نئی دہلی، 10مئی (یو این آئی) آرایس ایس کسی خاص مذہب، ذات، دھرم پر یقین رکھے بغیر اس کے تمام خطبات اور بیانات میں صرف ایک طبقے یا مذہب کی بات نہیں کی جاتی بلکہ ہندوستان کے تمام طبقات کی بات کی جاتی ہے اور اس کا بنیادی منشور خدمت خلق، ہندوستانی افکار و اقدار کا تحفظ اور حب الوطنی ہے۔ یہ بات قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر، ڈاکٹر شیخ عقیل احمدنے ’ایک فلاحی اور رفاہی تنظیم آر ایس ایس‘ نامی تجزیے میں کہی ہے۔
اس میں انہوں نے کہا کہ دنیا میں بہت سی رفاہی تنظیمیں ہیں جو انسانی فلاح و بہبود کے کاموں سے جڑی ہوئی ہیں، ہندوستان میں بھی آر ایس ایس ایک ایسی سماجی تنظیم ہے جس کا بنیادی منشور خدمت خلق، ہندوستانی افکار و اقدار کا تحفظ اور حب الوطنی ہے۔ یہ تنظیم بہت مربوط اور منظم ہے اور اس کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔ آر ایس ایس نے سماجی اور تعلیمی ترقی کے میدان میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں وہ کسی سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ پورے ہندوستان میں آر ایس ایس کا ایک مربوط نیٹ ورک ہے جس کا بنیادی مقصد ہندوستانی عوام کے درمیان سماجی بیداری پیدا کرنا اور انھیں ہندوستانی تہذیب و ثقافت سے روشناس کرانا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہندوستانیت، سودیشی، قومی و سماجی اتحاد پر اس تنظیم کا زور ہے اور شاید اسی وجہ سے کچھ لوگ مخصوص نظریاتی عینک سے اس تنظیم کو دیکھتے ہیں اور اسے ایک خاص طبقے یا ذات سے مخصوص کردیتے ہیں جبکہ آر ایس ایس کسی خاص مذہب، ذات، دھرم پر یقین نہیں رکھتی بلکہ تہذیبی تنوع اور تکثیریت پر اس کا ایقان ہے اور ایک غیرطبقاتی سماج کی تشکیل اس کا بنیادی مقصد ہے۔ سماج کو متحد کرنا اور سبھی طبقات کی ترقی اس کے ایجنڈے میں شامل ہے اور جب سے موہن بھاگوت جی جیسی وژنری شخصیت نے اس تنظیم کی کمان سنبھالی ہے انھوں نے اس کے اندازِفکر اور طرزِ احساس کو بھی بہت حد تک تبدیل کیا ہے۔ ان کے ہاں نظریاتی کشادگی اور وسعت ہے جس کا اندازہ ان کے خطبات اور بیانات سے بہ آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
انھوں نے ہمیشہ آر ایس ایس سے جڑے ہوئے افراد کو ہدایت دی ہے کہ بغیر کسی تعصب و امتیاز کے تمام ہندوستانی عوام کی خدمت کریں۔ شخصیت سازی اور سماجی فلاح کے مشن کے ساتھ یہ تنظیم ہندوستان کے طول و عرض میں آگے بڑھ رہی ہے۔ موہن بھاگوت جی بار بار پورے ہندوستانی عوام کو متحد کرنے کے جذبے کے ساتھ یہ کہتے رہے ہیں کہ ”ہندو کوئی مذہب، صوبہ یا ملک کا نام نہیں بلکہ ایک کلچر ہے اور ہندوستان میں رہنے والے لوگوں کی یہ وراثت ہے، اس لیے ہندوستان میں رہنے والے ایک سو تیس (130)کروڑ لوگ سبھی ہندو ہیں اور بھارت ماتا کی اولاد ہیں۔ یہ اپنی الگ الگ تہذیبوں اور ثقافتوں اور مذاہب کے باوجود ہندوستانی ہونے کی بنا پر ایک ہیں اور یہی تنوع اور تکثیریت ہمارا تشخص اور شناخت ہے۔ موہن بھاگوت جی اسی لیے اپنے تمام خطبات اور بیانات میں صرف ایک طبقے یا مذہب کی بات نہیں کرتے بلکہ ہندوستان کے تمام طبقات کی بات کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنے ایک بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ جس دن یہ کہا جائے گا کہ ”یہاں مسلمان نہیں چاہیے اسی دن وہ ہندوتو نہیں رہے گا۔“
ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے کہاکہ کرونا بحران کے دوران بھی انھوں نے یہ واضح کیا کہ چند افراد کی غلطیوں کی وجہ سے پوری قوم کو بدنام نہیں کیا جاسکتا اور یہ بھی کہا کہ بغیر تعصب و امتیاز کے ہر متاثرہ فرد کی مدد کرنا ہمارا اخلاقی فریضہ ہے اور انھوں نے اپنے خطبے میں یہ بھی کہا کہ دونوں قوموں کے باشعور افراد سامنے آئیں اورذہنوں میں جو تعصبات اور شکوک و شبہات ہیں وہ مکالمے کے ذریعے دور کریں کہ مکالمہ ہی کے ذریعے سے ہم اپنے ملک کو ایک لڑی میں پرو سکتے ہیں اور سب کی ترقی کے خواب کو پورا کرسکتے ہیں۔ انھوں نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ بھارت میں سب سے زیادہ مسلمان خوش ہیں کیونکہ ہندو تہذیب میں سبھی کے لیے عزت و احترام کا جذبہ ہے۔ ہمیں کسی سے مذہب کی بنیاد پر نفرت نہیں ہے۔ ہمیں ایک بہتر اور صحت مند سماج کی تعمیر و تشکیل کے لیے ایک ساتھ آگے بڑھنا ہوگا تاکہ ملک میں تبدیلی آسکے اور ترقی کے مساوی مواقع پیدا ہوں۔ اسی لیے آر ایس ایس نے مسلم راشٹریہ منچ کے نام سے ایک تنظیم بھی قائم کی ہے جس کا مقصد مسلمانوں کے مسائل و معاملات پر غور و فکر کرنا ہے۔
انہوں نے کہاکہ موہن بھاگوت جی نے ہمیشہ قومی یکجہتی، ہم آہنگی اور ہندوستان کے تمام مذہبی طبقات کے درمیان اتحاد اور بھائی چارے کی تاکید کی ہے اور کہا ہے کہ مذہب، فرقہ اور ذات کی بنیاد پر کسی کے ساتھ ناانصافی یا زیادتی اچھی بات نہیں ہے۔ کرونا جیسے بحران میں بھی جب ملک میں مذہبی بنیاد پر منافرت شروع ہوئی تو انھوں نے تمام ہندوستانی عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کرونا سے کسی کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ڈرنے سے بحران اور سخت ہوجائے گا، ہم تمام لوگوں کو خوداعتمادی، مستقل مزاجی اور منظم طریقے اور قواعد کی پابندی کرتے ہوئے بغیر کسی تفریق کے کام کرنا ہوگا، بھید بھاؤ کے بغیر دوسرو ں کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے۔ہمیں اس موقعے پر خوف، غصے اور تعصب سے بھی بچنا ہوگا اور ہمیں بے احتیاطی، لاپرواہی، خوف و غصہ، سستی، ٹال مٹول جیسی غلطیوں سے بچنے کی کوشش کرنی ہوگی تبھی ہم کرونا جیسے قہر سے نجات حاصل کرپائیں گے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ کرونا ہمارے لیے ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے اور یہ ہمیں قواعد و ضوابط کی پابندی کے ساتھ نئے بھارت کی تعمیر کی دعوت بھی دے رہا ہے۔ اس بحران نے ہمیں بہت کچھ سکھایا ہے، خاص طور پر خودانحصاری کی تعلیم دی ہے اور ایک نئے معاشی ترقیاتی ڈھانچے کی تشکیل کا احساس بھی دلایا ہے۔ ماحولیات کے تحفظ اور سودیشی چیزوں کے استعمال کی ضرورت کے ساتھ ساتھ ہمیں متحد ہوکر لڑنے کا بھی سبق دیا ہے۔ کرونا سے نجات ہمیں اسی صورت میں مل سکتی ہے جب فرد اور معاشرہ مربوط ہوکر اس کے خلاف جنگ لڑیں گے۔یہ ہمیں اچھا بننے اور دوسروں کو اچھا بنانے کی بھی تعلیم دیتا ہے۔ اس لیے ہمیں متحد ہوکر کرونا کو ختم کرنا ہوگا۔ ذات، مذہب اور طبقات میں تقسیم ہوکر ہم اس قہر سے نجات حاصل نہیں کرسکتے۔
ڈاکٹر عقیل نے کہاکہ موہن بھاگوت جی نے کرونا کے سلسلے میں اپنی سماجی ذمے داری کو محسوس کرتے ہوئے جس طرح کا خطاب کیا اس سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کا تخاطب صرف ایک ذات، قوم یا دھرم کے لوگوں سے نہیں بلکہ ہندوستان کے تمام لوگوں سے ہے، اور یہی سماجی اتحاد آر ایس ایس کا مشن ہے۔