زچگی کے لئے ہسپتال  پہنچی خاتون درد سے تڑپتی رہی نہیں کیا ایڈمیٹ

0
0
زمین پر ںبہتے خون کو زچہ سے کروایا صاف کی چپل سے پٹائی بچے کی ہوگیء موت                                        متاثرہ خاتون پر لگایا کرو نا پھیلانے کا الزام
      ایم ندیم احسن
    جمشیدپور//جمشیدپور کا ایم جی ایم ہسپتال  اپنے کالے کرتوتوں کی وجہ سے اکثر سرخیوں میں رہتا ہے  لیکن ذمہ داروں کے خلاف کوئی سخت کاروائی کبھی نہیں ہوتی اس لیے کہ وہ سیاست کے گلیاروں میں اونچی پہنچ رکھتے ہیں گزشتہ روز  انسانیت کو شرمسار کر دینے والا   ایسا ہی ایک خوف ناک چہرہ جمشیدپور کے ایم جی ایم ہسپتال کا سامنے آیا ہے جس نے شہر میں پھیلا دی ہے سنسنی گرین ویلی روڈ نمبر17 کی رہنے والی رضوانہ پروین نے وزیراعلی کے نام لکھے اپنے مکتوب میں ان سے انصاف کی فریاد کرتے ہوئے رومیٹنگ کھڑی کردینے والا واقعہ بیان کیا ہے اس نے لکھا ہے کہ 16 اپریل کو ایک بجے اس کے جسم  سے  خون کا رساؤ شروع ہوگیا تھا وہ اپنے بھائی کے ساتھ  ایم جی ایم ہسپتال پہنچی وہاں  بھی خون کا رساؤ جاری تھا  اسپتال میں زمین پر خون بہتا دیکھ کر ایک میڈیکل اسٹاف  جو ڈاکٹر تھی یا  نرس  میں نہیں سمجھ پائی مجھ پر  آگ بگولا ہوگئی اس نے کہا اس نے کہا کتنوں کا بستر گرم کرکے اس حال کو پہنچی ہو  ہو اور یہاں کرو نا پھیلانے آگئی ہو اور گندی گندی گالیاں دیتے ہوئے مجھے  زمین پر بہہ رہے خون کو صاف کرنے کو کہا  متاثرہ نے اپنے  شکایت نامہ  میں لکھا ہے کہ اسی پر بس نہیں ہوا تو اس نے چپل اتار کر مجھے پیٹنا شروع کر دیا جس کے بعد مجھے وہاں سے واپس لوٹنا پڑا اور میں خان نرسنگ ہوم پہنچی جہاں ڈاکٹروں نے معائنہ کرنے کے بعد بتایا کی  بچہ پیٹ میں مر چکا ہے متاثرہ نے  دعویٰ کیا یے کہ سی سی ٹی وی فوٹیج سے ساری سچائی سامنے آ جائے گی لہذا سی سی ٹی وی فوٹیج فورا” ضبط  کیا جائے اور مجھے انصاف دیا جائے متاثرہ نے یہ بھی گزارش کی ہے کئی گرفتار سی سی ٹی وی فوٹیج ضبط کیا جائے ورنہ اس میں چھیڑ چھاڑ کا اندیشہ ہے معلوم ہو ک گزشتہ مہینہ ایک 58 سال کی بوڑھی خاتون کے ساتھ ہسپتال کے خواتین وارڈ میں درندگی کی ساری حدوں کو پار کرتے ہوئے رات بھر  اس کی عصمت دری کی گئی تھی اس کی خبر ملتے ہی نامہ نگار نے اپنے ساتھی  صحافیوں کو اس کی اطلاع دیتے ہوئے فوری طور پر اسپتال پہنچ کر معاملے کا خلاصہ کرنے کرنے کو کہا تھا اس معاملے میں زرد صحافت کی ایک چونکا دینے والی تصویر اس وقت  سامنے آئی تھی جب ایک بڑے ہندی اخبار نے نامہ نگار کے نام کے ساتھ خبر لگائی تھی کہ  انہوں نے افواہ پھیلا یا ہے لیکن سچائی کے علمبردار دبنگ صحافی کوی  کمار نے جب  نام انگار کی اطلاع پر ثبوت و شواہد کے  ساتھ سچائی سامنے لائی تو اسپتال انتظامیہ کو فرشتہ سمجھنے والے وزیر صحت کی بولتی بھی بند ہو گئی تھی جو پہلے اس خبر کو درست تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے اس پورے معاملے میں اسپتال انتظامیہ نے آنا” فانا” زبردستی  عصمت دری کی متاثرہ بوڑھی خاتون کو بلکہ اس وارڈ میں داخل تمام مریضوں کو چھٹی دے دی تھی اسپتال انتظامیہ نے بھی اس خبر  کو شروع میں بکو اس قرار دیا تھا لیکن سینئر پولیس کپتان نے نامہ نگار  ندیم احسن اور کوی کمار  پر بھروسا کرتے ہوئے معاملے کی جانچ کروائی تھی اور آخر کار عصمت کا لٹیرا درندہ صفت مجرم پولیس کی گرفت میں آگیا لیکن اتنے بڑے معاملہ کا خلاصہ ہونے کے بعد اور اسپتال انتظامیہ کی مجرمانہ کارروائی ثابت ہونے کے باوجود وزارت صحت اسپتال انتظامیہ کے خلاف کوئی بھی کاروائی کرنے سے  گریز کر رہی ہے ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ مجرموں نہ سے چشم پوشی کر کے کیا اس  کو جرائم کی چھوٹ نہیں دی جا رہی
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا