افسانہ روٹی

0
0

اشہر اشرف
9906455607
دور دور تک کسی انسان کا سایہ تک نطر نہیں آرہا ہے۔ ہر طرف کتوں نے ڈھیرا جمایا ہوا ہے۔ بنسی کی دکان بھی بند ہی ہے۔ وہ تو اِتوار کے دن بھی کھلی ہی ہوا کرتی تھی یہاںعام دنوں میں عورتوں کی بھیڑہوتی ہے۔  اسپتال کے سامنے ہونے کی وجہ سے اکثر بیمار ی کا بہانہ کر کے گھر سے نکلنے والی خواتین کو اپنی ضرورت کی چیزیں اور کچھ میک اپ کا سامان خریدنے میں آسانی ہوتی تھی ، دوسرے بنسی کاکا کے متنازیہ وجود سے بھی انہیں کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا۔ اب جہاں تتلیاں ہوں وہاں بھنوریںبھی منڈھلا رہے ہوتے ہیں ۔گویا کہ بنسی کا کا کی دکان کا اس بازار کی رونق اور چہل پہل میں خاص حصہ تھا۔  لیکن آج نہ کوئی چہل پہل ہے نہ ہی رونق ۔ وہ دیکھو اسلم میاں کی ریڑھی کے نیچے اس لاغر کتیاں نے چار بچے جنے ہیں۔ عام حالات میں تو یہ دوسرے طاقتور کتوں کے ڈر سے یہاں سے گزرنے سے بھی کترارہی تھی۔ ستار میاں کی دکان کے سامنے اب سڑک خشک ہوئی ہے۔ لیکن تھوکے ہوئے پان کے سرخ دھبے ابھی بھی موجود ہیں۔  میں اند ہی اند ر بازار کی ویرانی پر نوحا کناں تھا کہ کتا اور بلی پہلو بہ پہلو دم ہلاتے ہوئے میرے سامنے کچھ دیر ٹھہر کر اس طرح گزر گئے کہ جیسے میرے انسان ہونے پرمیرا مذاق اڑا رہے تھے۔
آج لاک ڈائون کا ایک مہینہ مکمل ہوا ہے۔ میں اپنی بیگم کو اسپتال لے کر آیا تھا۔ ڈاکٹر نے دور سے ہی مریض کی صورتِ حال کا جائزہ لیکر چار پانچ اقسام کی دوایاں لکھ دی  اور ساتھ میں دودھ کے ساتھ لینے کا مفت مشورہ بھی دیا۔  اب میں اسی سلسلے میں بازار آیا تھا لیکن  یہاں معلوم ہوا کہ دھنی رام کی دکان اب بند ہی ہوتی ہے اور وہ گھر پر ہی دودھ کی ترسیل کروتے ہیں۔  یہ جان کر میں نے بھی اس کے گھر کا رُخ کیا ۔
’’ یہاں بھی غریب  مزدور ہی مرے گا۔ جو کچھ بھی کمایا ہوگا وہ کچھ دن بعد ختم ہوگا  پھر بھگوان ہی بھلا کرے !  ہر طرف گائوں و شہر سنسان ہی سنسان ہے۔نا مزدور مزدوری کر سکتا ہے نا سبزی فروش ریڑھی لگا سکتا ہے اور نا ہی دودھ والاگھر گھر دودھ بھیج سکتا ہے۔ایسے میںاگر کسی کادیہانت ہو جائے تو اس کا انتم سنسکاربھی کوئی نہیں کریگا۔اب کوئی فرق نہیں !  کوئی وباء سے مرے یا بخار سے ۔ سب کو  بلڈوزر سے اٹھا کر شمشان گھاٹ میں پھینک کر جلادتے ہیں ‘‘
دھنی رام اپنی پتنی شانتی دیوی سے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے بولتا جارہا تھا اور ساتھ میں حقے کے لمبے لمبے کش بھی لیتا جارہا تھا۔ اس طرح اس کے کھانسنے سے گلی کا سکوت بھی کچھ دیر کے لئے ٹوٹ جاتا تھا۔
دھنی رام نے بیوی سے کہا کہ نتھو کے گھر کی خبر لیکر آئو  مالتی  وہاں بچوں کے ساتھ اکیلی ہے۔ اس پر شانتی دیوی نے تیوری چڑھاتے ہوئے جواب دیا:
’’ ایسے حالات میں کون بھلا کسی کسی کی فکر کرتاہے اور گھر جانا تو دور کی بات ہے۔ اگر وہاں کسی کو یہ بیماری ہوئی ہوگی تو؟ آپ اپنا خیال رکھو دوسروں کی فکر کرنا فالحال چھوڑ دے۔ ایک بات اور، اگر ان کے گھر راشن پانی ختم ہوا ہوگا  توپھر وہ بوجھ بھی ہمیں ہی مفت میں اُٹھانا پڑے گا‘‘
’’ میرا چھوٹا بھائی ہے وہ شانتی، اسی لئے تو جانے کے لئے کہہ رہا ہوں۔ کیا پتا گھر میں کھانے کے لئے کچھ ہوگا کہ نہیں‘‘ دھنی رام نے حقے کو ایک
طرف رکھ کر کہا۔
شانتی نے اس بار تند لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے کسی کے گھر کا ٹھیکا نہیں لیا ہے۔ کوئی جئے یا مرے ہمیں کیا ہے ۔۔۔۔ اور گھر میں
اتنی ہی راشن ہے جو ہمارے خود کے لئے بھی کافی نہیں ہے۔
اس پر دھنی رام نے کچھ اور کہنا چاہا لیکن شانتی کی لال آنکھین دیکھ کر چُپ رہنے میں ہی خیر سمجھی۔
نتھورام  جب کام کی تلاش میں گھر سے نکلاتھا تب حالات اس قدر خراب نہیں تھے اور نا ہی اس طرح کا کوئی اندیشہ تھا۔ اب ُاس کا کوئی اتا پتا نہیں تھا ۔
پہلے وہ دو دن تین دن بعد فون کر کے مالتی اور بچوں کی خبر خیریت پوچھتا تھا لیکن اب اسے کئی دن ہوئے تھے فون کئے۔
حکومت نے تیزی سے پھیلتی ہوئی وبائی بیماری ( کرونا وائرس)  کے پیشِ نظر ملکی سطح پر لاک ڈائون کرنے کا حکم نامہ جاری کیا اورخلاف وزی کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کرنے کا عندیہ بھی دیا۔اس دن مزدورں کے لئے بھی ایک اسپیشل پیکیج کا اعلان کیا گیا ۔  لاک ڈائون پر تو عمل کیا جاتا ہے لیکن مزدور پیکیج اعلان تک ہی محدود رہی ۔
ان حالات میں کون کس حال میں جی رہا تھا، کسی کے گھر میں روٹی پکتی تھی یا نہیں ان سب باتوں سے کسی کو کوئی سرو کار نہیں تھا۔
ایسے میں اگر کوئی سرکاری یا نیم سرکاری ادارہ کسی طرح کی مدد بھی کر رہے تھے تو وہ تصویر بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال کر بیچارے غریب کی عزت ِنفس کو مجروح کر رہے تھے۔  ایسے میں لوگ کسی کی امداد لینے پر بھوک سے مر جانے کو ترجیح دینے لگے تھے۔
ہان اگر کسی غریب کو نزلہ ذُکام یا بخار ہوجاتا ہے تو سرکاری کارندے اور طبعی عملہ بن بلائے مہمان کی طرح آدھمکتے ہیں۔ جیسے انہیں کسی سیٹالائٹ کے ذریعے خبر ملی ہو۔
نتھو رام نے ایک دن فون پر بتایا کہ وہ جس فیکٹری میں کام کررہا تھا  اس کے مالک نے سبھی دہاڑی مزدور وں کو کام سے نکال دیا ہے اور ان کی کھولیاںبھی خالی کرالی گئیں ہیں۔ اب وہ فٹ پاتھ پر رہتے ہیں جہاں انہیں بیٹھنے پر روز پولیس مارتی ہے۔ اس لئے وہ دوسرے مزدوروں کے ساتھ گاڑی نہ ملنے کی وجہ سے پیدل گھر آرہا ہے۔
مالتی اپنی چوکھٹ پر سر جھکائے دونوں ہاتھوں سے سر تھامے خاموشی سے اپنی قسمت پر رو رہی تھی اور بھگوان سے شکوہ کناں تھی۔
’’ اے بھگوان میں کیا کروں! ان معصوم بچوں کو کیا کھلائوں ؟ اتنے دن تو روکھی سوکھی کھا کر نکالے تھے۔چاول، دال، آٹا سب ختم ہوا ہے۔اب تو خالی چولہا جلانے کے لئے بھی کچھ بچا نہیں ہے۔اب میں کروں تو کیا کروں۔ گھر میں کوئی پھوٹی کوڑی تک نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ منو کا باوا جانے کس حال میں ہوگا۔ کب تک گھر پہنچے۔۔۔۔۔ میں اکیلی عورت ان چار چار بچوں کو اس غربت میں کیسے سنبھالوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ـ‘‘
مالتی ابھی بھگوان کو اپنا دکھرا سنا ہی رہی تھی کہ  مُنو کے رونے کی آواز آئی۔  منو بلک بلک کر رو رہا تھا۔  مالتی نے اسے کل رات  بڑی مشکل سے نمکین پانی پلا کر سُلایاتھا ۔لیکن اب اسے چُپ کرانے کی ساری کوششیں ناکام ہو رہیں تھیں۔منو کا معصوم کلیجہ اب بھوک کی شدت برداشت نہیں کر پارہاتھا۔ یہ روتے ہوئے ماں سے روٹی مانگ رہاتھا۔ مالتی سے بیٹے کی حالت دیکھی نہیں گئی۔ وہ بھی زار و قطار رونے لگی ۔ اتنے میں باقی تینوں بچے بھی آگئے ،وہ بھی ماں کے ساتھ اپنے چھوٹے بھائی کو مرتے دیکھ کر رونے لگے۔ ماں اور بچوں کے رونے سے آسمان سرخ ہوتا جارہا تھا اور زمین کا سینہ چاک ہو رہا تھا۔ان کی آہ و زاری سے پوری گلی کا سکوت ٹوٹ چکا تھا۔ پاس پڑوس کے لوگ اپنے گھروں کے روشن دانوں اور بالکنیوں سے ان کی ے بسی کا نطارہ کر رہے تھے لیکن کوئی ایک روٹی کا ٹکڑا دے کر منو کی جان بچانے کے لئے تیار نہیں تھا۔
مالتی کے  پڑوس میں دھنی رام کے علاوہ گلی میں اور بھی لوگ رہتے تھے۔ ان کی حالت اچھی خاصی تھی۔ کسی کا اپنا کاروبار تھا تو کوئی سرکاری ملازم۔ اس کالونی میں صرف نتھو رام ہی تھا جس کا چولہا دہاڑی مزدوری پر جل رہاتھا۔  بھوک کی شدت سے جب منو پر غشی طاری ہوئی تو مالتی کی چیخیں نکلنے لگی گویا کہ ماںبیٹے کی ممتا میں پاگل ہوئی ہے ۔  اس نے اپنے بال نوچتے ہوئے گلے سے منگل سوتر نکالا  اور  ساتوں آسمانوں کو چیرتی ہوئی دل دوز آواز میں پڑوسیوں سے مخاطب ہوئی:    ’’ کیا اس بستی میں کوئی انسان نہیں ہے؟ کوئی میرے منو کو بچائو! بس ایک روٹی دے دو؟ بدلے میں میرا منگل سوتر لے لوـ‘‘۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا