عمر عبداللہ کی نظر بندی ،سپریم کورٹ میں سماعت

0
0

جموں وکشمیر کی انتظامیہ،مرکز کے نام نوٹس جاری،2مارچ کو ہوگی اگلی سماعت
لازوال ڈیسک

نئی دہلی؍؍ سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت نظر بندی معاملے کی سماعت جمعہ کو سپریم کورٹ آف انڈیا میں ہوئی ،جس دوران عدالت عظمیٰ نے جموں وکشمیر کی انتظامیہ اور مرکزی حکومت کے نام نوٹس جاری کرتے ہوئے2ہفتوں کے اندر اندر جمع کرانے کی ہدایت دی جبکہ اس کیس کی اگلی سماعت 2مارچ کو ہوگی ۔یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے عمر عبداللہ پر پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق عمل میں لایا گیا ،جسے اُنکی بہن سارہ سارہ عبداللہ پائلٹ نے سپریم کورٹ آف انڈیا میں چیلنج کیا ۔سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے ) کے تحت نظر بندی کے معاملے کے حوالے سے جمعہ کو سپریم کورٹ آف انڈیا میں دائر ایک عرضی پر سماعت ہوئی ۔سپریم کورٹ کے ڈبل بینچ نے کیس کی سماعت کے دوران وکلاء کے دلائل سننے کے بعد جموں وکشمیر کی انتظامیہ اور مرکزی حکومت نے نام نوٹس جاری کی ۔عدالت نے دونوں حکومتوں سے جواب طلب کیا ہے کہ کیونکہ سابق وزیر اعلیٰ پر پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق عمل میں لایا گیا ۔جسٹس ارون مشرا کی سربراہی والے بینچ نے جموں وکشمیر کی انتظامیہ اور مرکزی حکومت کے نام نوٹس جاری کرتے ہوئے2ہفتوں کے اندر اندر جواب جمع کرانے کی ہدایت دی ۔اس کیس اگلی سماعت 2مارچ کو ہوگی ۔یاد رہے کہ سابق وزیر اعلیٰ پر پی ایس اے کے اطلاق کو اُنکی بہن سارہ عبداللہ پائلٹ نے سپریم کورٹ آف انڈیا میں چیلنج کیا ۔10فروری کو انہوں نے سپریم کورٹ میں اپنے بھائی اور سابق وزیر اعلیٰ جموں وکشمیر ،عمر عبداللہ کی پی ایس اے کے تحت نظر بندی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے ایک عرضی دائر کی تھی ۔اس کیس سماعت بدھ کو ہونی تھی ،جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ کی گرفتاری کے معاملے نے اُس وقت نیا موڑ لیا جب سپریم کورٹ آف انڈیا کی3 رکنی بیچ میں شامل ایک جج ،جسٹس ایم ایم شانتا نگو دار نے سماعت سے خود کو الگ کرلیا جسکی وجہ سے سماعت ملتوی ہوئی تھی ۔عمر عبداللہ 4 اگست، 2019کی رات سے سی آر پی سی کی دفعہ 107 کے تحت حراست میں ہیں۔ اس قانون کے تحت عمر عبداللہ کی6 ماہ کی احتیاطاً حراست کی مدت 5 فروری2020 کو ختم ہوئی ،تاہم حکومت نے انہیں دوبارہ پی ایس اے کے تحت حراست میں لے لیا ہے۔ سارہ عبداللہ پائلٹ نے کہا تھاکہ ان کے بھائی کو حراست میں رکھنا آزادی اظہار سمیت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے اور یہ تمام سیاسی حریفوں کو طاقت سے دبانے کے عمل کا حصہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ان کے بھائی پر جھوٹے اور من گھڑت الزامات عائد کیے گئے ہیں اور انہیں عوام میں مقبولیت اور ان پر حاصل اثر و رسوخ کی وجہ سے الزامات کا نشانہ بنایا گیا۔ عمر عبداللہ پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے شدت پسندی اور انتخابات کے بائیکاٹ کے مطالبات کے دوران اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب دی۔الزامات کے مطابق حریت رہنماؤں کی جانب سے انتخابات کے بائیکاٹ کے مطالبات کے دوران سابق مرکزی وزیر عمر عبداللہ عوام پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا تھا کہ جب انہوں نے انتخابات میں حملوں اور بائیکاٹ کے مطالبات کے باوجود عوام سے ووٹ ڈالنے کا مطالبہ کیا تھا، تو ان کے حلقے میں لوگ بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کیلئے نکلی تھی۔اپنی درخواست میں سارہ عبداللہ نے ان الزامات کو مضحکہ خیز الزامات قرار دیتے ہوئے کہا کہ عمرعبداللہ پر لوگوں کو انتخابات میں شرکت اور ووٹ کے جمہوری حق کے استعمال پر آمادہ کرنے کے الزامات ہیں۔ان کا کہناتھا کہ اس کے علاوہ سابق وزیر اعلیٰ جموں و کشمیر پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے حکومت کی جانب سے آرٹیکل370 کے خاتمے کی مخالفت کی اور ٹوئٹر پر لوگوں کو اس کے خلاف آواز اٹھانے کی ترغیب دی لیکن ان الزامات کے خلاف ثبوت کے طور پر کسی بھی ٹوئٹر پوسٹ کا حوالہ نہیں دیا گیا۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا