صحافت، صحافی اور میڈیا

0
0
——–
مجھے میڈیا سے گلہ ہے یقیناً
تعصب سے پُر اب فضا ہے یقیناً
اسی کی بدولت کہ سارے جہاں میں
یہ بدنام مسلم ہوا ہے یقیناً
وطن میں یہ سازش گھنونی رچی ہے
صحافت غلامِ حکومت بنی ہے
——-
فضا نفرتوں کی یہ کسنے چلائی؟
یہ شکشا عداوت کی کسنے سکھائی؟
کرونا ہے مسلم خبر یہ جہاں میں
مزاخوب لے لے کے کسنے اُڑائی؟
خبر یہ کرونا عجب سی اُڑی ہے
صحافت غلامِ حکومت بنی ہے
——–
نہیں بھول سکتے یہ کردار تیرا
یہ چینل ترا اور بازار تیرا
عجب سا یہ تونے لگایا ہے نعرہ
سلامت رکھیں گے یہ اُپہار تیرا
چمن کی تو مٹّی میں بدبو بسی ہے
صحافت غلامِ حکومت بنی ہے
——-
جماعت پہ ہی تم نے سادھے نشانے
دبے جا چکے ہیں سبھی اب فسانے
بکی ہے صحافت دلالی کے بدلے
دگرگوں ہوئے ہیں ہمیشہ زمانے
عجب کشمکش میں یہاں زندگی ہے
صحافت غلامِ حکومت بنی ہے
——
قلم کو حقیقت میں بیچا گیا ہے
صحافت کا پیشہ طوائف ہوا ہے
فطور و خلل کی وجہ سے صحافی
حقیقت میں انسانیت سے گرا ہے
اخوت یہاں نفرتوں میں بٹی ہے
صحافت غلامِ حکومت بنی ہے
———–
سدا کیا یہاں یہ حکومت رہے گی؟
یہ گندی تری کب تجارت رہے گی؟
تو پھر روئے گا اپنی قسمت پہ اک دن
نہ عشرت، نہ جھوٹی یہ شہرت رہے گی
اندھیرا ہے ہر سو کہاں روشنی ہے
صحافت غلامِ حکومت بنی ہے
——–
بُرا حال ہوتا ہے چمچوں کا سمجھو
ذرا اپنی تم ذہنیت کو تو بدلو
شعور و ذہن تم جو رکھتے ہو اپنا
تو سچ کو سدا ہی یہاں سچ ہی لکھّو
نظر میں تو تفریق ہی بندگی ہے
صحافت غلامِ حکومت بنی ہے
———-
شعور و بصیرت نہیں رکھتے ہو تم
کہ اپنی طرف سے نہیں کہتے ہو تم
حقیقت یہی ہے ارے لقمہ خورو!
کہ بھکتی کی رو میں یہاں بہتے ہو تم
ہے اب دوستی میں چھپی دشمنی ہے
صحافت غلامِ حکومت بنی ہے
———
ہے ایسی صحافت پہ لعنت ہی لعنت
ہے ایسی حکومت پہ لعنت ہی لعنت
صحافت کے اب نام پر ہے دلالی
ہے ایسی تجارت پہ لعنت ہی لعنت
گلی در گلی اب عجب بے کلی ہے
صحافت غلامِ حکومت بنی ہے
———–
وہ شیطان جب گلستاں میں بلایا
محبت سے گودی میں اپنی بٹھایا
ذرا تم سے میں پوچھتا ہوں یہاں پر
کرونا کو اُس نے بسایا، بھگایا؟
فسادوں کی اب دھوم ہر سو مچی ہے
صحافت غلامِ حکومت بنی ہے
——-
بدیسوں سے اس کو یہاں کون لایا
وہ یوپی میں مندر کا جلسہ منایا
حکومت بنانے کو شیو راج کی پھر
کہ مجمع وہاں پر وہ کسنے لگایا
فسردہ چمن کی تو اب ہر کلی ہے
صحافت غلامِ حکومت بنی ہے
——–
جہاں میں ہے ہر سو حکومت کی تھو تھو
تمدن کی تھو تھو، ثقافت کی تھو تھو
نہیں کچھ خبر حکمرانِ وطن کو
حقیقت میں ہے یہ تو بھارت کی تھو تھو
ولایت میں اب ساکھ دیکھو گھٹی ہے
صحافت غلامِ حکومت بنی ہے
———
تغیر ہے قانون قدرت کا ناداں
بدل جائے سب کچھ ذرا آن کی آں
سوالی ہوں میں تم سے اس بات پر ہی
کھٹکتا ہے آنکھوں میں کیوں اب مسلماں
یہ مسلم مخالف ہوا اب چلی ہے
صحافت غلامِ حکومت بنی ہے
——–
کہ تاریخ تجھ کو لکھے گی درندہ
دلالی جو کرتا تھا شیطان بندہ
نہیں ہے تو واقف خدا کے غضب سے
ہوا جا رہا ہے یقیناً تو اندھا
تو مذہب کو بدنام کرنے چلی ہے
صحافت غلامِ حکومت بنی ہے
——-
دھرم نفرتیں تو سکھاتے نہیں ہیں
طمع کے لئے جاں مٹاتے نہیں ہیں
بہادر نہیں چلتے بے ساکھیوں پر
کسی کے گھروں کو جلاتے نہیں ہیں
یہاں آگ دیکھو ہر اک سو لگی ہے
صحافت غلامِ حکومت بنی ہے
——–
فنا کر رہا ہے نشہ یہ جنوں اب
ملے گا نہیں زندگی میں سکوں اب
شفق کی طرح ہی اُفُق تا اُفق وہ
رہے گا نہیں حکمراں کا فُسوں اب
یہاں تو پڑوسی بنا اجنبی ہے
صحافت غلامِ حکومت بنی ہے
———–
خدا جس کو رکھّے اُسے کون چکھّے
کہاوت سنی تو یہ ہوگی بڑوں سے
یہ تم مانتےکیوں نہیں  جاہلو! اب
وہی قادرِ کُل وہی سب کا رب ہے
کرونا میں بھی کوئی مصلحت چھپی ہے
صحافت غلامِ حکومت بنی ہے
——
حیاتِ بشر ہے خدا کی امانت
سروں پر ہے طاری تمہارے جہالت
اگر چاہتے ہو وطن کا تحفظ
خدا کے لئے چھوڑ دو یہ سیاست
اخوت سے الفت کی گنگا بہی ہے
صحافت غلامِ حکومت بنی ہے
———
دیا نفرتوں کا بجھا دو وطن میں
چراغِ محبت جلا دو وطن میں
دشا کا تعین وطن میں ہے تم سے
کہ سگنل ریا کا گرا دو وطن میں
یہاں پر محبت سے دنیاجھکی ہے
صحافت غلامِ حکومت بنی ہے
——-
توازن بنانا کہ سیکھو، سکھاؤ
تعصب کی عینک ذرا تم ہٹاؤ
کھڑے ہیں یہاں ہم سواگت کی خاطر
ہماری طرف بھی قدم تم بڑھاؤ
اخوت سے الفت کی بستی بسی ہے
صحافت غلامِ حکومت بنی ہے
———
ڈاکٹر محمد مستمر
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا