جس سے متاثر ہو کر نہ معلوم کتنے آتش پرست اورحجر پرست ایک خدا کے سامنے سربسجود ہوئے اور مسلمان کہے جانے لگے اور اسلام کو مرتے دم تک اپنے سینے سے لگاے رکھا-
اس زمانے میں جب ہندوستان میں کرونا وائرس کا قہر عذاب الٰہی یا امتحان خداوندی کہیے جو ایک لہر بن کر دورڑ اٹھی ، کتنے لوگوں نے اپنے جان جان آفریں کے حوالے کر دیا اور نہ معلوم مزید کتنے اس کے زد میں آئیں ،اور کتنے ہی متاثرہو، اللہ ہی حفاظت فرمائے آمین
بعض شرپسند عناصر نے کروناوائرس کا ذمہ دار مسلمانوں اور تبلیغی جماعت کو ٹہرایا اور میڈیا نے بھی خوب زہرافشانی کی اسلام اور مسلمانوں کو کو اپنا ٹارگٹ بنایا، اور کسی طرح انہیں بد نام کرنا چاہا، مختلف مقامات پر یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ بڑے بڑے بی جے پی کے نیتا ہندوتوا ذہن کے لوگوں نے مسلمانوں سے سماجی و معاشرتی بائیکاٹ کرنے کا کھلے لفظوں میں اعلان کیا اور مسلمانوں کو ذہنی اور جسمانی اذیتیں پہونچائیں، بعض مقامات پر یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ سبزی فروش غریب مسلمانوں کو جو گاؤں اور شہروں کی گلیوں میں جاکر سبزی فروخت کرکے اپنے روزی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں، اور پھر اپنا گھر چلاتے ہیں، ان پر ظلم کی انتہا نہیں رہی، ان کو زد کوب کیا گیا، اور اپنے محلوں میں آنے پر پابندی لگادی گئی یہ الزام لگا کر کے مسلمان کرونا پھیلا رہے ہیں، بعض جگہوں پر یہ بھی دیکھنے کو ملا کے ٹھیلے اور دکانوں پر بھگواجھنڈے نصب کر دیئے گئے تاکہ علامت دیکھ کر سامان خریدیں اور پورے طور پر مسلمانوں کا بائیکاٹ ہو نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ مسلمانوں کو اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے دفاع میں کذب بیانی سے کام لینا پڑا ،سبزی فروشوں کو اپنا آدھاڑ کارڈدیکھانا پڑا ،چنانچہ کبھی ان کو عوام کے سامنے تو کبھی ان کی اولاد کے سامنے ذلیل کیا گیا، مسلمانوں میں بیمار لوگ کے مرض کی تشخیص اور اس کے علاج و معالجہ میں تعصب پسندی سے کام لیا گیا ، حدتو اس وقت ہوگی جب ڈاکٹروں نے بھید بھاؤ سے کام لیا مسلمان مریضوں کو یوں ہی چھوڑ دیا گیا اور ان مریضوں کی موت بھی ہوگئی ،چند ایک کو اخبارات کی روشنی میں ذکر کیا جاتا ہے ملاحظہ ہو !
*مسلم حاملہ کو اسپتال میں داخل ہونے سے منع کردیادیا گیا*
15 /اپریل2020ء کو راجستھان کے بھرتپور ضلع کے بیلا نگر گاؤں کے باشندے عرفان اپنی بیوی کی ڈلیوری( delevri ) کرانے کے لیے شہر کے زنانہ اسپتال میں آیا تھا ،اسپتال میں ڈیوٹی پر تعینات ڈاکٹر مونت والیا نے خاتون کو بغیر دیکھے جئے پور منتقل کر دیا راستے میں خاتون پروینہ کو درد زہ ہوا ،اور ایمبولینس میں خاتون نے بچے کو جنم دیا، دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے سے نوزائیدہ کا انتقال ہوگیا ، خاتون کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ مسلم ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر نے ایسا کیا ،

*دیکھیے : (اخبار ) انقلاب، نئی دہلی، (میرٹھ ) 6/اپریل 2020 ء بہ مطابق 11/شعبان المعظم 1441 ھج جلد نمبر 8 شمارہ نمقصباخلاق
*ہلدوانی میں مسلم فروش کی دکان جبری طورپر بند کرا دی گئی*
9/اپریل 2020 کو ہلدوانی اتراکھنڈ میں ایک مسلم فروش کے قصبے میں تبلیغی جماعت کے پانچ اراکین میں کرونا کی تصدیق ہوئی تھی، تو اس قصبہ کے چند شر پسند عناصر پولیس کے تحقیق کےمطابق *منیش کھٹی ،کمل نیگی،منوج سنگھ،ہریندرگوسوامی ،راکیش تپولااور چمن گوسوامی**نے پھل فروش کے دوکان کو بند کرا دی اور کرونا وائرس کی وبا ختم ہونے سے پہلے دوکان کھولنے کی دھمکی دی- *دیکھیے اخبار ( انقلاب ) جمعہ ، 10/ اپریل،2020ء 15/شعبان المعظم 1441ھج جلد نمبر 8 شمارہ نمبر /63*

اخبار کے ان سطروں سے سے یہ خو ب واضح ہوگیا کہ دور حاضر میں جب ہمارا ملک ہندوستان کرونا وائرس جیسے مہلک بیماری سے دوچار ہو رہا ہے، تو وہی نفرت کا وائرس پھیلا کر اسلام اور اس کے ماننے والوں کو کس طرح بد نام کرنے کے سازشیں رچی جارہی ہیں، بےچارے مسلمان ہراساں ہو رہے ہیں، خاص طور پر و ہ غریب مسلمان جن کا گزر بسر روزینہ کی کمائی پر ہوتا ہے جو کہ سبزی اور پھل بیچ کر اپنے بچوں کا پیٹ بھر تے ہیں ، خدا کی زمین اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود مسلمانوں پر تنگ ہورہی ہے،
لیکن دیکھیئے مسلمانوں نے اس کا کیا کیسا بدلہ دیا عادت اور اپنی پہچان کے مطابق اخلاق حسنہ کا نمونہ پیش کیاکہ اپنے غیر بھی سوچنے پر مجبور ہوجائے، جب ہمارے ملک میں کرونا کا وجود برائے نام تھا،اس سے بچاؤ کے لئے لاک ڈاؤن لگایا گیا اچانک لاک ڈاؤن کی وجہ سے مرکز نظام الدین میں تقریبا دو ہزار/2000 لوگ پھنس گئے، وزیراعظم کے بقول *”جو جہاں ہیں وہیں رہیں”* پر عمل کی وجہ سے نظام الدین مرکز سے کوئی روانہ نہیں ہوسکے، اچانک لاک ڈاؤن کی وجہ سے اس سے نکلنے کا اور اپنے وطن جانے کا راستہ نہیں تھا، اب اس کے بعد کیا ہوا؟ سوچ سے پرے ہوا مسلمانوں پر الزام تراشی کر کے جھوٹ پھیلا کر اور مرکز میں چھپا ہوا بتا کر مسلمانوں کو بدنام کیا گیا اور اس کے بعد اس وباء یعنی کرونا وائرس کے پھیلانے کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھرا دیا گیا،جو نہیں ہونا چاہیے تھا وہ سب کچھ ہوا،لیکن جب ہم مسلمانوں طرف نظر کرتے ہیں ،اور ان کے احوال وکوائف کی طرف نظر کرتے ہیں اور ان کے اپنےبرادران و وطن کےتئیں برتاؤ دیکھتے ہیں تو وہ اخلاق نبوی سے شرسار نظر آرہےہیں، جس کے معترف ہندوستانی دانشوران برادران وطن بھی ہیں ، چنانچہ مسلمانوں کے اخلاق سے لبریز ان گنت واقعے اس لاک ڈاؤن میں پیش آئے، جہاں مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی مہم چلائی گئیں، چنا نچہ بہت سارے مسلمانوں کو ستایا گیا، لاک ڈاؤن کی آڑ میں سی اے اے این آر سی اور این پی آر کے تحت آواز بلند کرنے والے مسلم نوجوانوں اور جامعہ ملیہ کہ طلبہ و طالبات کو پس دیوار زنداں کیا گیا اور طرح طرح سے زد کوب کیا گیا، بہن صفورا زرگرجو کہ تین ماہ کے حاملہ ہیں، دہلی فساد کا ملزم ٹھہرا کر تہاڑ جیل کے حوالہ کر دیا گیا، سب کو مسلمان برداشت کرکے اخلاق نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا منہ توڑ جواب دے رہے ہیں ، کبھی تبلیغی جماعت سے وابستہ حضرات از خود پلازمہ دے رہے ہیں اور برادران وطن کے بہت سے عروق مردہ میں زندگی کی روح پھونک رہے ہیں، تو بہت سے مسلمان برادران وطن کے جو کرونا وائرس کےچپیٹ میں آکر اپنا جان گنوا دیے ان کا انتم سنسکار یعنی آخری رسومات ادا کر رہے ہیں، اور اعزاء واقارب کروناوائرس کے خوف سے اپنے رشتہ داروں کے قریب بھی نہیں ہورہے ہیں، بلکہ ان سے دوری میں خیرسمجھ کر تماشا بینی کر رہے ہیں، اس وقت مسلمان برادران وطن کے ساتھ بلند اخلاقی سے پیش آرہے ہیں سوشل میڈیا پر یہ دیکھنے میں آیا ہے جو اپنے وطن مالوف پیدل یا گاڑی کے ذریعے جارہے ہیں، تو ان کے کھانے پینے کا نظم و نسق کررہے ہیں،اور ان کی خبرگیری بھی کر رہے ہیں ، بعض جگہوں پر ایسے بھی واقعے پیش آیا جس سے دل دہل جاتا ہے اور اسلام اور اس کے ہمہ گیر تعلیم واضح ہونے لگتی ہے، کہ اسلام میں انسانی ہمدردی کا مقام بہت بڑا ہے، اور اسلام اعلیٰ اخلاق بلند ومثبت فکر کا پیغام دیتا ہے ، جس کا اندازہ موجودہ وقت میں پیش آمدہ واقعات سے لگایاجاسکتاہے، *الہاس نگر میں کرونا متاثرہ بچے کو معذور مسلم جوڑے نے سنبھالا*
واقعہ یہ ہےایک ہفتہ قبل سمراٹ اشوک نگر میں رہنے والے 35 /سالہ خاتون کلیان کے میر اسپتال میں پیٹ کی گانٹھ کے آپریشن کے لیے داخل ہوئی تھی, آپریشن سے قبل خاتون کی رپورٹ کرونا مثبت آئی تھی، جس کے بعد الہاس نگر کے محکمہ صحت نے خاتون کے رابطے میں آنے والے پچیس/25 رشتہ داراوں کی جانچ کی کی جس میں سے گیارہ کرونا سے متاثر پائے گئے ، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ خاتون کے دو ماہ کے بچے کی رپورٹ نگیٹیو آئی ڈاکٹر نے بچے کو گھر لے جانے کا مشورہ دیا ،کرونا کے خوف سے کسی بھی رشتہ دار نے بچے کو لینے سے انکار کیا یا اس کے بعد سماج خدمتگار کار شیواجی رگڑے نے اپنے موبائل اسٹیٹس پر پر بچے کی تصویر کے ساتھ گھرآنے تک اس کی پرورش کے لئے لیے اپیل اس جذباتی اپیل پر *پر سلطان شیخ اور فرزانہ شیخ نامی معذور مسلم جوڑے نے بچے کو اپنے ساتھ رکھنے کی حامی بھر لی* اس ضمن میں سماجی خدمت گار شیواجی رگڑ نے کہاکہ متاثرہ خاتون کا کوئی بھی رشتہ دار معصوم بچے کے رکھنے کے لئے راضی نہیں ہوا تو اس وقت ایک مسلم جوڑے نے بچے کو اس کے دیکھ بھال کرنے کی ذمہ داری لی

دیکھیے:انقلاب ،ممبئی، جمعہ 15/اپریل 2020ء 21/رمضان المبارک 1441ھ

یہ ہے مسلمانوں کی بلند اخلاقی اونچاکردار اور نمایاں پہلو جس کی موجودہ دور میں اشد ضرورت ہے، یہ واقعہ عبرت انگیز سبق آموز ہے ، ہمیں اس سےسبق لینا چاہیے ،نفرت کا جواب اخوت و بھائی چارگی اور محبت وانس سے دینا چاہیے، جس سے جہاں خود اجرالہی ملے گا وہیں پر اسلام کی تعلیم آشکارا ہو گا اور یہ غیروں کے لیے چشم کشا، سبق آموز،اورراہ ہدایت پر گامزن کا سبب بنے گا انشاء اللہ!
اللہ تعالی ہمیں اس پر عمل کی توفیق نصیب فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا