یواین آئی
نئی دہلی؍؍تریپورہ میں دارلونگ کمیونٹی کو درج فہرست قبائل کا درجہ دینے کے لیے آئینی (شیڈول ٹرائب) آرڈر ترمیمی بل 2022 کو ا?ج لوک سبھا میں بحث کے لیے پیش کیا گیا۔قبائلی امور کے مرکزی وزیر ارجن منڈا نے یہ بل ایوان میں پیش کیا۔مسٹرمنڈا نے کہا کہ یہ بل آئینی (شیڈول ٹرائب) آرڈر، 1950 میں ترمیم کرکے تریپورہ کی دارلونگ قبائلی برادری کو شیڈول ٹرائب کا درجہ دینے اور اس انتہائی پسماندہ کمیونٹی کو ترقی کے دھارے میں شامل کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔کانگریس کے پردیوت بردولوئی نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل سیاسی نوعیت کا ہے کیونکہ یہ تریپورہ انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے لایا گیا ہے۔ ملک میں قبائلیوں کی حالت زار کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں تقریباً 59 فیصد قبائلی اپنی قدرتی رہائش گاہوں سے دور رہ رہے ہیں۔ جبکہ ان کی 41 فیصد آبادی ناخواندہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو آسام میں چھ برادریوں کو شیڈول ٹرائب کا درجہ دینے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں، جس کا بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے ویڑن دستاویز میں وعدہ کیا ہے۔تریپورہ کی اس قبائلی برادری کو درج فہرست قبائل کا درجہ ملنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے تاپیر گاون نے کہا کہ دار لونگ برادری کو ترقی کے مرکزی دھارے میں لانے میں 75 سال لگے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے اس کمیونٹی کو کوکی برادری کا حصہ سمجھا جاتا تھا لیکن آبادی کا 2.51 فیصد ہونے کے باوجود ان کے رسم و رواج مختلف رہے ہیں۔مسٹر گاون نے کہا کہ حکومت نے اروناچل پردیش کی 11 ذاتوں کو ایس ٹی کا درجہ دیا ہے۔ انہوں نے قبائلی برادریوں کو مالی طور پر بااختیار بنانے اور ان کے معیار کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ جنگلات، دریائوں اور قدرتی وسائل کی حفاظت کے لیے قبائلیوں پر انحصار کیا گیا ہے۔ جہاں قبائلی تھے وہاں جنگلات کی حفاظت کے لیے محکمہ جنگلات کی ضرورت نہیں تھی۔ جہاں محکمہ جنگلات ہے وہاں جنگلات کاٹے جاتے ہیں اور قدرتی وسائل کو چوری کیا جاتا ہے۔دراوڑ منیترا کزگم کے اے۔ راجہ نے کہا کہ یہ بل سیاسی مقصد کے لیے لایا گیا ہے، اس کے باوجود ان کی پارٹی اس کی حمایت کرتی ہے۔ انہوں نے ان دو برادریوں، کروم واس اور ناری کٹاواس کے لیے درج فہرست قبائل کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اگر حکومت کو واقعی پسماندہ برادریوں کی فلاح و بہبود کا خیال ہے تو ایک جامع بل لانا چاہیے۔ترنمول کانگریس کی پرتیما منڈل نے بھی ایک جامع بل کی وکالت کی جس میں مختلف ریاستوں کی پسماندہ برادریوں کو شامل کیا جائے۔ شیوسینا کے اروند ساونت نے ریاستی حکومتوں کے ذریعے پسماندہ برادریوں کی فہرست مانگی اور مطالبہ کیا کہ انہیں درج فہرست ذات یا قبائل کا درجہ دیا جائے۔ لکشدیپ سے نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے محمد فیصل نے بھی یہی مطالبہ دہرایا۔کرانتی کاری مورچہ-ایس کے ایم کے اندرا ہنگ سبا نے کہا کہ سکم میں گرونگ، جوگی، میواڑ دھامی سمیت 12 کمیونٹیز ہیں جنہیں درج فہرست ذات کے زمرے میں شامل کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ سکم میں لمبو اور ٹمبو کے لیے مخصوص عہدے ہیں اور دیگر برادریوں کے لوگوں کو بھی یہ موقع دیا جانا چاہیے۔نیشنل پیپلز پارٹی-این پی پی کی اگتھا سنگما نے بل کی حمایت کی اور کہا کہ درج فہرست ذاتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے بہت سے مسائل ہیں اور حکومت کو ان کو حل کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو درج فہرست ذاتوں کے لیے بجٹ میں اضافہ کرنا چاہیے لیکن حیرت انگیز طور پر اس نے بجٹ میں کمی کی ہے اور قبائلیوں کی فلاح و بہبود کے لیے مختص رقم میں کمی آئی ہے۔بیجو جنتا دل کے بھرتری ہری مہتاب نے کہا کہ درج فہرست ذاتوں میں شامل کرنے کے لیے 149 سے زیادہ کیس زیر التوا ہیں اور اس سلسلے میں کوئی غور نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اڑیسہ کی 10 کمیونٹیز درج فہرست ذاتوں میں شامل کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں اور ان میں جھریا، چھریا وغیرہ کمیونٹی نمایاں ہیں۔ درج فہرست ذاتوں میں شمولیت سے متعلق کئی برادریوں کے معاملات وزارت میں زیر التوا ہیں اور اس سلسلے میں مرکزی حکومت کی طرف سے کوئی فیصلہ نہیں کیا جا رہا ہے۔بی ایس پی کے گریش چندر کا کہنا ہے کہ ملک میں سب سے زیادہ درج فہرست ذاتوں اور قبائل کے لوگوں کا استحصال ہوا ہے اور اس استحصال کو روکنے کے لیے بابا صاحب نے آئین میں انتظامات کیے تھے، لیکن بدقسمتی سے ان طبقات کے ساتھ ناانصافی اور استحصال کے واقعات اکثر ہوتے رہتے ہیں۔بی جے پی کے جسکور مینا نے کہا کہ فراموش کردہ ذاتوں کو درج فہرست ذاتوں کی فہرست میں شامل کیا جا رہا ہے اور یہ حکومت کی بہت اچھی کوشش ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دور میں ایک الگ وزارت بنائی گئی تھی اور ایک الگ کمیشن بھی بنایا گیا تھا تاکہ ذات پات کا پتہ لگانا آسان ہو۔ انہوں نے کہا کہ دور دراز کے جنگلات میں آج بھی صورتحال بہت خراب ہے۔کانگریس کے کے سریش نے کہا کہ درج فہرست ذاتوں کے لوگوں کو ریزرویشن کا فائدہ نہیں مل رہا ہے۔ حکومت اپنے ووٹ بینک کے لیے وقتاً فوقتاً قبائلی برادری کے لوگوں کو اس فہرست میں شامل کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں لیکن اس کا زیادہ فائدہ نہیں ہو رہا ہے، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ درج فہرست ذاتوں اور قبائل کے لیے ریزرویشن اور الاٹ منٹ میں اضافہ کرے۔کانگریس کے ادھیر رنجن چودھری نے کہا کہ ملک میں 645 قبائلی برادریاں ہیں۔ درج فہرست قبائل کی بہبود کے لیے ان کے لیے کئی اسکیمیں چلائی جا رہی ہیں لیکن انھیں اس کا فائدہ نہیں مل رہا ہے۔ انہوں نے کرمی برادری کو درج فہرست قبائل میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔