ہندوستانی سنیما کی پہلی ڈریم گرل تھیں دیویکا رانی

0
0

یو این آئی

ممبئی؍؍ ہندوستانی سنیما کی دنیا میں اپنی دلکش اداؤں سے ناظرین کو دیوانہ بنانے والی بہت اداکارائیں ہوئی اور ان اداکاری کے ناظرین آج بھی قائل ہے لیکن پہلی ڈریم گرل دیویکا رانی کو آج کوئی یاد بھی نہیں کرتا۔دیویکا رانی کی پیدائش 30 مارچ 1908 کو آندھرا پردیش کے والٹیر شہر میں ہوئی۔ ان کے والد کرنل ایم این چودھری کولین بنگالی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جنہیں بعد میں ہندستان کے پہلے سرجن جنرل بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ نو سال کی عمر میں دیویکا رانی تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلینڈ چلی گئیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد دیویکا رانی نے فیصلہ کیا کہ وہ فلموں میں اداکاری کریں گی لیکن خاندان والے اس بات کے سخت خلاف تھے کیونکہ ان دنوں سبھرانت خاندان کی لڑکیوں کو فلموں میں کام کرنے کی اجازت نہیں تھی۔انگلینڈ میں کچھ سال رہ کر دیویکا رانی نے رائل اکیڈمی آف ڈرامٹکل آرٹ میں اداکاری کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے آرکٹیچر میں ڈپلوما بھی حاصل کیا۔ اس دوران ان کی ملاقات بسر بلف نامی فلم ساز سے ہوئی جو ان کی قابلیت سے کافی متاثر ہوئے اور انہوں نے دیویکا رانی کو اپنی کمپنی میں بطور ڈیزائنر مقرر کر لیا۔ اس دوران ان کی ملاقات معروف صنعت کار ہمانشو رائے سے ہوئی۔ ہمانوا رائے میتھیو آرنلڈ کی شاعری لائٹ آف ایشیا کی بنیاد پر اسی نام سے ایک فلم بنا کر اپنی شناخت بنا چکے تھے ۔ ہمانشو رائے دیویکا رانی کی خوبصورتی پر فدا ہو گئے اور انہوں نے دیویکا رانی کو اپنی فلم ‘کرم’ میں کام کی پیشکش کی جسے دیویکا نے خوشی سے قبول کر لیا۔ہمانوم رائے نے جب سال 1933 میں فلم ‘کرم’ تعمیر کیا تو انہوں نے ہیرو کا کردار خود نبھایا اور اداکارہ کے طور پر دیویکا رانی کا انتخاب کیا۔ فلم کرم میں دیویکا رانی نے ہمانشو رائے کے ساتھ تقریبا چار منٹ تک بوس و کنار کے منظر دے کر اس وقت کے سماج کو حیران کر دیا۔ اس کے لیے دیویکا رانی کی کافی تنقید بھی ہوئی اور فلم پر پابندی بھی عائد کردی گئی۔ اس فلم میں دیویکا رانی کے فرراٹے دار انگریزی ڈائیلاگ ادائیگی کو دیکھ کر لوگ حیران رہ گئے ۔اس کے بعد ہمانشو رائے نے دیویکا رانی سے شادی کر لی اور ممبئی آ گئے ۔ ممبئی آنے کے بعد ہمانشو رائے اور دیویکا رانی نے مل کر بامبے ٹاکیز بینر قائم کیا اور فلم جوانی کی ہوا بنائی۔ سال 1935 میں ریلیز فلم دیویکا رانی کی یہ فلم کامیاب رہی۔ بعد میں دیویکا رانی نے بامبے ٹاکیز کے بینر تلے بنی کئی فلموں میں اداکاری بھی کی۔ ان فلموں میں سے ایک فلم تھی اچھوت کنیا۔ سال 1936 میں ریلیز ‘اچھوت کنیا’ میں دیویکا رانی نے گاؤں کی ایک لڑکی کی اس قدر حسین تصویر سلور اسکرین پر پیش کی جس کا کوئی ثانی نہیں۔ اس فلم میں اپنی اداکاری سے دیویکا نے ناظرین کو اپنا دیوانہ بنا دیا۔ فلم میں اشوک کمار ایک برہمن نوجوان کے کردار میں تھے جنہیں ایک اچھوت لڑکی سے پیار ہو جاتا ہے ۔ سماجی پس منظر پر بنی یہ فلم کافی پسند کی گئی اور اس فلم کے بعد دیویکا رانی فلم انڈسٹری میںڈریم گرل کے نام سے مشہور ہو گئیں۔اداکار اشوک کمار نے ایک بار اپنے انٹرویو میں فلم ‘اچھوت کنیا’ کو یاد کرتے ہوئے دیویکا رانی کے بارے میں کہا تھا "پوچھو مت اس جیسی ہیروئین کو چھو لینے کی تمنا لیے نہ جانے کتنے مر گئے ” اچھوت کنیا کی کارکردگی کے بعد دیویکا ملکہ فرسٹ لیڈی آف انڈین اسکرین کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ڈریم گرل اور پٹرانی جیسے اعزاز حاصل ہونے سے دیویکا رانی کے بارے میں یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس دور میں وہ کتنی مقبول رہی ہوں گی۔فلم اچھوت کنیا کے بعد دیویکا رانی نے اشوک کمار کے ساتھ کئی فلموں میں اداکاری کی ڈریم گرل اور پٹرانی جیسے اعزاز حاصل ہونے سے دیویکا رانی کے بارے میں یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس دور میں وہ کتنی مقبول رہی ہوں گی۔فلم اچھوت کنیا کے بعد دیویکا رانی نے اشوک کمار کے ساتھ کئی فلموں میں اداکاری کی۔ ان فلموں میں سال 1937 میں آئی فلم ‘عزت’ کے علاوہ ساویتری، نرملا جیسی فلمیں شامل ہیں۔ بعد میں دیویکا رانی نے کشور ساہو اور جے راج جیسے ہیرو کے ساتھ بھی کام کیا۔ سال 1940 میں ہمانشو رائے کی موت کے بعد دیویکا رانی نے بامبے ٹاکیز کو اپنے معاونین کی مدد سے چلایا اور پنرملن، بندھن، کنگن، جھولا، بسنت اور قسمت جیسی کامیاب فلموں کی تعمیر کی۔ فلم ‘قسمت’ بامبے ٹاکیز کے بینر تلے بنی فلموں میں سب سے کامیاب فلم ثابت ہوئی۔ اس فلم نے باکس آفس کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوئے کولکتہ کے ایک سینما ہال میں تقریبا چار سال تک مسلسل چلنے کا ریکارڈ قائم کیا جو کافی وقت تک قائم رہا۔سال 1944 میں دیویکا رانی نے فلم "جوار باٹا” تعمیر کیا۔ فلم ‘جوارا باٹا’ تاہم ناکام فلم تھی لیکن ہندی فلم انڈسٹری میں یہ فلم انمول ثقافتی ورثہ کے طور پر آج بھی یاد کی جاتی ہے کیونکہ اسی فلم سے اداکاری شہنشاہ دلیپ کمار نے اپنے فلمی کیریئر کی شروعات کی تھی اور دلیپ کمار کو فلم انڈسٹری میں لانے کا کریڈٹ دیویکا رانی کو دیا جاتا ہے ۔ سال 1945 میں دیویکا رانی بامبے ٹاکیز سے الگ ہو گئیں۔ دیویکا رانی کا خیال تھا محض پیسہ کمانا بامبے ٹاکیز کا واحد مقصد نہیں ہے ۔ ہمانشو رائے نے انہیں سکھایا تھا کہ فلم کاروباری طور پر کامیاب ہونی چاہیے لیکن یہ کامیابی فنکارانہ اقدار کی قربانی دے کر حاصل نہیں کی جانی چاہیے ۔ دیویکا رانی کو جب یہ محسوس ہوا کہ جب وہ ان اقدار کی حفاظت نہیں کر پا رہی ہے تو انہوں نے بامبے ٹاکیز کو الوداع کہہ دیا۔شوہر کی موت اور بامبے ٹاکیز کو چھوڑنے کے بعد دیویکا رانی تقریبا ٹوٹ سی گئی تھیں۔ اس دوران ان کی ملاقات روسی پینٹر سویتوسلاب رورک سے ہوئی۔ بعد میں دیویکا رانی نے ان سے شادی کر لی اور فلم انڈسٹری کو الوداع کہہ دیا۔ فلم انڈسٹری میں شاندار تعاون دینے کے لیے حکومت ہند نے سال 1969 میں جب دادا صاحب پھالکے ایوارڈ کا آغاز تو اس سب سے پہلے فاتح ‘دیویکا رانی’ بنی۔ اس کے علاوہ دیویکا رانی فلم انڈسٹری کی خاتون بنی جنہیں پدم شری سے نوازا گیا۔ اپنی دلکش اداکاری سے ناظرین کے دلوں پر راج کرنے والی دیویکا رانی 09 مارچ 1994 کو اس دنیا کو الوداع کہہ گئیں۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا