"پاپی پیٹ نے لے لی جان سستی سبزی لینے گیا مل گئی موت”

0
0
     عوامی نمائندگان کا وطیرہ سیکولر ہندوستان کے لئے المیہ مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ  ایم ندیم احسن
  جمشیدپور// لوک ڈاؤن کی وجہ سے غربت کی چکی میں پس رہے بے بسی سے مرنے والوں کی تعداد میں ہر روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے ایسا ہی ایک واقعہ جمشید پور کے ادتیہ  پور میں ظہور پذیر ہوا جہاں ایک غریب  محض چند روپے بچانے کی چاہ میں موت کی آغوش میں چلا گیا  ملی خبر کے مطابق لاک ڈاون کی وجہ سے کنہیا رآئےکی مالی حالت بہت خراب تھی وہ اپنے اہل خانہ  کی غذائں ضرورت  پوری نہیں کر پا رہا تھا سرکاری  راشن میں آٹا اور چاول ہی تو ملتا  ہے اور تھوڑا گھاسلیٹ  آخر  وہ کب تک پانی میں بھگو  کر روٹی اور دو پہر میں ماڑ  بھات کھاتا اور اپنے بیوی بچوں کو کھلاتا پھر گھرمیں کوئی بیمار ہو تودوا علاج پرائیویٹ ڈاکٹر سے ہی کرانا پڑتا ہے کیونکہ اسپتال میں او پی ڈی  بند ہے   کنہیا رائےکے پاس تھوڑے پیسے  تھے وہ سستی سبزی لینے ندی پار گیا تھا واپس میں  ندی پار کرتے ہوئے بارش کے تیز بہاؤ میں بہہ کر بھنور میں  پھنس گیا اس طرح لاک ڈاؤن نے ایک اور غریب کی جان لے لی. *”حکومت کا دعویٰ حقیقت سے کوسوں دور*” :- غور طلب ہے کہ لوک ڈون کی وجہ سے  بے روزگار ہوئے غریب دانہ دانہ کو محتاج ہیں سرکار لاکھ  دعویٰ کریے  لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ سرکار کے  ذریعہ دی جارہی غذائی سہولتیں  او نٹ کے مونہہ  میں زیرہ کے برابر  ہیں  اور یہ بھی ایک  حقیقت ہے کہ سماجی فلاحی تنظیمیں اور مخیر حضرات ضرورت مندوں کی مدد کو  آگے نہیں آتے  تو جھارکھنڈ میں اب تک بھوک سے مرنے والوں کی تعداد سو کے ہندسے کو چھو چکی ہوتی  *”عوامی نمائندہ اور بھید بھاؤ کی ڈگر*”:- جہاں تک  وزیر اور ممبر اسمبلی کی بات ہے تو ان کے ذریعہ جو بھی راحت رسانی کا کام کیا جا رہا ہے  اس  میں مذہبی  بھید  بھاؤ کی ملاوٹ  صافدیکھی جارہی ہے عام عوام  کی مانیں تو  وزیر صحت کے ذریعہ بھی راحت رسانی کا کام زوروں پر چل رہا ہے لیکن جہاں 4000 ضرورت مندوں تک پکا ہوا کھانا پہنچانے کا دعوی کیا جاتا ہے وہاں مذہبی  بھید بھاؤ کی ڈگر پر چلتے ہوئے  محض 100 سے 200 سو  مسلم  ضرورتمندوں کا  احاطہ کیا جاتا ہے اسی طرح  انتخابی دنگل میں  تہلکہ مچاتے ہوئے ایک نیا ریکارڈ قائم کرنے والے ممبر اسمبلی بھی دو ہزار لوگوں کو ہر روز پکا ہوا کھانا پروس رہےہیں لیکن یہاں بھی وہی طریقہ اپنایا جارہا ہے مسلم علاقوں کا رخ بالکل ہی نہیں کیا جارہا ہے لوگوں کی مانے تو اگر ان دو ہزار میں  سے کبھی  مسلم طبقہ کے  سو ضرورت مندوں تک  بھی مدد پہنچ جاتی  تو یہ  بہت بڑی بات ہوتی خوش آئند بات یہ ہے کہ مسلم سماجی فلاحی ادارے اور مسلم طبقہ  کے سماجی خدمت گار عیسائی’ آدی باسی’ ہریجن اورعام  ہندو آبادی تک پہنچ کر غریبوں کا چولہا جلانے کا کام کر رہے ہیں  ایک سماجی خدمت گار کاشف رضا صدیقی نے غیر مسلم آبادی تکا محبت اور غیر سگالی کا پیغام پہنچانے کے لیے یہ وطیرہ اپنایا  اپنایا تھا کہ وہ جہاں  ستر غیر مسلموں تک پندرہ دنوں  کی ضرورت پر مشتمل غذائی اجناس  کا کٹ تقسیم کر رہے تھے  وہیں مسلم آبادی میں تیس خاندانوں کی زندگیوں میں مسکراہٹ بکھیر رہے تھے اس طرح  مسلم سماجی خدمت گار اور فلاحی تنظیموں نے یا تو برابری کی سطح سے بلا تفریق  مذہب ضرورتمندوں کی مدد واعانت  کی تو بعض مسلم سماجی خدمت گاروں نے غیرمسلموں کو زیادہ ترجیح دی یہاں تک کہ جہاں "غیر مسلم سنگھٹن” نہیں پہنچ پا رہے تھے اچھوت سمجھ کر  ویسی ہریجن آبادی  کا خاص طور سے رخ کرکے انسانیت نوازی کا ثبوت دیا گیا جو ایک مثال بن کر رہ جائے گا ایک بڑا سوال ہے کہ عوامی نمائندہ کے کندھے پر اپنے اسمبلی اور پارلیمنٹری حلقہ  کی ذمہ داری ہوتی ہے اور ان کے دکھ سکھ میں شامل رہنا ان کا فرض ہوتا ہے ہے لیکن عوامی نمائندے اپنے اس فرض کو بھول جاتے ہیں  جو اس وقت اور بھی زیادہ افسوسناک ہوجاتا ہے جب کوئی نمائندہ مسلم ووٹ سے جیت کر وزارت کی کرسی تک پہنچتا  ہے اور وہاں پہنچنے کے بعد انہیں یکسر فراموش کر دیتا ہے اتنا ہی نہیں اپنے غیر ذمہ دارانہ بیان سے ان کے لئے مشکلیں بھی کھڑی کر دیتا ہے یا سیکولر ہندوستان کے لیے ایک المیہ ہے اور مسلم  سماج کے لیے لمحہ فکریہ
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا