دل کو چھو لینے والا شاعر۔۔۔۔۔۔۔

0
0

پٹھان شبینہ آرا جموں و کشمیر

بشیر دادا  قدرت نے کشمیر کو جہاں بے پناہ خو بصورتی سے نوازا ہے وہیں اس سر زمین نے ایسے فنکاروں کو جنم دیا جنھوں نے اپنے فکر و فن سے وادی کی شان میں چار چاند لگا دیے۔لیکن بد قسمتی یہ کہ یہاں کے اکثر فنکاروں کی آوازیں شاید یہاں کے کوہ و بیا بانوں میں ہی کھو جاتی ہیں ۔لیکن بشیر دادا وادی کے ایک ایسے فنکار ہیں جن کی آواز، جن کی شاعری کشمیر کے ہر گھر میں دہائیوں سے گونج رہی ہے آج بھی آل انڈیا ریڈ یو کشمیر سے جب ان کے لکھے ہوئے گانے بجتے ہیں تو دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔بشیر دادا کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔وہ ایک اعلیٰ پایہ کے اداکار، ہدایت کار،ڈرامہ نویس اور شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ جے کے مراز کمراز اکیڈمی کے روح رواں بھی ہیں ۔جہاں وہ کشمیر کے نو آموز شعرا ء و ادباء کی سرپرستی کررہے ہیں ۔کتنے ہی نو آموز لکھنے والوں کے لئے آپ مشعل راہ بنے ہوئے ہیں۔ آپ نے اپنے فکر و فن سے ہزاروں لوگوں کے دل جیت لیے ہیں ۔اگر یوں کہا جاے کہ بشیر دادا اپنی ذات میں ہی ایک انجمن ہے تو بے جا نہ ہوگا۔جذبات و احساسات کے اس شاعر نے کشمیری کے ساتھ ساتھ اردو زبان کو بھی ایسی نادر تخلیقات سے نوازا جن کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ارودو غزل ہو یا نظم ہر جگہ ان کا منفر د انداز قاری کے دل کو چھو لیتا ہے مثلاً ان کی یہ غزل: محبت کی ہوائے دل ربا سے جھوٹ بولے گی حسیں کاذب ہے وہ اہل وفا سے جھوٹ بولے گی وہ اک اک جھوٹ جٹلانے کو سو سو جھوٹ بولے گیوہ خود سے جھوٹ بولے گی خدا سے جھوٹ بولے
میرے معصوم سچ کو کچہری میں لا کھڑا کرکےکوئی دیکھے کہ وہ کس کس ادا سے جھوٹ بولے گی
اسی کے جھوٹ سے گرداب میں اس کا سفینہ ہےمگر الٹا وہ ا پنے ناخدا سے جھوٹ بو لے گی
یہ مانا صبح صادق کو کرے وہ جھوٹ سے توبہاسی پل وہ مگر باد صبا سے جھوٹ بولے گی
عجب کیا جو اسے ہو جائے عمر ِجاوداں حاصلجو وہ شیریں دہن اپنی قضا سے جھو ٹ بو لے گی  بشیر دادا کے کلام میں جا بجا انسان دوستی خصوصاً ہندو مسلم اتحاد جو کشمیری کلچر کی پہچان ہے دیکھنے کو ملتی ہے۔ کشمیر کی زبوں حالی کے قصوں کی ان کی شاعری عکاس ہے نوے کی دہائی میں جب کشمیر کی آبادی کا بڑا حصہ کشمیری پنڈت ہجرت کرکے چلے گئے اس سانحے نے جہاں ہر کشمیری کو متاثر کیا وہیں بشیر دادا جیسے فنکار بھی ذہنی کرب سے دوچار ہوئے ۔وہ اپنے ان مہاجر بھائیو ںسے یوں مخاطب ہوتے ہیں جلی ٹوٹی ہوئی شاخوں پہ ہم بے بس ابابیلیںیہ دیپک راگ گاتی ہیںکہ ہم نے بلبلوں کو نوچ کرباہر دھکیلا یا وہ خود نکلیں اسی طعنہ زنی میں ابدہائی تیسری بھی ہے گزرنے کومگر افسوس اس دورانمہاجر بلبلوں نے آج تک ہم سے نہیں پوچھاکہ ہم بے بس ابابیلیں یہاں دل کے دھڑکنے کی سزائیں کیوں اٹھاتی ہیں مگر افسوس ہم نے بھی کہاں سوچاکہ ہم بھی ان مہاجربلبلوں کا حال تو پوچھیںجو اپنے آشیانوں سے دہکتی رات میں پر پھڑ پھڑا کر کس طرف نکلیں  مہاجر بلبلو سوچو ہماری دشمنی کیا ہے؟  بشیر دادا کی اس نظم کا یہ مختصر سا حصہ کشمیر کی آواز ہے ،اس لیے بشیر دادا ان استحصالی قوتوں کے خلاف اپنی شاعری کے ذریعے بر سر پیکار نظر آرہے ہیں ۔جنھوں نے اپنے مفاد کے لئے اس ارض جنت کو دوزخ نما بنا ڈالا اور یہاں نفرت کے بیچ بوئے:مرے ہم قوم ہم زباں میرےکیوں نہ مل جُل کے ہم سبب ڈھونڈیںنفرتوں کے بھڑکتے شعلوں میںکس کی شہ پر جھلس رہے ہیں ہمجو ترے میمنوں کا قاتل ہےمیری نظروں میں کیوں مکرم ہےمیرے ریوڑ کے خون کا پیاساتیری نظروں میں کیوں انوپم ہےتیرا قاتل ہے محترم میرامیرے قاتل کا تو پجاری ہےتیرے غصے کا مجھ کو پاس نہیںمیرے غم کا تجھے لحاظ نہیں آکہ کشمیریت کو سمجھیں ہمآکہ انسانیت کو پرکھیں ہممیرے ہم قوم ہم زباں میرے یعنی اگر کوئی صحیح معنوں میں کشمیر اور کشمیریت کو سمجھنا چاہے۔ تو  بشیر دادا کی تخلیقات کا مطالعہ کریں۔ان کے موضو عات کے ساتھ ساتھ ان کا ڈکشن بھی منفرد ہے۔ وہ ہندی الفاظ کے ساتھ ساتھ کشمیری الفاظ کو بھی مہارت کے ساتھ اردو میں استعمال کرتے ہیں مثلاً بروئے زمیں فردوسِ بریں تُلہ نار جلا تو اس کا کیاان کے کلام میں شگفتگی کے ساتھ ساتھ مبہم انداز میں طنز بھی دیکھنے کے ملتا ہے:تب سے ہمارے منہ میںہماری زبان نہیںجب سے دماغ ہم نے کرایے پہ دے دیاوہیں کہیں پہ اللہ سے عاجزی کے ساتھ یوں درخواست کرتے ہیںتیرے کمال سے ایمان اٹھ نہ جائے مرامرے زوال کو اتنا عروج مت دینا اور کبھی یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیںکہ  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کبھی اپنا گریباں  چاک کرکے  ترا دامن پکڑ کے رو پڑوں گااس مضمون میں بشیر دادا کے فن کا مکمل احاطہ نہیں کرسکتا بلکہ ان کے فکر و فن پر مفصل انداز سے کام کرنے کی گنجائش بھی ہے اور وقت کے ضروت بھی۔ کیونکہ ان کے فن سے اردو دنیا  اگروقت رہتے آشنا نہ ہوجائے تو یہ سراسر نا انصافی ہوگی۔

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا