سرینگر کے ایک نجی اسکول پر باپ کی شکایت کا بدلہ بیٹے سے لینے کا الزام

0
0

لازوال ڈیسک

سرینگر؍؍ سری نگر میں واقع ایک نامی گرامی پرائیویٹ اسکول انتظامیہ چوتھی جماعت کے ایک کمسن طالب علم کو محکمہ تعلیم کی مداخلت کے باوصف مبینہ طور پر ہراساں کررہی ہے جو اس کے والد کے لئے پریشانی کا باعث بن گیا ہے۔سری نگر کے مضافاتی علاقہ ایچ ایم ٹی میں قائم دون انٹرنیشنل اسکول نے مبینہ طور پر چوتھی جماعت کے ایک طالب علم کو اسکول گاڑی کی سہولیت سے محروم رکھا ہے کیونکہ اس طالب علم کا والد، والدین کے اس گروپ کا حصہ تھا جس نے اسکول انتظامیہ کی طرف سے اس حکم نامے جس میں حکومت نے سال گزشتہ کے پانچ اگست کے بعد ہڑتال کے دوران بس فیس معاف کرنے کا حکم جاری کیا تھا، کے نفاذ کے انکار کے پیش نظر متعلقہ حکام کے پاس شکایت درج کی تھی۔طالب علم کے والد امتیاز احمد آہنگر کا کہنا ہے کہ اسکول انتظامیہ نے اسے اپنے بچے کو کہیں اور لے جانے کو کہا یا نتائج بھگتنے کے لئے تیار رہنے کی دھمکی دے دی۔دریں اثنا ناظم تعلیم کشمیر محمد یونس ملک نے یو این آئی کو بتایا کہ اس معاملے کی نسبت تحقیقات شروع کی گئی ہیں۔ تاہم یو این آئی نے جب اس سلسلے میں اسکول انتظامیہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے فون اٹھانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔آہنگر کا کہنا ہے کہ دون انٹرنیشنل اسکول نے صوبائی کمشنر کشمیر کے اس حکمنامے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا جس میں انہیں ہدایات دی گئی تھیں کہ وہ ہڑتال کے مہینوں کا بس فیس معاف کریں۔انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کو لے کر اسکول انتظامیہ اور والدین کے درمیان معاملہ سلجھ نہیں گیا تو والدین نے صوبائی کمشنر کے پاس جانے کا فیصلہ لیا جس کے بعد اسکول انتظامیہ بس فیس معاف کرنے کے لئے راضی ہوئی۔موصوف والد نے کہا کہ یہ اسکول محکمہ تعلیم کی طرف سے جاری حکمنامے سے قبل ہی 15 فروری کو کھل گیا اور میری حیرت کی اس وقت کوئی حد نہیں رہی جب اسکول بس ڈرائیور نے یہ کہہ کر میرے بیٹے کو اٹھانے سے انکار کیا کہ انتظامیہ نے منع کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ میرا بیٹا اسکول جانے کے لئے بہت ہی بے قرار تھا لیکن وہ بہت ہی مایوس ہوا جب ڈرائیور نے اس کو اٹھانے سے انکار کیا۔امتیاز احمد نے کہا کہ میں حیران ہوں کہ جب تمام والدین نے بس فیس ادا کرنے کے خلاف آواز بلند کی تو مجھے ہی نشانہ کیوں بنایا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ جب میں متذکرہ اسکول اپنی شکایت لے کر گیا تو وہاں اسکول انتظامیہ نے مجھے بچے کو اسکول سے نکالنے کو کہا، میں بعد ازاں ناظم تعلیم کشمیر کے پاس گیا جنہوں نے مداخلت کرکے مجھے یقین دہانی کی کہ بچے کو اب اسکول گاڑی میں اٹھایا جائے گا۔امتیاز آہنگر نے کہا کہ لیکن اگلے روز میرے بیٹے کو ایک بار پھر نہیں اٹھایا گیا تب سے میں در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہوں تاکہ میرا بیٹا اسکول جا سکے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا