19برس بعد تھاماامن کادامن

0
0

امریکہ اور افغان طالبان نے امن معاہدے پر دستخط کر دیے
14 مہینوں میں امریکی فوج کا افغانستان سے مکمل انخلا ممکن،19سالہ جنگ کاخاتمہ ہوگا
لازوال ڈیسک

دوحہ؍؍امریکہ اور افغان طالبان نے طویل عرصے سے جاری امن مذاکرات کے بعد معاہدے پر دستخط کر لیے ہیں جس کی مدد سے افغانستان میں گذشتہ 18 برس سے جاری جنگ کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔اگر افغان طالبان نے معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی تو امریکہ اور ان کے ناٹو اتحادیوں نے افغانستان سے اپنی تمام افواج اگلے 14 ماہ میں واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔معاہدے پر دستخط کی تقریب میں شرکت کے لیے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور دیگر افغان طالبان کے رہنما دوحا میں موجود تھے۔توقع ہے کہ اگلے مرحلے میں افغانستان کی حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کا آغاز ہوگا۔جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اتحادی افواج افغانستان میں موجود اپنے دستے اگلے 14 ماہ میں نکال لیں گی بشرطیکہ طالبان اپنے وعدوں پر قائم رہیں۔امریکہ نے نائن الیون کے واقعات کے چند ہفتوں بعد افغانستان پر حملہ کیا جہاں شدت پسند گروپ القاعدہ موجود تھا۔اس کے بعد سے اب تک 2400 سے زیادہ امریکی فوجی، ہزاروں طالبان جنگجو اور عام لوگ اس لڑائی میں ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ اس وقت بھی 12000 فوجی وہاں تعینات ہیں۔صدر ٹرمپ نے اپنی صدارت سنبھالنے کے بعد کہا تھا کہ وہ اس جنگ کو ختم کر دیں گے۔امریکہ میں نائن الیون کے واقعات کے ایک مہینے بعد، یعنی اکتوبر 2001 میں امریکی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں۔ امریکہ کا موقف تھا کہ نائن الیون کے حملوں کے لیے ذمہ دار ‘القاعدہ کی قیادت’ افغانستان میں موجود ہے۔مشرق وسطی کی ریاست قطر سنہ 2011 سے طالبان رہنماؤں کی میزبانی کر رہی ہے وہ وہاں افغانستان میں امن کے قیام کے لیے مذاکرات کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔تاہم یہ عمل مشکلات سے دوچار رہا ہے۔ سنہ 2013 میں طالبان نے دوحا میں اپنا سیاسی دفتر قائم کیا مگر اسی سال انھیں وہ دفتر بند کرنا پڑا گیا کیونکہ ان کی جانب سے جھنڈے کا استعمال کیا جا رہا تھا۔ اس کے بعد مذاکرات کا سلسلہ کبھی بھی جاری نہیں رکھا جا سکا۔سال 2018 کے آخر میں طالبان کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ وہ امریکہ حکام سے ملاقات کریں گے تاکہ امن کے قیام کے لیے کوششیں دوبارہ شروع کی جائیں۔ تاہم افغان طالبان اس بات پر مصر تھے کہ وہ افغانستان کی حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گے اور انھوں نے کہا کہ وہ ‘امریکہ کے پٹھو’ ہیں۔امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے نو مراحل کے بعد بالاخر اب ایسا لگ رہا ہے کہ فریقین معاہدے پر دستخط کرنے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ان مذاکرات میں امریکہ کی نمائندگی کرنے والے زلمے خلیل زاد نے گذشتہ سال ستمبر میں کہا تھا کہ امریکہ طالبان سے کیے جانے والے معاہدے کے بعد افغانستان سے 5400 فوجی اگلے 20 ہفتوں میں نکال لے گا۔لیکن اس بیان کے چند روز بعد ہی افغانستان میں ایک امریکی فوجی کی موت کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ‘مذاکرات ختم ہو گئے ہیں’ لیکن پھر چند ہفتوں بعد ہی مذاکرات میں دوبارہ آغاز ہو گیا۔ایک ہفتہ قبل طالبان کی جانب سے کہا گیا کہ وہ ‘تشدد اور حملوں میں کمی’ کرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں لیکن افغان حکام نے کہا کہ کم از کم 22 افغان فوجی اور 14 شہری اس عرصے میں طالبان کی جانب سے کیے گئے حملوں کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں۔ستمبر 2011 میں جب نیو یارک اور واشنگٹن میں دو اغوا کیا گئے طیاروں سے امریکہ پر حملہ کیا گیا تو اس کے ایک ماہ بعد امریکہ نے اْس حملے کے ذمہ دار شدت پسند گروپ القاعدہ اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن کے خلاف افغانستان میں فضائی حملے کیے۔بین الاقوامی اتحاد نے افغانستان میں اپنے جنگی دستے 2014 میں واپس بلا لیے اور اس کے بعد سے ان کا کام صرف افغان فوج کی تربیت کرنا تھا۔ البتہ امریکہ نے اپنی موجودگی برقرار رکھی تاہم ان کی جنگی کارروائیوں میں کمی آئی۔دوسری جانب طالبان نے اپنے حملے جاری رکھے اور وہاں پر اپنا اثر و رسوخ بڑھاتے رہے۔ گذشتہ سال بی بی سی کو معلوم ہوا کہ افغانستان کے 70 فیصد حصے پر طالبان کی موجودگی تھی۔سنہ 2001 سے سے جاری اس جنگ میں اتحادی افواج کے 3500 فوجی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ افغان شہریوں اور شدت پسندوں کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔فروری 2019 میں اقوام متحدہ کی جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق اب تک 32000 شہری اور 42000 شدت پسند ہلاک ہو چکے ہیں۔امریکی یونی ورسٹی براؤن کے ذیلی ادارے واٹسن انسٹٹیوٹ کی تحقیق کے مطابق 58000 سکیورٹی اہلکار اور 42000 شدت پسند اس جنگ میں ہلاک ہوئے ہیں۔طالبان سب سے پہلے 1989 میں منظر عام پر سامنے آئے جب سویت یونین کی فوجوں نے افغانستان سے انخلا کیا۔انھوں نے 1996 میں کابل پر قبضہ کر لیا اور اس کے بعد اگلے دو برسوں میں انھوں نے پورے ملک پر قبضے کر لیا اور ان کے دورِ حکومت میں پورے افغانستان میں سخت شریعت کا نفاذ کیا گیا۔طالبان نے اپنے دور میں ملک میں ٹی وی، موسیقی اور سنیما پر مکمل طور پر پابندی عائد کر دی جبکہ لباس کے سخت قوانین پیش کیے اور خواتین کی تعلیم پر بھی پابندیاں لگائیں۔ ان کے کسی بھی فیصلے کی خلاف ورزی کی صورت میں انتہائی سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔امریکہ کی جانب سے حملے اور بعد میں طالبان حکومت کے باوجود انھوں نے اپنی مزاحمت جاری رکھی اور ان کی قیادت سنہ 2013 تک ملا عمر کرتے رہے۔ لیکن اس سال انتقال ہونے جانے کے باوجود طالبان نے ان کی موت کی خبر اگلے دو سال تک چھپا کے رکھی۔اس وقت طالبان کی سربراہی ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کر رہے ہیں۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا