حکومت اکاونٹ ہولڈروں کا مفاد یقینی بنائے :کانگریس
لازوال ڈیسک
نئی دہلی؍؍اہم اپوزیشن جماعت کانگریس نے یس بینک معاملہ کی تفصیلی جانچ کراکر ذمہ داری طے کرنے کی آج مانگ کی اور کہاکہ حکومت کو یہ یقینی بنانا چاہئے کہ اکاونٹ ہولڈروں کو انکی ایک ایک پائی واپس ملے ۔سینئر کانگریسی لیڈر اور سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم نے یہاں کانگریس ہیڈکوارٹر میں نامہ نگاروں سے کہا کہ مارچ 2014میں یس بینک کا مجموعی بقایہ قرض 55,633کروڑ روپے تھا جو مودی حکومت کی پہلی مدت کار مارچ 2019تک بڑھ کر 2,41,499کروڑ روپے پر پہنچ گیا۔ اس دوران دیگر بینکوں کا بقایہ قرض اوسط 9فیصد کی سالانہ رفتار سے بڑھ رہا تھا جبکہ یس بینک کا بقایہ قرض 35فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھا۔انہوں نے کہاکہ بینکوں کی بیلنس شیٹ کی تفصیلات ریزرو بینک آف انڈیا اور وزارت خزانہ کے پاس بھی جاتی ہے ۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ اس کے باوجود نہ تو حکومت نے اور نہ ہی ریزرو بینک نے اس بات پر توجہ دی کہ یس بینک کا بقایہ قرض غیرمعمولی رفتار سے بڑھ رہا ہے ۔ یہ میری سمجھ سے پرے ہے ۔مسٹر چدمبرم نے مانگ کی کہ اس پورے معاملہ کی جانچ کرکے جوابدہی طے کی جانی چاہئے اور قصورواروں پر کارروائی کی جانی چاہئے ۔ انہوں نے کہاکہ اگر یہ محض بینک انتظامیہ کی مالیاتی ناکامی کا معاملہ ہے تو الگ طریقہ سے کارروائی ہونی چاہئے لیکن اگر اس میں کوئی مجرمانہ سازش ہے تو کارروائی بھی اسی کے مطابق ہونی چاہئے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ حکومت کو یہ یقینی بنانا چاہئے کہ اکاونٹ ہولڈروں کو ان کا پورا پیسہ واپس ملے ۔ کانگریس کی حکومت کے وقت میں جب بینکوں کا انضمام ہوا تھا اس وقت ہر اکاونٹ ہولڈر کو اس کی ایک ایک پائی واپس ملی تھی۔سابق وزیر خزانہ نے اعتراف کیا کہ یس بینک کے موجودہ بقایہ قرض میں کچھ ایسے قرض بھی ہوسکتے ہیں جو کانگریس کی قیادت والی ترقی پسند اتحاد کے دوراقتدار میں دیئے گئے ہونگے لیکن ان میں سے بیشتر مودی حکومت کی مدت کار میں دیئے گئے ہیں۔یس بینک کی تنظیم نو کے تحت ا سکی 49فیصد حصہ داری ریزرو بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) کو دینے کی تجویز کے بارے میں مسٹر چدمبرم نے شبہ ظاہر کیا کہ ایس بی آئی پر دباو ڈال کر یہ کام کرایا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ منصوبہ یہ ہے کہ ایس بی آئی یس بینک میں 2,450کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کرے گا اور اس کے بدلہ پرائیویٹ بینک کی 49فیصد حصہ داری اسے ملے گی۔ یہ کافی اٹ پٹا منصوبہ ہے ۔ آپ کم از کم دس روپے کی شرح سے یہ شیئر خرید رہے ہیں جبکہ یس بینک کانیٹ ورتھ تقریباََ صفر ہے ۔ مجھے نہیں لگتا کہ ایس بی آئی نے خود یس بینک کو بچانے کی تجویز رکھی ہوگی، ٹھیک اسی طرح جس طرح آئی ڈی بی آئی بینک کوبچانے کیلئے ایل آئی سی (لائف انشورنس کارپوریشن آف انڈیا) اپنی مرضی سے سامنے نہیں آیا تھا۔اعدا دو شمار شیئر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ مارچ 2014میں یس بینک کا بقایہ قرض 55,633کروڑ روپے تھا۔ مارچ 2015میں یہ 75,550کروڑ روپے ، مارچ 2016میں 98,210کروڑ روپے ، مارچ 2017میں 1,32,263کروڑ روپے ، مارچ 2018میں 2,03,534کروڑ روپے اور مارچ 2019میں 2,41,499کروڑ روپے پر پہنچ گیا۔سابق وزیر خزانہ نے الزام لگایا کہ صرف یس بینک ہی نہیں موجودہ حکومت کی حکمرانی میں تمام مالیاتی ادار ے بدنظمی کا شکار ہیں۔ مالی سال 2013-14سے اب تک بینکوں کو 7,78,000کروڑ روپے قرض کھاتہ میں ڈالنے پڑے ہیں۔ صرف 2018-19میں ہی 1.83لاکھ کروڑ روپے کو ڈوبی ہوئی رقم کے زمرہ میں ڈالا گیا۔ دسمبر 2019میں بینکوں کا مجموعی غیر کارآمد اثاثہ (این پی اے ) بڑھ کر 9,10,800کروڑ روپے پر پہنچ گیا۔ 31مارچ 2020تک چھوٹی اور درمیانہ صنعتوں کے بقایہ قرض کو این پی اے میں دکھانے پر روک ہے ۔ جب یہ روک ختم ہوگی تو مجموعی این پی اے مزید بڑھ جائے گا۔انہوں نے کہا کہ مدرا یوجنا کے تحت پہلے ساڑھے چار برس میں ہی دو لاکھ کروڑ روپے ڈوبی ہوئی رقم کے زمرہ میں ڈالے گئے ہیں جبکہ 17ہزار کروڑ روپے کا قرض این پی اے ہوچکا ہے ۔