گجربکروال ہوسٹل اوروائٹس ایپ یونیورسٹی!

0
0

کروناکیخلاف جنگ نے دُنیابدل دی،دُنیاکانظریہ بدل دیا!دُنیاکے مقاصدبدل دئیے،اورساتھ ہی ہرکسی کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی فرصت دی احساس جگایا،اپنے سوئے ضمیرکوجگانے کاموقع دیا، سب کروناسے بچنے کیلئے گھروں میں چھپے بیٹھے ہیں،امیر،غریب،افسر،نوکرسب ایک سی ہی صفِ ماتم میںبیٹھے ہیں!
جموں وکشمیرمیں توصورتحال اور بھی مایوس کن ہے کیونکہ یہاں انٹرنیٹ ’پولیومتاثر‘ہے یعنی 4جی کے زمانے اور ڈیجیٹل انڈیاکے اس کونے میں 2Gانٹرنیٹ ہے، جس پرصرف وائٹس ایپ چیٹ ہوسکتی ہے،فیس بک پر پوسٹس ہوسکتی ہیں،اس لاک ڈائون کے چلتے فرصت کے لمحات میں لوگ بہت کچھ کرنے کااِرادہ بنارہے ہیں،نوجوان،آفیسران،وکلائ،دانشوران،ماہرین تعلیم نئے نئے منصوبے بنارہے ہیں،یعنی کرونانے بخشا،نجات ملی،کروناتباہ ہوا،دُنیاپھرسے آبادہوئی توبہت کچھ کرنے کاجذبہ اُچھل کود کررہاہے۔
ایساہی ایک مشاہدہ گجربکروال طبقہ کے نوجوانوں ودانشوروں میں بھی اِن دِنوں دیکھنے کومل رہاہے،ان میں آفیسران بھی ہیں ،سماجی کارکنان ہیں اوروکلاء حضرات بھی ہیں،یہ طبقہ جموں وکشمیرمیں قبائلی طلبہ وطالبات کیلئے قائم گجربکروال ہوسٹلوں میں انقلابی تبدیلی چاہتے ہیں اور بوسیدہ وعمررسیدہ نظام کونکال باہرپھینکناچاہتے ہیں،جموں وکشمیرمیں23سرگرم ہوسٹلوں کیساتھ ساتھ14ہوسٹل پایۂ تکمیل کوپہنچنے کوہیں جو موجودہ حالات سے متاثرہوئے ہیں۔
گجربکروال ہوسٹلوں نے بلاشبہ اس طبقہ کی تقدیربدلی،جب جب جس جس ہوسٹل میں دیانتدار وارڈن تعینات ہوااُس نے ان ہوسٹلوں کی مقصدیت کوفوت نہیں ہونے دیا اور وہاں زیرتعلیم بچوں پرتوجہ مرکوزکی وہ بچے آج اعلیٰ عہدوں پہ تعینات ہوکر قوم وسماج کی خدمت کررہے ہیں،لیکن اخراجات وسہولیات کے برعکس یہ حصولیابیاں رائی کے دانے جیسی دِکھتی ہیں،خاص طورپرپچھلے 20برس ہوسٹلوں کی کارکردگی کے اعتبارسے انتہائی مایوس کن ہیں جویقینا گجربکروال مشاورتی بورڈ ووارڈن حضرات کیلئے باعث شرم ہیں،۔
چونکہ ہر سال مقابلہ آرائی بڑھتی ہے،تعلیمی اِداروں، پیشہ ورکالجوں میں مقابلہ اپنی انتہاکو پہنچ چکاہے ،ایسے میں ہرسال کارکردگی آسمان چھونی جیسی ہونی چاہئے تھی لیکن ہوسٹلوں کے پاس آئوٹ بچے دربدرکی ٹھوکریں کھانے پرمجبورہوتے ہیں،غریب گھرانوں اور دورافتادہ علاقوں سے آنے والے ہوسٹل کے بچوں کی بنیادی تعلیم ویسے بھی اِتنی اچھی نہیں ہوتی جس کی بنیادپہ وہ اپنے تعلیمی سفرکی عمارت کھڑی کرسکیں، ایسے میں ہوسٹل میں داخلہ پانے والے خوش نصیب بچوں پرزبردست محنت درکارہے، لیکن ہوسٹلوں کے بوسیدہ نظام نے ان بچوں کونہ کھیتی باڑی کے قابل چھوڑااورنہ انہیں روزگارپانے کے اہل بنایا۔
ایسے میں لاک ڈائون کی فرصت کے لمحات میں کچھ نیک دِل لوگوں کو اگران بچوں کی فکرلاحق ہوئی ہے توخُداکرے یہ لاک ڈائون کے خاتمے اور زندگی کے پھر س رفتار پکڑنے کے بعد بھی یوں ہی برقرار رہے،ایسانہ ہو کہ وائٹس ایپ گروپوں پہ فکرمندی ظاہرکرنے والے لاک ڈائون کے بعد اپنی زندگی کی مصروفیا ت میں پھرسے ایسے کھوجائیں کہ بیس برس بعد پھر بڑھاپے میں اپنے مقدرپہ مگرمچھ کے آنسوبہاناپڑیں کہ کاش ہم نے کچھ کیاہوتاتوآج ہمارامستقبل تاریک نہیں بلکہ روشن ہوتا،بیس برس بیت گئے تو بیت گئے ،واپس نہیں آسکتے لیکن آنے والاایک ایک پل قیمتی بنایاجاسکتاہے،ذاتی مفادات کوبالائے طاق رکھتے ہوئے اہلِ فکرحضرات کوعملی میدان میں آگے آناہوگا،وائٹس ایپ کی یونیورسٹی سے باہرنکلتے ہوئے میدانِ عمل میں کچھ ایساکردکھاناہوگاتاکہ سرکارکی جانب سے ہوسٹلوں پرخرچ کئے جارہے کروڑوں روپے قوم کے مستقبل کوسنوارنے کے کام آئیں ،ایسانہ ہوکہ اس خزانے کوچوہے کُترتے رہیں اور ہم وائٹس ایپ پرایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں ڈٹے رہیں!یہ یونیورسٹی ایسی یونیورسٹی نہ بنے جہاں داخل حضرات ڈگری پانے کے بعد راہ میں کہیں ایک دوسرے سے ملاقات پرنگاہیں چُرانے پہ مجبورہوجائیں،متحدکوکراتحادواتفاق کیلئے دوراندیشی کیساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
جان محمد

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا