غیر ملکی سفارتکاروں کا وفد سری نگر وارد، جھیل ڈل کی سیر سے دورے کا آغاز
یواین آئی
سرینگر؍؍مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے 25 سفارتکاروں پر مشتمل ایک اور وفد سخت سیکورٹی بندوبست اور ڈرون کیمروں کی نگرانی میں وادی کشمیر میں مابعد پانچ اگست 2019ء پیدا شدہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے بدھ کے روز وارد سری نگر ہوکر گزشتہ دو وفود کے برعکس بادامی باغ علاقے میں واقع فوج کی 15 ویں کور کے ہیڈ کوارٹر کے بجائے شہرہ آفاق جھیل ڈل پہنچ گیا اور شکاروں و موٹر بوٹوں میں بیٹھ کر متذکرہ جھیل کی سیر سے اپنے دورے کا آغاز کیا۔واضح رہے کہ مرکزی حکومت کی طرف سے جموں کشمیر کو دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کی تنسیخ اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے کے پانچ اگست 2019ء کے فیصلوں کے بعد یہ کسی غیر ملکی وفد کا تیسرا دورہ کشمیر ہے۔قبل ازیں 23 ارکان پر مشتمل پہلا یورپی وفد 29 اکتوبر 2019 کو وادی کے زمینی حالات کا جائزہ لینے کے لئے وارد وادی ہوا تھا جبکہ 15 غیر ملکی سفارتکاروں پر مشتمل دوسرا وفد ماہ جنوری کی 9 تاریخ کو وارد وادی ہوکر حکومتی چنندہ وفود و صحافیوں سے ملاقی ہوا تھا۔گزشتہ غیر ملکی سفارتکاروں کے وفود کے عین برعکس یہ وفد جس میں کینیڈا، آسٹریلیا، ازبکستان، یوگنڈا، سلوواکیہ، نیندر لینڈ، نمیبیا، کرگستان، بلغاریہ، جرمنی، تاجکستان، فرانس، میکسیکو، ڈنمارک، اٹلی، افغانستان، نیوزی لینڈ، پولینڈ، روانڈا، ڈومینیکن ریپبلک اور یورپی یونین کے سفارتکار شامل ہیں، بادامی باغ علاقے میں واقع فوج کی 15 ویں کور کے ہیڈ کوارٹر کے بجائے گپکار روڑ پر واقع للت گرینڈ ہوٹل میں اپنا اپنا اسباب سفر رکھنے کے بعد شہرہ آفاق جھیل ڈل پہنچ گئے اورشکاروں و موٹر بوٹوں کی سواری سے اپنے دورے کا آغاز کیا۔ وفد کے بعض ارکان کو شکاروں و موٹر بوٹوں میں بیٹھ کر اپنے موبائیل سیٹوں سے جھیل کی ویڈیو گرافی کرتے ہوئے دیکھا گیا۔وفد کی آمد کے پیش نظر جھیل ڈل سیکورٹی حصار میں محصور کیا گیا تھا اور وفد کے ہمراہ سیول و پولیس کے اعلی افسران بھی تھے۔ نیز للت گرینڈ ہوٹل اور ڈل جھیل کے علاقوں کی فضائی نگرانی ڈرون کیمروں کے ذریعے انجام دی گئی۔ڈل جھیل کی سیر کے دوران جب نامہ نگاروں نے غیر ملکی سفارتکاروں سے ان کے دورے کے مقصد کے بارے میں پوچھا تو ڈومینیکن ریپبلک سے تعلق رکھنے والے سفارتکار نے کہا کہ وہ کشمیر بحیثیت سیاح آئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا: ‘ہم کشمیر کے دورے پر آئے ہیں۔ یہ بہت ہی خوبصورت جگہ ہے۔ ہم یہاں بحیثیت سیاح آئے ہیں’۔ افغانستان سے تعلق رکھنے والے سفارتکار نے کہا کہ انہوں نے ایئرپورٹ روڑ پر دکانیں کھلی دیکھیں اور بچوں کو سکول جاتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہاں سب ‘نارمل’ ہے۔ ان کا کہنا تھا: ‘میں نے اسکول کھلے دیکھے۔ لوگوں کو اسکول جاتے ہوئے دیکھا اور دکانیں کھلی دیکھیں۔ یہ وہ دنیا کا حصہ ہے جو میں دیکھنا چاہتا تھا۔ یہ بہت ہی خوبصورت جگہ ہے’۔ جھیل ڈل کی سیر کے بعد وفد للت گرینیڈ ہوٹل میں مختلف عوامی وفود، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سب حکومتی چنندہ تھے اور جن میں سیاستدان بشمول بی جے پی کے خالد جہانگیر اور کانگریس کے عثمان مجید، تاجر اور شعبہ سیاحت سے وابستہ لوگ شامل تھے، سے ملاقی ہوا۔ تاہم کانگریس کے عثمان مجید کا کہنا ہے کہ وہ ذاتی بنیاد پر وفد سے ملاقی ہوئے۔ ادھر مقامی میڈیا کے مطابق پولیس نے للت گرینڈ ہوٹل کے باہر نمودار ہوئے کچھ نوجوانوں کو حراست میں لیا۔ احتجاجی نوجوانوں جنہوں نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے، جن پر لکھا تھا: ‘ویو کشمیر یوتھ پاور ٹیم’، جموں کشمیر میں وفود کو لانے کے بجائے سرمایہ کاری کرنے کا مطالبہ کررہے تھے۔بی جے پی کے مقامی لیڈر خالد جہانگیر، جو کشمیر کا روایتی لباس پھیرن پہن کر ہوٹل پہنچے، نے سفارتکاروں سے ملاقات کے بعد کہا کہ حکومت ہند کو کشمیری سیاستدانوں بشمول عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو رہا کرنا چاہیے اور اگر وہ کرپٹ ہیں تو ان کے خلاف کرپشن کے کیس درج کئے جانے چاہیے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق وفد سری نگر میں شبانہ قیام کے بعد جمعرات کی صبح جموں روانہ ہوگا اور وہاں جموں کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر گریش چندرا مرمو کے علاوہ مختلف عوامی وفود سے ملاقی ہوگا۔دریں اثنا وادی کے لوگ اس تیسرے غیر ملکی وفد کے دورہ کشمیر سے قطعی طور پر لا تعلق دیکھے گئے۔لوگوں کے بعض حلقوں نے متذکرہ وفد کے دورہ کو سعی لاحاصل تو بعض نے غیر ملکی سفارتکاروں کو کشمیر کی سیر پر آنے کا بہانہ قرار دیا۔یو این آئی اردو نے جب اس سلسلے میں لوگوں کے ایک گروپ سے بات کی تو ان کا کہنا تھا: ‘اس سے قبل بھی غیر ملکی سفارتکاروں کے دو وفد وارد وادی ہوئے اور یہاں کے زمینی حقائق سے واقفیت حاصل کرنے کے بجائے چنندہ عوامی وفود سے ملاقی ہو کر نشستن، خوردن و برخاستن کے مصداق بن گئے تھے اور یہی حال اس وفد کا بھی ہوگا’۔ایک شہری نے کہا کہ کشمیر کی صورتحال کا جائزہ لینے کی غرض سے غیر ملکی سفارتکاروں کو کشمیر کی سیر کرنے کا بہانہ مل جاتا ہے ورنہ یہ بات طے ہے کہ اس سے کوئی مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ آج تک کسی بھی وفد کے دورے سے کشمیریوں کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا ہے اور اس وفد کے دورے کے بارے میں بھی یہی امیدیں وابستہ ہیں۔قابل ذکر ہے کہ غیر ملکی سفارتکاروں کے وفد کا یہ دورہ اس وقت ہورہا ہے جب دو سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی پر حال ہی میں پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کیا گیا جو سوشل میڈیا پر سیاسی گلیاروں سے لے کر صحافتی حلقوں تک گرم موضوع بحث بن گیا تھا۔