جموں وکشمیر کی نئی حدبندی کا معاملہ

0
0

مین اسٹریم رہنمائوں کا حکومتی فیصلے پر ملا جلا ردِ عمل
کے این ایس

سرینگر؍؍جموں کشمیر میں 7اسمبلی نشستوں کے لئے حد بندی کی تیاریاں شروع کردی گئیں۔ اس دورا ن مختلف سیاسی پارٹیوں نے معاملے پر الگ الگ خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ پریش کانگریس کمیٹی کے جموں وکشمیر صدر، غلام احمد نے بتایا کہ ان نشستوں کا اضافہ کرنا تھا،اس کے لئے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے تاہم بی جے پی نے کونسا پلان ترتیب دیا ہو گا،وہ کام شروع کرنے کے بعد ہی معلوم ہوگا۔ سی پی آئی ایم کے رہنما محمد یوسف تاریگامی نے بتایاابھی کمیشن ترتیب نہیں دیا گیا ،انہوں نے بتایا کمیشن کے ترتیب دینے اور کام شروع کرنے کے بعد ہی کوئی رائے زنی کی جا سکتی ہے ۔ ادھر پی ڈی ایف کے حکیم محمد یاسین نے بتایاکہ یہ عمل عوامی حکومت وجود میں آنے کے بعد ہی ہونا چاہئے تھا، کیوںکہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ کسی بھی خطے یا طبقے یا علاقے کے ساتھ کوئی بھی ناانصافی نہیں ہونی چاہئے ۔سرکار کی جانب سے جموں کشمیر میں اسمبلی انتخابات کی نئی حد بندی کے فیصلے پر مختلف سیاسی پارٹیوں نے اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے الگ الگ خیالات کا اظہار کر کہا کہ کسی بھی خطے،فرقے،مذہب یا علاقے کے ساتھ کسی بھی قسم کی نا انصافی کو برداشت نہیں کیا جائیگا ۔ پردیش کانگریس جموں وکشمیر کے صدر، غلام احمد میر نے بتایا کہ حد بندی کوئی نئی بات نہیں ہے، تاہم جموں کشمیر میںسال2018ء میں سرکار گرنے کے بعد انتخابات منعقد کرانے تھے تا،ہم انہوں (بی جے پی )نے الگ الگ کھیل کھیلے ہیں ،کبھی گونر راج تو کبھی صدر راج نافذ کیا گیا ہے ۔ انہوں نے بتایا7نشستو ںکا اضافہ کرنا تھا جس کو وقت لگتا ہے۔ انہوں نے بتایا بے جے پی، آر ایس ایس نے اس حوالے سے کوئی پلان بنایا ہوگا۔ میر نے بتایا کہ ہم دیکھ لیں گے کہ یہ کس طرح ہوگا۔انہوں نے بتایا اگر کسی علاقے میں آبادی بڑ ھ گئی ہے، تو اس میں حد بندی کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ تمام ’پیرا میٹرس‘ کو دیکھنا بھی چاہئے ،کسی بھی خطے،فرقے،مذہب یا علاقے یا ٹوپو گرافی کے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں ہو نی چاہئے ۔میر نے بتایا کہ انہوں نے کون سا نقشہ تیار کر کے لایا ہے وہ تھوڑا بہت کام شروع کرنے کے بعد ہی پتہ چلے گا، اس کے لئے انتظار کرنا ہوگااور اس ساری صورت حال پر سب لوگوں کی نظریں ہیں ۔ انہوں نے بتایا کمیشن بٹھانا پہلے ہی طے تھا۔غلام احمد میر نے بتایا حد بندی کمیشن بٹھانے کے لئے ’ آئینی ترمیم ‘پارلیمنٹ میں لانی تھی جو ہمیںدیکھنے یا سنے میں نہیں آئی ہے اب کونسا راستہ بی جے پی ۔الیکشن کمیشن کی مدد سے لائی ہے وہ ایک الگ بحث ہے ۔ادھر سی پی آئی ایم کے رہنما ،محمد یوسف تاریگامی نے بتایا کہ ابھی کچھ کہنا مناسب نہیں ہوگا،کیونکہ حد بندی کا کمیشن ابھی وجود میں نہیں آیا ہے، یہ صرف الیکشن کمیشن نے اپنا نمائندہ مقرر کیا ہے اور کمیشن قائم کرنے کے بعد ہی کوئی بات کر سکتے ہیں۔ادھرسابق مرکزی وزیر،پروفیسر سیف الدین سوزؔ، نے کہا ہے کہ مرکزی وزارت داخلہ نے جموں و کشمیر کیلئے حد بندی کمیشن مقرر کرنے کو ترجیح دی ہے جس کے مضمرات کافی نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں۔انہوںنے کہا ’جب9 اگست 2019کو پارلیمنٹ نے جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019منظور کیا تھا ، تو اُسی وقت مجھے کشمیر سے متعلق نتائج کی پہنچان ہوئی تھی اور میں سوچ وچار میں لگ گیا تھا،اب چونکہ الیکشن کمیشن نے جموں و کشمیر یونین ٹریٹری کے لئے مجوزہ حد بندی کمیشن کا علان کیا ہے اور اس حوالے سے اپنے رُکن کو بھی نامزد کیا ہے ، اس لئے سب کو اس مسئلے پر سوچنا چاہئے‘۔سوز نے کہا میں کوئی وکیل نہیں ہوں ۔پروفیسر صیف الدین سوز نے بتایا اس لئے میں اس مسئلے پر سیاسی تناظر میں ہی سوچتا ہوں اور اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہوں۔ تاہم سب سے پہلے ، میری اہل کشمیر سے اپیل ہے کہ وہ اپنے حقوق کی حفاظت کیلئے جمہوری اور آئینی طرز عمل کو اپنائیں کیونکہ سوچ وچار سے ہی مسائل کا حل نکلتا ہے۔ انہوں نے کہادوسری بات جو میں کشمیر کے لوگوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں ،وہ یہ ہے کہ جموں و کشمیر کے آئین نے 2031تک حد بندی روک دی تھی ۔ اب وہ رعایت موجود نہیں ہے حد بندی کمیشن کو جموں وکشمیر یونین ٹریٹری میں 107 نشستوں کی تعداد میں7 نشستوں کا اضافہ کرنا ہے اور یہ اضافی نشستیں جموں اور کشمیر میں تقسیم ہوںگی۔سوز نے بتایا’ اس وقت جموںوکشمیر میں کوئی جمہوری فورم موجود نہیں ہے ، اس لئے سات نشستوں کی تقسیم میں کچھ اُلجھن پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ میری نظر میں ، مرکزی وزارت داخلہ کے لئے بہترین طریقہ یہ ہوتا کہ وہ یہ معاملہ آئندہ قانون ساز اسمبلی پر چھوڑ دیتی جہاں اس موضوع پر تبادلہ خیال ہونے کے بعد فیصلہ لیا جاتا۔ دریں اثنا ، یہ خبر آئی ہے کہ جموںوکشمیر کے دوسرکردہ لیڈر مظفر حسین بیگ اور سید محمد الطاف بخاری اپنے اپنے کام سے دہلی جا رہے ہیں ۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر یہ دونوں لیڈر وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سے ملتے اور عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے وہ حد بندی کا معاملہ ترجیحی طور اٹھاتے اور اُن کو اس مسئلے کی پیچیدگیوں سے روشناس کرتے‘۔ادھر پی ڈی ایف کے حکیم محمد یاسین نے کے این ایس کے ساتھ بات کرتے ہوئے بتایا پہلے بی جے پی کی سرکار میں ہی یہ فیصلہ کیا تھا کہ2026تک کوئی حد بندی نہ کیا جائے ،تاہم جموں کشمیر میں ہی کیوں کیا گیا،اگر کرنا ہی ہے تو پورے ملک میں کیوں نہ کیا گیا ہے ۔انہوں نے بتایا عوامی حکومت وجود میں آنے تک جموں کشمیر میں اس کا انتظار کرنا تھا۔ حکیم حاسین نے بتایا یہ ایک سیاسی قدم تھا اور سیاسی طور ہی اس کو عمل میں لانا تھا۔حکیم محمد یاسین نے کے این ایس کے ساتھ بات کرتے ہوئے بتایا کہ سرکار کو2026تک انتظار کرنا چاہے۔انہوں نے بتایا یہاں کے تمام سیاسی پارٹیوں کے لیڈران کے ساتھ بھی اس معاملے میں مشاورت ہونی چاہے ۔ خیال رہے جموں و کشمیر حدبندی کمیشن کیلئے سشیل چندرا نامزد:چیف الیکشن کمشنر سنیل ارورہ نے جموں و کشمیر کی حد بندی کمیشن کیلئے سشیل چندرا کو نامزد کیا ہے۔جموں و کشمیر کی تقسیم کے کئی ماہ بعد مرکزی حکومت نے جموں وکشمیر کی حد بندی کا کام شروع کر دیا ہے۔31اکتوبر 2019کو جموں و کشمیر کو دو مرکزی خطوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا، جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ2019کے مطابق ریاست میں ایک اسمبلی ہوگی، جبکہ لداخ میں اسمبلی نہیں ہوگی، وہ چنڈی گڑھ کی مانند کام کرے گا۔سشیل چندرا کے علاوہ کمیشن میں جموں وکشمیر الیکشن کمیشن کے چیئرپرسن اور سابق ممبران کے علاوہ سپریم کورٹ کے موجودہ یا ریٹائرڈ جج بھی اس کمیشن میں شامل ہوں گے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا