قلم کار۔ چودھری ذکریا مصطفائی ترابیؔ
اہرہ بل کولگام۔۔7889864454
تیرے آنے سھ دل خوش ہوا تھا
اور ذوقِ عبادت بڑھا تھا
آہ اب دل پہ ہے غم کا غلبہ
الوع الودع ماہِ رمضان
ماہِ رمضان اپنی تمام مثال میں لا مثال مہینہ رحمتوں برکتوں کا خزینہ آج ہمارے ساتھ سال 2020 میں اپنے آخری لمحات کے ساتھ موجود ہے اور عنقریب یہ لمحے بھی بیت جائیں گے اور یہ مبارک ماہ ہم سے جدا ہو جائے گا، پھر زباں سے بڑی اداسی سے یہ فکرہ ادا ہو رہا ہو گا الودع الودع اے ماہِ رمضاں الودع، ماہِ رمضاں جب آیا تھا تو خوشیاں بانٹتا ہوا آیا تھا ہر کلی مسکرا رہی ہے ہر طرف اس کی آمد کا چرچا تھا ہو کوئی خوش خوش نظر آہا تھا، یہ یوں آیا تھا کہ ہر شخص اس کی آمد میں تمام غم بھلا بیٹھا تھا، الگ کیفیت طاری تھی دلوں، جب یہ ہمارے پاس پہنچ گیا تھا تو اس کی آمد کے ساتھ ہی نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا تھا شیطان کو زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے، غیبتیں، چغلیاں، لڑائیاں، تہمتیں، بغض، حسد، کینہ ان سب بازاروں کے دروازے بند ہو گئے تھے، معاشرہ راحت کی سانس لے رہا تھا رحمتوں کا نزول جوش و خروش کے ساتھ ہو رہا تھا، اللہ پاک نے بھی اپنی نعمتوں میں وسعت کر دئ تھی، ہر نعمت ستھر گنہ بڑا دئ تھی، جہاں اس سے پہلے ایک رحمت برستی تھی و ہاں وہی رحمت اب ستھر بار برسنے لگ گئ تھی، غریبوں کے گھروں میں بھی کھانا پکنے لگ گیا تھا، کیونکہ امیروں کو گھریبوں کی مدد پہ ہر ایک روپیے کے بدلے بارگاہِ ربُّ الانام سے 70 روپیے کا ثواب مل رہا تھا اور وہ بھی خوشی خوشی غریبوں میں اپنا رپیا تقسیم کر رہے تھے تاکہ ان کی مال میں اضافہ بھی ہو جائے اور اعمال میں روشنی بھی، مسجدوں کی رونق بڑھ گئ تھی، فضا ذکر و تلاوت اور درود و سلام کے نغموں سے گونج رہی تھی، یہ تو یہ ہماری ٹی وئ چینلز میں بھی کچھ تبدیلی آ گئ تھی جہاں سال بھی ناچ گانے بے حیائی عریانیت کو فروغ ملتا رہتا تھا وہاں اس ماہ کی برکت سے اُن کے مزاج میں بھی تبفیلی دیکھنے کو مل رہی تھی، کم سے کم مکمل دن نہیں تو سحری افطاری کے وقت اور اس کے آس پاس اکثر چینلز ناچ گانے بے حیا ویڈیو دکھانے میں شرم ضرور محسوس کر رہے تھے اور ان پہ اس ماہِ پاک میں نعت و ذکر یا بے حیائی سے پاک ویڈیو دکھائے جا رہے تھے، نوجوں نسل جن کی سوچ پہ ہمیشہ عریانیت غالب رہتی ہے، ساری سال وہ اپنے ہاتھ میں لیے موبائل فون یا لیپ ٹاپ سے یو ٹیوب یا دیگر سماجی سائٹس سے فلمیں ڈرامے گانے باجے دیکھ سن کے معذوز ہوتے رہتے کم سے کم اس ماہِ پاک میں وہ بھی احترام سے اس کام سھ اجگناب کر چکے تھے، کسی حد تک دکاندار بھی زیادہ مینگا بیچنھ میں شتم محسوس کر رہے تھے، کیوں کخ رمضان جھوٹی قزم کھا کے جھوٹی قیمت لوگوں کو بتانے میں خود کو اللہ کا چور سمجھتے تھے، ظلم و ستم کا بازار جو مکمل سال بھر گرم رہتا ہے کسی حد تک اس میں بھی دیکھنے کو کمی مل رہی تھی، ظالم بھی مظلوم کے ساتھ شفقت کا مظاہرہ کر رہا تھا، گھر گھر میں خوشی سی تھی، عبادتوں کا لطف ہر شخص لے رہا تھا، اس ان کے فیوض و برکات سے مالامال بھی ہو رہے تھے، مسجدوں سے وقت مقررہ پہ آذان کی آساز گونجتی ہوئی جو ہر کانوں سے ٹکراتی ہر شخص فورا وضوع بنا کے رب کعبہ کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتا اپنے کیے معافی مانگتے اللہ سے رحمت کا سوال کرتا، اور میرا رب بھی بندوں کی ادائیں دیکھ کے خوب خوب نوازتا الغرض اس پاک ماہ میں ہر طرح کی برائی رُک چکی تھی سکون ہی سکون تھا۔
ہائے افسوس اب جب یہ مبارک ماہِ عنقریب ہم سے رخصت لے کے جدا ہو جائھ گا پھر کیا نہیں ہوگا، مسجدیوں کی رونق نمازیوں کی آمد کم ہو جائے گی، سحری میں اٹھنا اور وقت فجر کی رحمتوں کے نزول سے لوگ محروم ہو جائیں گے، موذن آذان کی پابندی بھول جائیں گے، نماز عید ادا کرتے ہی شیطان اپنے جال پھر سے پھیلا لے گا، کیوں کخ یہ آزاد ہو چکا ہو گا، اور ہر طرف آتش بازی ہو رہی ہو گی، عیف کے نام پہ ہی فضول خرچی، پارکوں میں بے حیائی، ناچ گانے کی محفلیں، شراب و جوئے کا بیوپار، لڑائیاں کی بھرمار، فساد ہی فساد، کہیں فساد ظاہری تو کہیں فسادِ قلبی، کیا نہیں ہو گا، یہاں تک کی جہنم کے دروازے کھل چکے ہوں گے اور لوگ بے تابی سے جہنم میں جانے کا سامان کر ر ہے ہوں گے، پھر غریبوں کے چہولے بُجھ چکے ہوں گے، پھر ناجانے گالخ گلوچ غیبت چغلی حسد کینے کا بازار کس شان و شوکت سے کھلے گا، ہر شہر و گاؤں کا ہر شخص ان کی خرید و فروخت میں یوں ملوث ہو جائے گا کہ ان بازاروں کی گلیوں اتنی بئڑھ ہو گی کو ہوا بھی راستہ نہیں بنا پائے گی، خیر یہ ماہ مبارک تو تیس دن کا ہی آتا ہے آخر اپنا درد اپنا غم اپنی محبت کا جام دے کھ یونہی ہم سے جدا ہو جاتا ہے پھر 11 ماہ برابف اس کی جدائی کے غم، تڑھپ کرب میں اس کے عاشق مبتلا ہو جاتے ہیں، خیر اب کیا کر سکتے ہیں یہ تو معمول ہے، لیکن کاش ہم اپنی زندگی کے ہر لمحے کو رمضان المبارک جیسی بنا لے لیتے اور پھر جب ہمارے دن حیات کے پورے ہوتھ تو ہماری موت بھی اسی جوش، خوشی، مسرت اور شادمانی سے ہوتی جیسھ ایک روزہ دار کی عید، مگر کہاں ہمیں تو یہ سب کچھ عید کی شام تک ہی یاد رہتا ہے، پھر عید کی خوشی کی آڑ میں نا جانے کتنے بڑے بڑے گناہ کر بیٹھتے ہیں، اصل میں تو عید اُن لوگوں کی ہی ہوتی ہے جو مکمل پابندی سے روزہ رکھتے ہیں، قیام الیل کرتے ہیں، نمازوں اور عبادتوں میں رہتے ہیں پھر جب عید آتی ہے تو یہ اس کی آر میں بھ حیائی اور گناہ نہیں بلکہ رمضان کی جدائی کے غم میں رو رہے ہوتے ہیں، اس دن اللہ سے مغفرت طلب کرتے رہتے ہیں، اپنے گ ناہوں کی بخشش، رمضان کی قدر کے حقوق معاف کروا رہے ہوتے ہیں، یہی لوگ ہیں جو کل قیامت کے دن سرخرو ہونگے اور عرشِ کے سائیے تلے آرام فرما رہے ہونگے جد دن اللہ کے عرش کے سائے کے بغیر کوئی سائیہ نا ہو گا، حدیثِ پاک میں ہے حضرت ابوہریرہ اور حضرت سیدنا ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہما روایت کرتے ہیں حضور نبی پاک، صاحب لولاک، سیاح افلاک صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان علیشان ہے، "اللہ پاک سات اشخاص کو اپنے عرش کے سائے میں جگہ فے گا جس دن اللہ کے عرش کے سائے کے سوا کوئی سائیہ نہ ہوگا، (1) عادل حکمران (2) وہ نوجوان جس کی جوانی عبادتِ الہی میں گزری (3) وہ شخص جس کا دل مسجد سے نکلتے وقت مسجد میں لگا رہے حتی کی واپس لوٹ آئے (4) وہ دو شخص جو اللہ کھ لیے محبت کرتے ہوئے جمع ہوئے اور محبت کرتے ہوئے جدا ہو گئے (5) وہ شخص جو خلوت میں اللہ کا ذکر کرتا ہو اور اس کخ آنکھوں سے آنسوں بہہ نکلیں (6) وہ شخص جسے کوئی مال و جمال والی عورت گناہ کے لیے بلائے اور وہ کہے کی میں اللہ سے ڈرتا ہوں (7) وہ شخص جو اس طرح صدقہ دے کی اس کھ بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو کی دائیں ہاتھ نھ کیا دیا۔” (صیح مسلم)
قلبِ عاشق ہوا پارا پارا
الودع الودع ماہِ رمضان
فرقتِ ہجر وغم نے مارا
الودع الودع ماہِ رمضان
حدیث میں ذکر کردہ تمام صفات ر مضان المبارک میں دیکھنے کو ملتی ہیں کاش یہ صفات رمضان المبارک کے رخصت ہو جانھ کے بعد بھی معاشرے میں موجود رہیں یہاں تک کہ آئندہ پھر رمضان المبارک لوٹ آئے۔۔۔ اللہ پاک سے دعا گو ہیں کہ سال آئندہ ر مضان تک ہم اسی طرح نیک سیرت رہیں جیسے کی رمضان المبارک میں اور یوں ہی ہم سب پہ اور ساری دنیا پہ رحمتوں کا نزول جاری رہے۔ آمین