ہر مدّعا ہوا میں اڑا کر دکھا دیا

0
0

غزل
اِک دائرہ فضا میں بناکردکھا دیا

میرا سوال یہ تھا قیامت ہے کیا بلا
رخ سے نقاب اسنے ہٹاکر دکھا دیا

ہم نے کیا ہے جب کبھی اظہارِ، آرزو
پلکیں اٹھائیں اور گرا کر دکھا دیا

ان سے کہا کہ فلسفہ کیا ہے حیات کا
پانی پہ میرا عکس بنا کر دکھا دیا

پوچھا گیا کہ آخری خواہش بتائیے
ہم نے کبوتروں کو اڑا کر دکھا دیا

ساقی سے پوچھا شیخ جی آتے ہیں کیوں یہاں
میری نظر سے نظریں ملا کر دکھا دیا

منسوب میری ذات ہے اس باغبان سے
پتھر پہ جس نے پھول کھلا کر دکھا دیا

کچھ ساحری ضرور ہے اردو زبان میں
دشمن کو جس نے دوست بنا کر دکھا دیا

(خمار دہلوی)

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا