ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ملک کی حکومت ہمارے نوجوانوں کو افیم کی گولی کھلا کر سلا دینا چاہتی ہے۔ حکومت ہند کے پاس کوئی یوتھ پالیسی نہیں ہے۔ نوجوانوں کو کس راستے پر لے جانا ہے، انہیں مستقبل کے لئے کس طرح تیار کرنا ہے، اُمور کے بارے میں حکومت کے پاس نہ تو کوئی سوچ ہے اور نہ ہی کوئی منصوبہ۔ حکومت نے نوجوانوں کو ان کی عقل پر تنہا چھوڑ دیا ہے اور نوجوانوں نے خود کو اپنے آپ تک ہی محدود کر لیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے نئی معیشت نافذ کرکے نوجوانوں کو سیلف سینٹرڈ بنادیا ہے۔ نئی معیشت کے نظام کی یہ خوبی ہے کہ اس کا اثر ہر طبقے پر الگ الگ طرح سے پڑتا ہے، جو امیر ہیں انہیں زیادہ مواقع ملتے ہیں اور جس کے پاس سرمایہ نہیں ہے یا کم سرمایہ ہے وہ طبقہ استحصال کے جال میں پھنس جاتا ہے۔ اس نظام سے جس طرح آج ہندوستان کا سماج تقسیم ہے، ویسے ہی نوجوانوں کو بھی اس نے دو طبقوں میں بانٹ دیا ہے۔ ایک طبقہ ان نوجوانوں کا ہے جو امیر ہیں، میٹروسٹی میں رہتے ہیں، موج مستی کرتے ہیں اور جنہیں سماج و سیاست سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ دوسرا طبقہ ہے غریبوں کا، چھوٹے شہروں اور گاؤں میں رہنے والوں کا، جو محنت کرتے ہیں، ان کے گاؤں میں بجلی نہیں ہے، پھر بھی پڑھتے ہیں۔ مقابلہ جاتی امتحانات میں شامل ہوتے ہیں اور اپنا مستقبل خود بناتے ہیں۔ اسی طبقے میں کچھ ایسے بھی نوجوان ہیںجنہیں کبھی کچھ نصیب نہیں ہوتا، انہیں حکومت کی اسکیموں کا کوئی فائدہ نہیں ملتا۔ گھر چلانے کے لئے وہ شہروں کی جانب رخ کرتے ہیں اور جو یہ نہیں کر پاتے، وہ باغی ہوجاتے ہیں۔ یہ سب ہندوسان کے ہی نوجوان ہیں، لیکن ملک کی اقتصادی پالیسی نے انہیں زندگی کے ایسے جال میں پھنسا دیا ہے کہ وہ ملک و سماج سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ حکومت کی پالیسی کہیں یا پھر پالیسیوں کی غیر موجودگی۔ نوجوانوں کو بے چین بنا رہی ہے۔ جو امیر ہیں ان کے لئے یہ ملک، سماج، سیاست اور روایات وغیرہ سب کچھ بکواس ہے، جو غریب ہیں ان پر زندگی جینے کا بوجھ اتنا زیادہ ہے کہ سماج تو دور انہیں اپنے کنبے اور ماں باپ کے لئے بھی سوچنے کا وقت نہیں ملتا، اس کے لئے حکومت بھی ذمہ دار ہے۔ تعلیمی نظام ایسا ہے، جہاں تعلیم کا مطلب صرف سرٹفکیٹ حاصل کرنا ہے۔ ہمارے اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں ڈگری بانٹے ہیں، لیکن تعلیم دینے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج اسکول اور کالج کے طلبہ مجرم بن رہے ہیں۔ بینکوں میں ڈکیتی ڈال رہے ہیں۔ ایسی شرمناک خبریں بھی دیکھنے و سننے کو ملتی رہی ہیں کہ کلاس میں ساتھ پڑھنے والی لڑکیوں کا لحاظ و خیال نہیں رہا۔ملک میں ایسے حالات بن گئے ہیں کہ نوجوان راہ سے بھٹک رہے ہیں۔ انہیں راہ دکھانے کے لئے حکومت کچھ نہیں کر رہی ہے۔ وہ لیڈر خود بھی راہ سے بھٹکے ہوئے نظر آتے ہیں جو خود کو نوجوانوں کا لیڈر ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اب ہمارے سامنے یہی سوال ہے کہ کیا انہی کے کندھوں پر ملک کا مستقبل ہے یا یوں کہیں کہ ایسے راہ سے بھٹکے ہوئے نوجوانوں کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور دی جاسکتی ہے۔ اگر ہاں تو ملک کا مستقبل کیا ہوگا؟۔تحریر:۔عارف عزیز(بھوپال)