اندھی دولہن

0
0

(محمودہ قریشی  آگرہ)

ثنا ایک نہایت حسین اور علی کردار کی ملک لڑکی ہے جس کے اخلاق وعادات کی سب ہی تعریف کرتے ہیں وہ اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ رہتی ہے۔یہ حقیقت امور عمل ہے کہ وہ ہر شخص و چیز میں کچھ نہ کچھ ایسا کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ مغرور نہ ہو جائیکچھ اس طرح  کمی کھتا ہیکہ انسان ا ور ساری مخلوقات اس واحد مالک کو یا د کرتا رہے جس طرح پھول کو کانٹوں کے ساتھ رہنا ہی ہو تا ہے ثنا کے ساتھ بھی کچھ اس طرح ہی ہو ا تھابچپن میں ایک حادثہ کے سبب اس کی انکھوں کی روشنی کم تھی اسے بالکل صاف صاف دیکھائی نہیں دیتا ہے جس وجہ سے وہ امتحانات میں بھی اچھے نمبر نہیں لا پاتی ہے لکین اس کا ذہن بہت ہی اچھا تھا جس درجہمیں ثنا پڑھتی ہے اسی درجہ میں صمد نام کا ایک لڑکا بھی پڑھتا ہے وہ ثنا سے دوستی کرنا چہاتا ہے شروع شروع میں ثنا اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتی لکین جب اسکول کے بعد دونوں ایک ہی کالج میں داخلہ لیتے ہیں تو صمد کالج میں ثنا کی مدد کرتا ہے جس سے ثنا بھی اس سے دوستی میں بندھ جاتی ہے ثنا نہایت حسین تھی اور صمد تو اس کو پہلے ہی سے پسند کرتا تھا جوانی کا عالم تھا اکثر بچچے  بچچئیوں کے پاوں ڈگمگا جا تے ہیں اور ثنا اس طرح صمد کی محبت میں گرفتار ہو جاتی ہے لکین صمد کو ابھی تک ثنا کی نگاہ کی کمزوری کا علم نہیں  تھا۔ایک دن صمد اور ثنا کالج میں میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے سامنے ایک ماسٹر صاحب ارہے تھے ان کا پیر پھسل جاتا ہے اور ان کے ہاتھ سے کتابیں چھوٹ کر گر جاتی ہیں اور خود بھی چاروں خانے چیت ہو جاتے ہیں سب دور دور سے دیکھ رہے لوگ ان کا مزاق بنا کر ہنسی کے ٹھکے لگا رہے تھے اور پاس والے لوگ ان کو اٹھانے کی کوشیش کر رہے تھے صمد یہ واقعہ ثنا  سے بھی دیکھنے کو کہتا ہے ثنا کو چونکہ دور کی چیزے صاف دیکھائی نہیں دیتی تھی اس وجہ سے اس کو کچھ دیکھائی نہیں دیتا وہ صمد کے بار بار اسرار پر کہتی ہے کیا ہوا ہے اور تم اس طرح کیوں ہنس رہے ہوں صمد کہتا ہے تم تو اندھی ہو گئی ہو جو تمہیں کچھ دیکھائی نہیں دے رہا صمد کے منھ سے یہ الفاظ سن کر وہ خاموش ہو جاتی ہے اور وہاں سے اٹھہ کر چلی جاتی ہے اور گھر جا کر زار وقطار رونا. شروع کر دیتی ہے اس کے زور زور سے رونے کی اواز سن کر اس کی بھابی اس کے کمرے میں داخل ہوتی ہیں اور ثنا کو روتہ ہوا دیکھ کر اس کے پاس اتی ہیں اور اس سے رونے کا سبب طلب کرتی ہیں ثنا اخیر ایسا کیا ہوا ہے جو اس طرح رو رہی ہو…. کیا اپنی بھابی کو بھی. نہیں بتاوگی۔۔۔۔۔۔ثنا ان سیلپٹ کر اور زیادہ روتی ہے کافی دیر رونے کے بعد جب بھابی اس کو کافی سمجھا کر چپ کراتی ہیں تو ثنا بھابی کو اپنے اور صمد کے بارے میں بتاتی ہے اور اج کا وہ واقعہ بھی بتاتی ہے جو کالج میں ہوا تھا  ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتاتی ہے کہ صمد کو اس کی انکھوں کی کمزوری کا علم نہیں ہے وہ کہتی ہے اگر بھابی اس کو میر ے بارے میں معلوم ہو گیا تو کیا صمد مجھے چھوڑ دیگا بھابی  کیا ہم دونوں کا قصہ یہیں ختم ہو جائے گا؟کیا ہم نہیں مل پایے گے۔ بھابی ۔۔۔،،، میں  صمد سے بے انتہا محبت کرتی ہوں،،بھابی ثنا کو سمجھاتی ہے کہ دیکھوں ثنا تمہیں زیادہ پریشان ہو نے کی ضرورت نہیں اگر  صمد تم سے سچچی  محبت کرتا ہے  تو اس کو  تمہاری  صرف اچھائیاں ہی دیکھائی دینگی کمی نہیں اور اگے جو ہوگا میں سنبھال لونگی تم بس اپنی پڑھائی پر توجہ دو بھابی ثنا کو یہ بھی بھروسہ دلاتی ہے کہ تمہارے بھائی کو اجانے دو میں ان سے بھی تمہارے اور صمد کے بارے میں بات کرتی ہوں       اب صمد کو یہ شک ہو نے لگا تھا کہ ثنا کو کچھ نظر میں پروبلم ہے لکین اپنے اس وہم کو غلط ثابت کرنے کے لئے اس بات پر کچھ  زیادہ ہی توجہ دینے لگتا ہے اور اس کا یہ شک یقین میں بدل جاتا ہے اور ثنا کے بارے میں اور اس کی نظر کی کمزوری کے بارے میں جان جاتا ہے اور ایک دن بہت غصے میں ثنا کے پاس اتا ہے اور کہتا ہے…. ثنا…..تم نے میرے ساتھ چیٹ کی ہے دھوکہ دیا ہے…. اور مجھے اندھرے میں رکھا ہے اور…ثنا میں کیا جان سکتا ہو کہ تم نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ثنا بلکل خاموش کھڑی سب سن رہی تھی صمد بس کہے جا رہا تھا وہ کہتا ہے ثنا جب تم میں اتنی بڑی کمزوری تھی تو تم نے میرے ساتھ…. میں تو تمہارے ساتھ زندگی گزارنا چہاتا تھا…. خیر چلو وقت کوئی بات نہیں ثنا دیکھوں میری بات کا برا مت ماننا غلطی تمہاری ہی تھی اب ہم…اب ہم اور تم اگے نہیں بڑ سکتے میں اج ہی یہ کالج اور شہر دونوں چھوڑ کر جا رہا ہو چونکہ میں تمہیں تمہاری کمزوری کے ساتھ نہیں اپنا سکتا اور صمد سب کچھ کہ کر چلا بھی جا تا ہے اور وہ وہی خاموش کھڑی تھی اسے یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ صمد کیسے اسے خواب دیکھا کر جا سکتا ہے، اسے بیچ راستہ پر چھوڑ کر وہ کیا وہ جا سکتا ہے کیا اس کی کمزوری بہت بڑی ہے؟وہ روتی ہوئی اپنے گھر کے لئے چل دیتی ہے وہ سوچتی ہے کہ صمد تم نیمجھے اتنا اگے ہی کیوں بڑھایا جہاں سے مجھے لوٹنے میں اس قدر دشواری ہو رہی ہے میں نے تو شروع میں تم سے منا ہی کیا تھا اج جب کہ میں تم سے محبت کرتی ہوں تو تم ہی لکین وہ یہ سب کس سے کہتی سوچتی کے گھر جا کر بھابی سے صمد کے بارے میں سب کچھ بتاو نگی لکین گھر اکر کیا دیکھتی ہے گھر پر بھائی جان ائے ہوے ہیں اور کچھ مہمان بھی ائے ہیں بھائی جان اور بھابی مہمانوں کی خاطر میں اس قدر مصروف ہیں کہ ان کو ثنا کے انے کی خبر تک نہیں وہ چپ چاپ اپنے کمرے میں جانے لگتی ہیں تب ہی بھابی اواز دیتی ہیں ثنا یہاں او. ثنا مہمانوں کے پاس اکر سلام کرتی ہے اور بیٹھ جاتی ہیں سب لوگ ثنا کو نہایت حیرت اور محبت بھی نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں ایک خاتون تو ثنا کو ایک ٹک ہی دیکھتی رہ جاتی ہیں اور پھر اٹھ کر ثنا کی پیشانی  چومتی ہیں اور سر پر ہاتھ پھرتے ہوئے کہتی ہیں کہتی ہیں بھائی ہمیں تو بس ایسی ہی بہو چہائے بس ہمیں تو ثنا دے دیجئے اور اپ لوگ بھی بس میرے بیٹے کو دیکھ لیجئے تو بس رشتہ پکا اور ہاں ہماری کوئی مانگ وانگ نہیں…. بھائی جان کہتیہیں ارے دیکھنا کیسا میرا تو وہ بچپن سے دیکھا ہوا ہے….ثنا کی کچھ سمجھ میں نہیں ارہا تھا یہ سب کیا باتیں کر رہے ہیں وہ ویسے ہی پریشان تھی اور پھر بھابی اس سے جانے کے لئے کہتی ہے وہ فورن اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے اور اس زور سے پھوٹ پھوٹ کر روتی ہے اور اپنی مجبوری پر اس قدر انسو بھاتی ہے تب بھابی کمرے میں داخل ہوتی ہیں وہ بھابی سے لپٹ کر اس طرح روتی کہ جس کی حد نہیں جب وہ بھابی کو صمد کے بارے میں بتانا چہاتی ہے تو بھابی اس  پہلے کہتی ہیں کہ ثنا تمہارے بھائی جان نے تمہارا رشتہ حسینہ بی کے یہاں طے کر دیا ہے  تمہارے بھائی جان بتا رہے تھے کہ ان کا بیٹا بہت اچھا ہے پورے گھر کی زمیدادی اس پر پے وہ تمہیں بہت خوش رکھے گا اور ہاں ثنا تمہارے بھائی جان نے ان کو زبان دے دی ہیں اور اسی مہینہ میں شادی کے لئے بھی کہ دیا ہے ثنا ان سے کچھ کہتی اس سے پہلے وہ چلی جاتی ہیں ثنا پہلے سے ہی رو رہی تھی اب یہ اچانک شادی کی بات سن کر اور رونے لگتی ہے اور اب اس کے پاس اس کو سمجھا نے والا بھی کوئی نہیں نئے اور پرانے خیالات اس کو اکر گھر لیتے ہیںاگلے روز حسینہ بی پھر سے اجاتی ہے اور بھائی جان سے کہتی ہے کہ کیوں نہ ہم لوگ اس ہفتہ ہی شادی کر دیں وہ کیا ہے نہ میرے بیٹے کو نوکری کے سلسلے میں ودیش جانا پڑ رہا ہے اور ہو سکتا ہے وہ وہی رہے  اس لئے میں چہاتی ہوں کہ اس ہفتہ ہی اس کے ہاتھ پیلے کر دو کچھ نہ صحیع اس کی بیوی تو ساتھ جا سکتی ہے بھابی منا بھی کرتی ہے کہ ہم لوگ اتنی جلدی  شادی کا انتظام کیوں کر کر سکتے ہیں لکین  بھائی جان ان کی بات قبول کر لیتے ہیں وہ بھابی کو بتاتے ہیں کہ وہ بھی اسی ہفتہ جانے والے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ ہم تمہیں بھی ساتھ لے جائے کم سے کم ثنا اپنے گھر کی تو ہو جائے گی اور ہمارا فرض بھی پورا ہو جائے گا ثنا کیا کر سکتی تھی صمد اس کو چھوڑ کر چلا گیا تھا وہ یہ.بات بھابی سے کہنا چہاتی ہے لکین بھابی کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتی ہیںاسی ہفتہ ثنا کا.نکاح حسینہ بی کے بیٹے کے ساتھ ہو جاتا ہے اسی روز بھائی جان اور بھابی کے ٹکٹ تھے وہ ثنا کو رخصت کر خود بھی اس شہر سے چلے جاتے ہیں اور ثنا کا نکاح ہو کر حسینہ بی کے گھر جا تی ہے گھرنئے دولہ دلہن کا استقبال جیسے ہی حسینہ بی کرنے والی ہوتی ہے کہ دولہ میاں کا موبائل بجتا ہے اور وہ فون پر بات کرنے کے لئے چلے جاتے ہیں اور حسینہ بی صرف ثنا کا استقبال کرکے اندر لے اتی ہیں ثنا جس کو اب تک معلوم ہی نہیں تھا کہ اس جس سے نکاح ہوا ہے وہ دیکھتا کیسا ہے چونکہ سب جلد بازی میں ہوا تھا کہ بس ثنا جب کمرے میں داخل ہوتی ہے تو سامنے دیوار پر صمد کی تصویر دیکھ کر چوک جاتی ہے صمد کی تصویر وہ بھی یہاں اس کو سب سمجھتے دیر نہیں لگتی کہ حسینہ بی کا بیٹا ہو نہ ہو صمد ہی ہو بہر قیف جو بھی ہو وہ من ہی من خوش ہوتی ہے کہ ابھی وہ شخص کمرے میں ائے گا تو سب صاف ہو جائے گا وہ بے صبری سے اپنے شوہر کا انتظام کرنے لگتی ہے جس طرح ایک نء نویلی دلہن کرتی ہے اس ہزاروں نئے پرانے خیالات اکر گھیر لیتے ہیں وہ کہتی ہے صمد بھی اس سے اتنی ہی شدت سے محبت کرتا تھا اور وہ اس کو زیادہ انتظار نہیں کر ائے گا چونکہ کوئی بھی شخص اپنی نء نویلی دلہن کو زیادہ دیر اکیلے نہیں چھوڑ سکتا اور ثنا اس طرح رات بھر نئے پرانے خیالات میں. اپنے شوہر کا انتظام کر تی رہتی ہے اور وہ رات بھر نہیں اتا اور اس طرح صبح ہو جاتی ہےصبح ہوتے ہی حسینہ بی زور زور سے رونے لگ جاتی ہے جب سب اپنے اپنے کمروں سے نکل کر اتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ حسینہ بی کا لاڈلہ بیٹا اج گھر ہی نہیں ایا سب اس کو ڈھونڈنے کے لئے نکل جاتے ہیں ثنا یہ سب دیکھتی رہتی ہے کہ یہ ہوا کیا پہلے اسے صمد چھوڑ کر چلا گیا اور اب اس کا شوہر جس کو وہ جانتی بھی نہیں کہ وہ صمد ہی ہے یا کوئی اور وہاں وہ بلکل تنہا تھی کس سے اپنے دل کا حال کہےاور اس طرح ایک مہینہ گزر جاتا ہے حسینہ بی کا بیٹا گھر سے بنا بتائے غائب ہے کسی کو کچھ خبر نہیں حسینہ بی ثنا کو طعنہ دے دے کر مار دالتی ہے کہ کون سی منحوس گھڑی تھی جو میں اس لڑکی کو بیاہ کر لائی جس دن سے یہ میرے گھر ائی ہے میں نے تو اپنے بیٹے کا چہرہ تک نہیں دیکھاثنا چپ چاپ سب برداشت کرتی ہے وہ یہ سب کس سے کہتی بھائی جان اور بھابی تو پہلے ہی جا چکے تھے،اور صمد بھی اس کو چھوڑ کر چلا گیا اب اس کا شوہر بھی حسینہ بی کے گھر کے اس کا کوئی ٹھکانا نہیں تھااس طرح ایک اندھی دولہن کو چھوڑ کر سب چلے جاتے ہیں وہ خدا کی بارگاہ میں عرض کرتی ہے یا خدا کیا اندھا ہونا میرا گناہ ہے، کیا میری کمزوری سے سب مجھ سے دور بھاگتے ہیں پہلے صمد  پھر بھائی جان اور اب میرا شوہر جس کو میں جانتی تک نہیں یا خدا  تو ہی میری قسمت کا فیصلا کر میں کہاں جاؤاس طرح نہ جانے کتنے صمد کتنی ہی ثنا کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور ان کو احساس تک نہیں ہوتا اور مصیبت جب بڑھ جاتی ہے جب کوئی ثنا کی طرح جسمانی ناراض میں مبتلا ہوتی ہیں ان کی سب ہی خصوصیات کو ان کی ایک کمزوری دبا دیتی ہے ان کے مصائب ان کے محاسن پر اتنے بہاری بیٹھتے ہیں کہ عمر بھر اس کی سزا بے چاری بچچیاں اٹھاتی ہیں

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا